شانزل ٹریک ویو پراجیکٹ میں گھپلے، زمین بھی مشکوک
شیئر کریں
کراچی میں شانزل ٹریک ویو نامی پراجیکٹ میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کا انکشاف، بلڈر نے لے آؤٹ پلان میں ہیراپھیری کرکے الاٹیز سے کروڑوں روپے لوٹ لیے ، الاٹیز پریشان، زمین کی حیثیت پر بھی سوالات اٹھنے لگے ، شاہ فیصل ٹاؤن میں شانزل ٹریک ویو نامی پراجیکٹ کا بیسمینٹ، گراؤنڈ پلس 15 منزلہ نقشہ منظور کیا گیا تھا، بلڈر کا موقف دینے سے انکار، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے موقف لیں، عبدالرحمن شانزل، تفصیلات کے مطابق کراچی میں شانزل ٹریک ویو نامی کثیرالمنزلہ پراجیکٹ میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کو انکشاف ہوا ہے ، روزنامہ جرأت کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے 18 اپریل کو شفقت اللہ کے اوشاکا بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کو شاہ فیصل ٹاؤن ضلع کورنگی کے پلاٹ نمبر 2/34 پر شانزل ٹریک ویو نامی بیسمینٹ، گراؤنڈ پلس 15 منزلہ پروجیکٹ کی این او سی برائے تشہیر و فروخت جاری کی تھی، جاری این او سی برائے فروخت و تشہیر کے مطابق بیسمینٹ، گراؤنڈ پلس 15 منزلہ اس پراجیکٹ میں A.1, 2.A, B. 1,B.2,B.3 اور سی کیٹیگری کے مجموعی طور پر 229 فلیٹس کی تعمیر اور سرکاری قیمتوں پر فروخت کرنے کی اجازت دی گئی لیکن بلڈر نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران سے ملی بھگت کرکے منظور شدہ نقشے میں ہیراپھیری کرکے من مانی کیٹیگریز بنا کر دو کمروں، 4 بیڈرومز، ڈرائنگ روم و دیگر ہیراپھیری کرکے شہریوں سے کروڑوں روپے اینٹھ لیے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ پراجیکٹ کے بلڈرز شفقت اللہ نے 229 فلیٹس کے بجائے5 25یونٹس کی بکنگ کرکے جعلسازی کے ذریعے کروڑوں روپے حاصل کرلیے ہیں، ایسے انکشافات سامنے آنے کے بعد الاٹیز پریشانی کے شکار ہیں، ذرائع مطابق اس پراجیکٹ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ پراجیکٹ کی زمین کی حیثیت پر سوال اٹھنے لگنے ہیں اور مذکورہ زمین کے بارے میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں جن کو آئندہ شامل اشاعت کیا جائیگا، دوسری جانب روزنامہ جرأت کی جانب سے رابطہ کرنے پر عبدالرحمٰن شانزل نے کہا کہ وہ موقف نہیں دیں گے ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے موقف لیں، مذکورہ پراجیکٹ کے مالک شفقت اللہ شانزل سے موقف لینے کیلئے متعدد بار کالز اور مسیجز کیے گئے لیکن انہوں نے موقف نہیں دیا، روزنامہ جرأت کی جانب سے موقف لینے کے لیے ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو بھی متعدد بار رابطے کیے گئے، مگر اُنہوں نے بھی جعلسازی کے اس پورے معاملے پر کوئی بھی موقف دینے سے گریز کیا۔