نواب ثناء اﷲ زہری اور تحریک عدم اعتماد
شیئر کریں
میر افسرا مان
پاکستانکی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو کرپشن کے الزام میں آئین پاکستان کے مطابق صادق و امین نہ رہنے کی وجہ سے کسی بھی عوامی عہدے سے تاحیات نا اہل قرار دے دیا تھا۔ اپنی نااہلی کے باعث وہ نون لیگ ے صدر بھی نہیں رہ سکتے تھے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے انھیں نون لیگ کی صدرات سے ہٹ جا نے کا ٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔مگربعد میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے دنیا کا واحد قانون جس میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے نا اہل قرار پانے والے شخص کو قانون پاس کر نون لیگ کا دوبارہ صدر بنا دیا گیا۔2013 ء میں نواز شریف کی پارٹی دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی ۔ تو اس نے بلوچستان میں قوم پرستوں سے معاہدہ کیا کہ پہلے آدھے وقت کے لیے وہ حکومت بنائیں اور بعد میں آدھے وقت کے لیے نون لیگ حکومت بنائے گی۔ اس معاہدے پر بلوچستان میں گورنر بھی پشتونخوا ملی پارٹی کا گورنر بھی لگایا گیا۔ پھر نواب ثناء اللہ خان زہری نون لیگ کے لیڈر نے بلوچستان میں صوبائی حکومت بنائی۔جو اس وقت عدم اعتماد کی زد میں ہے۔ اس سے پہلے کی نواب ثناء اللہ خان زہری کی حکومت ختم ہو جائے ہم ان کی موافقت اور مخالفت کرنے والوں کا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ عدم اعتمادکیوں پیش کی جارہی ہے۔
سب سے پہلے تو بلوچستان کی صوبائی حکومت کے اپنے لوگ نو ن لیگ حکومت کے خلاف ہو گئے۔ جس میں وزیر داخلہ پیش پیش رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب کا نقطہ نظر ہے کہ آنے والے سینیٹ کے انتخابات میں نون لیگ کی کامیابی کو روکنے کے لیے یہ عدم اعتماد پیش کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے اور جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ہم نے وزیر اعظم خاقان عباسی کو یہ سازش دیکھنے کی ہدایات کردیں ہیں ۔ نواز لیگ کی وفاقی حکومت کے وزیر داخلہ صاحب احسن اقبال فرماتے ہیںکوئی قوت سینیٹ الیکشن سے پہلے سسٹم کو پلٹنا چاہتی ہے۔ بلوچستان کے اراکین صوبائی اسمبلی نے مجھے خود بتایا ہے کہ ان پر استعفوں کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ان حرکات سے ملک مظبوط نہیں کمزور ہو گا۔خواجہ سعد رفیق جو نواز شریف کے کی حمایت میں ہمیشہ عدلیہ اور فوج پر ناجائز تیر چلاتے رہتے ہیں ،نے کہا کہ بلوچستان م میں ہماری تعداد کم کرنے کے لیے مفادات سے نہ کھیلا جائے۔پشتونخوا ملی پارٹی کے صوبائی صدراور سینیٹر جناب عثمان خان کا کڑ نے کہا ہے کہ نواب ثناء اللہ زہری وزیر اعلی بلوچستان پر دبائو ہے کہ وہ اسمبلی توڑ دیں۔ جس سے آئند آنے والے سینیٹ کی انتخابات پر اثر پڑ نا ہے۔ نون لیگ کی طرف سے صوبائی وزیر معدنیات جناب حاجی محمد خان لہڑی نے کہا کہ نواب ثنا اللہ زہری کے ہاتھ مظبوط ہیں۔ دوسری طرف نون لیگ کے ایک اور کشور احمد جنک نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد والوں کو منہ کی کھانی پڑے گی ہماری حکومت قائم رہے ۔صوبائی مشیر سردار در محمد ناصر صاحب نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہم اکثریت ثابت کریں گے۔اتحادی حکومت جس میں نا اہل وزیر اعظم کی نون لیگ، قوم پرست محمود خان اچکزئی کی پشتونخوا ملی پارٹی،چوہدری برادران کی ق لیگ اور میر حاصل خان بزنجو کی نیشنل پارٹی شامل ہے کے ارکان بلوچستان اسمبلی پر عزم ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے نیشنل عوامی پارٹی کے حاصل خان بزنجو صاحب اور نواز لیگ کے اتحادی نے کہا ہے کہ یہ تحریک پر اسرار لگتی ہے۔ ممکن ہے کامیاب ہو جائے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سرداراختر مینگل صاحب نے کہا ہے کہ ہم عدم اعتماد کے حامی ہیں۔چند روز کے بعد کوئی ہم سے پوچھے گا ہم کو کیوں نکالا ہے ۔ شاید یہ موجودہ وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ خان زہری کی طرف اشارا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چار سال میں بلوچستان کے 165؍ ارب کے فنڈ لیپس ہو گئے۔ نا اہل لوگوںنے اس فنڈ کو وقت پر استعمال ہی نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سینیٹ کے لیے ووٹ فروخت کیے گئے۔ موجودہ حکومت نے جو بھی غلط کام کیے ہیں وہ بلوچستان کے عوام کے سامنے بیان کیے جائیں گے۔بلوچستان کے قوم پرست لیڈر اور نون لیگ کے اتحادی جناب محمود خان اچکزئی نے فرمایا بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کو نا کام بنائیں گے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زردادری صاحب نے بھی نواز شریف سے عداوت کا حق ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ نون لیگ کے خلاف بغاوت بلوچستان سے نکل کو قومی سطح پر نکل آسکتی ہے۔ نواز شریف نے وزیر اعظم خاقان عباسی صاحب کو فون کر کے کہا کہ نون لیگ کے ناراض ممبران صوبائی اسمبلی کو راضی کریں۔ جمعیت اسلام کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر مولانا واسع نے کہا کہ قوم پرستوں نے بلوچستان کو کھندارات میں تبدیل کر دیا ہے۔اربوں روپے کے منصوبوں کو مکمل نہیں کیا گیا جس کے لیے مختص کیے گئے فنڈس لیپس ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم متحد ہیں، ہم میں کوئی بھی اختلاف نہیں ۔ عدم اعتماد کی تحریک حکومتی ممبران میں اختلافات کا نتیجہ ہے۔
وزیر داخلہ بلوچستان کو وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے حکومت سے نکا دیا تھا۔ اس وجہ سے وہ بھی عدم اعتماد میں شریک ہو گئے ہیں۔ ق لیگ کے صوبائی وزیر شیخ جعفر مندوخیل بھی مستعفی ہو گیا ہے۔ اس طرح اب تک بلوچستان صوبائی حکومت کے چھ وزیر اور مشیر مستعفی ہو چکے ہیں۔ اس سے وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری کو ایک اور دھچکا لگا۔ سابق وزیر اعلیٰ اور موجود گورنر جناب نواب ذوالفقار علی مگسی نے کہا ہے گو کہ عدم اعتماد ہر کسی کا جمہوری حق ہے ۔ مگر اسے جمہوری طریقے سے ہی استعما ل کیا جائے۔ کسی بھی غیر جمہور ی طر یقے کو استعمال نہ کیا جائے۔ اس میں جمہوری اور اور قبائلی روایات کو مدنظر رکھا جائے۔صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکرعبدالقدوس بزنجو نے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ کہ وزیر اعلیٰ نے اپنے ساتھیوں کے بجائے اتحادیوں کو زیادہ ترجیح دی۔ اس لیے حالات اس نہج پر پہنچے ہیں۔ گو کہ صوبائی حکومت کے پاس فنڈز ہیںاختیارات ہیں اس کو استعمال کر کے وہ اپنے مقاصد حاصل کے گی۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں پھر بھی ہم سخت مقابلہ کریں گے۔
صاحبو! ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پاس ہونے میں فضل الرحمان صاحب کی بلوچستان کی پارٹی کے ممبران کا بڑادخل ہو گا۔ اگر وزیر اعظم خاقان عباسی صاحب فضل لرحمان صاحب کو راضی کر لیں۔ جو ہمیشہ کچھ لو دو پر راضی ہونے اورہمیشہ حکومتوں کی شامل رہنے کی بھی تاریخ رکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف 9؍ جنوری کو پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو گی۔ ہم اور پاکستان کے عوام بھی اس پر راضی ہیں کہ بلوچستان میں حالات درست رہیں۔ بھارت وہاں مداخلت کررہا ہے۔ عدم اعتماد پاس ہونے پر نئے آنے والے کون سے فرشتے ہونگے۔ اس لیے صوبہ بلوچستان میں نواب ثناء اللہ خان زہری کو باقی مدت پوری کرنی چاہیے ۔اس سے ملک مضبوط ہوگا۔