صرف پابندیاں نہیں سزائیں بھی دیں!
شیئر کریں
عدالت عظمیٰ کے سربراہ جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے متنبہ کیا ہے کہ اگر صحت اور تعلیم کے مسائل حل نہیں ہوئے تو اورنج ٹرین سمیت تمام منصوبے روک سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹرز کی ہڑتال، دودھ میں اضافے کے لیے بھینسوں کو انجکشن لگانے اور غیر قانونی شادی ہالز سے متعلق حکم امتناع پر بھی پابندی لگادی ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیے ہیں کہ تعلیم و صحت پر سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ حکومت ابھی تک ترجیحات کا تعین کیوں نہیں کرسکی۔ نجی اسپتال دونوں ہاتھوں سے کماتے ہیں۔ ہسپتالوں میں مشینیں خراب ہیں دوائیں غائب پیسہ تشہیر پر خرچ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹروں کو پرائیویٹ کلینک بند کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پورے ملک کے معاملات عدالتوں ہی کے حوالے کرنے پڑیں گے۔ چیف جسٹس کی برہمی اور اقدامات تو ایسا ظاہر کررہے ہیں لیکن عدالت عظمیٰ اور چیف صاحب کو کچھ چیزوں پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔
عدالت نے غیر قانونی تعمیرات بشمول چائنا کٹنگ وغیرہ کے خلاف حکم جاری کیا تھا لیکن شہری انتظامیہ اور صوبائی حکومت مخصوص شادی ہالز کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہت سے شادی ہالز، ہسپتالوں، اسکولوں اور رفاہی مقاصد کے لیے حاصل پلاٹوں پر قائم ہیں لیکن توڑ پھوڑ میں مخصوص ہالز کا انتخاب کیا جارہا ہے۔ متحدہ کے بعض رہنماؤں کے شادی ہالز پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہیں جب کہ کم تعلقات والے یا سیاسی مخالف لوگوں کے ہالز توڑے جارہے ہیں اور یہ کام نہایت چابکدستی سے کیا جارہا ہے یہاں تک کہ مختلف برادریوں کے 80 برس پرانے کمیونٹی سینٹر کو بھی توڑا گیا تا کہ خوب شور مچے اور عدالتوں تک اطلاع پہنچے کہ ان کے احکامات پر عمل ہورہا ہے۔ اس آڑ میں یہ غیر قانونی کام کرنے والے محفوظ ہیں۔ اسی طرح چائنا کٹنگ کرنے والے مزے میں ہیں۔ کوئی میئر ہے کوئی اپنی پارٹی چلارہا ہے پاک صاف پارٹی کے مزے لے رہا ہے۔ ملک کو لوٹنے والوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ان کو بھی سزا دی جائے تا کہ آئندہ کوئی عوام کے وسائل لوٹنے اور لٹانے کی ہمت نہ کرے۔ اصل مجرم تو یہی ہیںجو شادی ہالز توڑنے کے شور میں بچ گئے ہیں۔
جناب چیف جسٹس کی یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جس ملک میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو، اسپتالوں میں مریضوں کو دوا، ڈاکٹر، ٹانکا لگانے کو دھاگا اور بستر نہ ملے اور صرف اشتہار بازی ہورہی ہو وہاں ٹرینوں، بسوں اور سڑکوں کے افتتاح اچھے نہیں لگتے۔ لیکن چیف صاحب اگر مجموعی صورت حال دیکھی جائے تو یہ ہے کہ میڈیکل میں داخلے بند، این ٹی ایس کے نتائج بند، ڈاکٹروں کے کلینک بند، کثیر المنزلہ عمارتیں بند، اب اگر اورنج ٹرین سمیت تمام منصوبے بند کردیے جائیں گے تو ملک کے معاملات چلیں گے کیسے۔ لہٰذا منصوبے بند کرنے کے بجائے کرپٹ لوگوں کو بند کریں، منصوبے بند کرنا تو مسئلے کاحل نہیں ہے اس سے کرپٹ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ تو کوئی بھی غلط کام بڑے مزے سے کرنا شروع کردیتے ہیں کہ اگر پکڑے گئے تو منصوبہ بند ہوجائے گا۔ ہم کوئی اور دھندا شروع کردیں گے اورنج ٹرین منصوبے میں کرپشن کرنے والوں کو بند کریں۔ اسپتالوں میں ادویات نہیں ہیں تو اشتہارات بند کرکے رقم دواؤں اور سہولتوں کے لیے منتقل کرنے کا حکم جاری کریں۔ بھینسوں کو زیادہ دودھ کے لیے انجکشن لگانے پر پابندی کا حکم تو کسی زمانے میں عدالت عالیہ دے چکی اس پر عمل کیوں نہیں ہورہا۔ یہ انجکشن درآمد کیسے ہوجاتے ہیں، ان کی مارکیٹ میں فروخت کیوں کر ہوجاتی ہے، توہین عدالت پر مبنی اس کام پر حکومت اور اس کے اداروں کو سزا ہونی چاہیے۔ یہ ہر مسئلے کا حل بندش تو حکومتوں کے پاس بھی ہے۔ سڑک بند، موٹر سائیکل پر ڈبل سواری بند، بڑی بسیں بند، منی بسیں بند، رکشا بند، ہائی روف بند۔ یہ سب کام حکومتیں کرتی ہیں کیوں کہ ان کے پاس حل اور ارادہ نہیں ہوتا۔ عدالت عظمیٰ اب سزائیں دے کر عمل درآمد کرانا شروع کردے پھر یہ بدانتظامیاں اور بدعنوانیاں بند ہوں گی۔ سزا سے بڑھ کر کوئی چیز رکاوٹ نہیں۔ لیکن پابندیوں کے اثرات اور نتائج کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، حکومت ڈبل سواری پر پابندی لگاتی ہے اور سمجھتی ہے کہ دہشت گردی ختم۔ لیکن ٹرانسپورٹ مافیا اور پولیس کی چاندی ہوجاتی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے پانی کی عدم دستیابی یا کمیابی کی وجہ سے کثیر المنزلہ عمارتوں پر پابندی لگادی لیکن کھربوں روپے اور لوگوں کی عمر بھر کی پونجی کثیر المنزلہ عمارتوں کی قسطوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ ان عمارتوں کی اجازت جس نے دی تھی اسے جیل بھیج دیں حکومت کو پابند کریں کہ لوگوں کو پانی فراہم کرے۔ پابندی سے تو معاشی پہیہ بھی رک گیا ہے، اگر اورنج ٹرین منصوبے پر بھی پابندی لگ گئی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ منصوبے کی لاگت بڑھ جائے گی۔ اس منصوبے میں کرپشن ہے تو بعدعنوان کو پکڑ کر سزا دیں منصوبہ بند کرنا تو حل نہیں۔بند کرنا ہے تو لوگوں کو لاپتا کرنے پر پابندی لگائیں۔ جعلی پولیس مقابلے بند کرائیں۔ اس سے بہتری آئے گی۔
(تجزیہ)