عربی شہزادے ! گھوڑے اور گھوڑیاں
شیئر کریں
ہمارے مغل شہزادوں کے ادوار میں گھوڑوں کو پالنے کا شوق بدرجہ¿ اتم موجود تھا،خصوصی طور پر بیرون ممالک سے اعلیٰ نسل کے گھوڑے اپنے اصطبلوںکی شان بڑھانے کے لیے منگوائے جاتے تھے کہ اس دور میں یہی سواری عزت و وقار کی علامت ہوتی تھی۔ بادشاہان وقت ان پر سوار ہو کر بمعہ اپنے مصاحبین سلطنت کے دوروں پر جاتے، اکا دکا شکار بھی ہاتھ لگ جاتا تو اسے بھون کر کھا جاتے وگرنہ خصوصی طور پر شکار گاہیں اس مقصد کے لیے تیار کی جاتی تھیں۔ ذرا سا شہنشاہی ماتھے پر بل پڑ جاتا تو انسانوں کو بھی شکار کر ڈالا جاتا تھا، گھوڑوں کے پیچھے باندھ کر گھوڑوں کو دوڑانا موت سے ہمکنار کرنے کا ایک طریقہ تھا۔پھانسی دینے کے لیے دیگر بھی عجیب طریقے اپنائے جاتے، جیسے انار کلی کو زندہ چاروں طرف سے اینٹوں سے چنائی کر کے زندہ در گور کیا گیا تھا۔ پھر خدائے عزو جل کی غیرت نے ایسا جوش مارا کہ ہزاروں میل دور سے مسلمان نہیں بلکہ کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کو یہاں بھیج دیا اور وہ ہندوستان جس پر ایک ہزار سال سے زائد تک مغلوں کا طوطی بولتا رہا تھا، غلام بن کر رہ گئے ۔ پھر سینکڑوں سال بعد تحریکیں چلیں، مسلمانوں کی غیرت جاگی تو انگریز بوریا بستر لپیٹ کر چلتے بنے مگر جاتے جاتے وہ مسلمانوں کے ساتھ ایساہاتھ کر گئے کہ پھر صدیوں تک یہ اٹھ نہ سکیں۔ انگریزوں نے مسلمانوںسے حکمرانی چھینی تھی مگر بٹوارا کرتے وقت1/5 حصہ مسلمانوں کو اور4/5حصہ ہندوﺅں کو دیکر چلتے بنے۔ کشمیر، بنوں، جو نا گڑھ اور مشرقی پنجاب کے کئی علاقے جو کہ واضح طور پر مسلم اکثریتی علاقے تھے وہ جوان کے اپنے خود ساختہ نام نہاد فارمولے کے تحت مسلمانوں کے حصہ میں آتے تھے، وہ بھی نہ دیے گئے۔ مہاجرین بن کر مسلمان پاکستان کی طرف دوڑے توبھارتیوں نے وہ قتل عام کیا کہ الامان و الحفیظ۔پوری پوری گاڑیاں لاشوں سے اٹی پٹی واہگہ بارڈر پر پہنچتی تھی۔یہ داستانیں سن سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔پھر اپنوں کی ہی غداریوں سے ہم آدھا حصہ چھنوا بیٹھے،جس کے مجرم سبھی اگلی دنیا کو سدھار چکے ہیں۔ اصولی طور پر تو ان کی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادیں ہی قرق کی جانی چاہیں تھیں۔مگر ان مجرمین کی اولادیں و دیگر سود خور صنعتکار شاہانہ طور پر حکومتیں کر رہے ہیں۔اسی عیاشیانہ طریقے اور من مانیوں کا نام جمہوریت ہے۔ایوب، یحییٰ ،بھٹو ، ضیائ، بینظیر،نواز شریف، زرداری سبھی نہلے پر دھلا ہیں۔بیرون ملک کھربوں روپے جمع کرنا، پاکستانی خزانوں کو بیرونی سامراجی ممالک سے قرضے لیکر چلانا اور اس میں سے ہی وافر حصہ دھوکہ دہی، فراڈ اور بلیک منی سے بیرون ملک ڈمپ کر لینا ،وکی لیکس، پاناما لیکس ،بہاماس لیکس کے مطابق بیرون ملک پلازے، کارخانے، فلیٹس رکھ کر بھی جمہوری چمپئن کہلاتے رہتے ہیں۔ اب پھر شہنشاہی اندازسے اعلیٰ نسل کے گھوڑے باہر شہزادوں خصوصاً ان قطریوں کو جو کہ ان کے "دکھ درد کے ساتھی ” ہیں کو بھجوائے جارہے ہیں یہی نہیں وہ بھی جوق در جوق اپنے عیاش مصاحبین کے ساتھ شکار کی نیت سے مسلسل پاکستان میں وارد ہوتے رہتے ہیں، ان کی راتوں کو رنگین بنانے اور خمر و شباب کا انتظام بھی ہمارے ہی نام نہاد حکمرانوں اور بیورو کریٹوں کے ذمہ ہوتا ہے تو یقینا ان کے لیے بھی وہاں ” گھوڑے گھوڑیوں” کا انتظام کیا جاتا ہو گا ۔یوں "گلشن کا کاروبار”آپس کی مفاہمتوں اور رازداریوں سے چلتا رہتا ہے، کسی دور میں تحفہ بھیجنا ملکی وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا مگر اب قطریوں کو بھیجا گیا گھوڑے کا تحفہ حکمرانوں اور عوام کے منہ پر” دو لتیاں” مارتا ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ تحفہ نہیں سمجھا جارہا بلکہ رشوت ہے کہ آپ نے ہمارے بچاﺅ کے لیے خط بھیجا اور یہ گھوڑا جواب آں غزل ہے۔ یہ تو امر ربی ہے اورتاریخ سے بھی واضح کہ ایسی حرکات کے بعد جن کو دیکھ کر فرشتے بھی شرما جائیں تو پھر قہر خداوندی لازمی امر ہے۔
٭٭