گامیرے منوا
شیئر کریں
دوستو، بھارتی ریاست مگھلاوا میں واقع کونگ تھونگ ایک عرصے سے عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں ہر بچے کا ایک اصل نام رکھا جاتا ہے اور ماں اسے ایک گیت یا گانے کے نام سے پکارتی ہے اور وہ بھی اس کا نام پڑ جاتا ہے۔تاہم یہ گیت بھی الفاظ کی بجائے سیٹیوں کی صورت میں ہوتا ہے جو صدیوں پرانی روایت کا ایک حصہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب گاؤں میں لوگ ایک دوسرے کو پکارتے ہیں تو وادی میں سیٹیوں جیسی آواز گونجتی ہے جو کانوں کو بھلی لگتی ہے۔اپنی مہمان نوازی، خوبصورتی، اور قدرتی مناظر کی وجہ سے اقوامِ متحدہ نے بھی اس گاؤں کو بہترین سیاحتی مقام قرار دیا ہے۔ کونگ تھونگ کی کل آبادی 650 سے زائد ہے۔ یہاں لوگوں کا ایک باضابطہ اور آفیشل نام ہے تو دوسری جانب گنگناہٹ پر مبنی ایک اور نام بھی موجود ہے۔جب کوئی بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو والدہ سے کہا جاتا ہے کہ جو بھی گانا اس کے دل میں آرہا ہے وہ گنگنائے۔ اس طرح وہ نغمہ بچے کا نام بھی ہوجاتا ہے۔ گانے کے بول ایک جانب سیٹی کی آواز میں ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس گاؤں کو سیٹیوں کا دیہات بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ حیرت انگیز عمل ہے کہ والدہ بچے کا گیت خود ہی وضع کرتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہاں رہنے والے تین قبائلی سینکڑوں سال قبل جنگلات میں شکار کا ہانکا لگانے یا پھر آسیب بھگانے کے لیے سیٹیاں بجاتے تھے جو تبدیل ہوکر انسانوں کے نام رکھنے کی وجہ بھی بنا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سیٹی نما ناموں کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو بہت دور سے بھی پکارسکتے ہیں۔ گیت والا ایک نام دس سے بیس سیکنڈ تک طویل ہوسکتا ہے۔ تاہم اب نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار کے لیے دوسرے مقامات تک جارہے ہیں اور یوں گاؤں کی آبادی کم ہوچکی ہے۔
کراچی میں سردی نے انٹری مار دی ہے۔موسم والے محکمے کا کہنا ہے کہ یخ بستہ ہوائیں چلیں گی۔ سردی میں مزید شدت جنوری میں آئے گی،لیکن جنوری کے آخر تک سردی کراچی سے رخصت پر چلی جائے گی۔ برسات اور سردیاں کراچی میں صرف جلوہ دکھانے آتی ہیں اور زیادہ دن ٹھہرتی بھی نہیں۔ سردیوں کے موسم میں بعض لوگوں کے پاؤں ہمہ وقت ٹھنڈے رہتے ہیں، خواہ وہ کسی گرم جگہ پر ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں۔ ماہرین نے اب اس کی پانچ وجوہات بتا دی ہیں جن میں سے کچھ بہت خوفزدہ کر دینے والی بھی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاؤں ٹھنڈے رہنے کی وجوہات میں ایک تھائیرائیڈ کا کم متحرک ہونا ہے۔ جب تھائیرائیڈ نامی غدود کم ہارمونز پیدا کرتا ہے تو اس سے جسم کے کئی اعضاء متاثر ہوتے ہیں اور خوراک سے توانائی کم بنتی ہے۔ صرف پاؤں یا پورا جسم ٹھنڈا رہنا اس عارضے کی علامت ہو سکتی ہے۔پاؤں ٹھنڈے رہنے کی ایک وجہ ’ریناڈز ڈیزیز‘ (Raynaud’s disease)بھی ہے۔ اس بیماری میں انسانی جسم سردی لگنے پر حد سے زیادہ ردعمل دیتا ہے، جس کے نتیجے میں ہاتھ اور پاؤں سردی سے منجمد محسوس ہوتے ہیں۔پاؤں ٹھنڈے رہنے کی ایک وجہ شوگر کی بیماری بھی ہے۔ اس کے علاوہ ذہنی پریشانی اور ہائی کولیسٹرول بھی پیروں کے ٹھنڈے رہنے کی وجوہات میں شامل ہیں۔ اگر آپ کو ہائی کولیسٹرول کا عارضہ لاحق ہے تو آپ کو ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہیے کیونکہ یہ اسٹروک اور ہارٹ اٹیک کا بھی سبب بن سکتا ہے۔
سردی کے موسم میں تقریبات میں جائیں تو مردوں نے بھاری بھرکم کوٹ اور جیکٹس وغیرہ پہن رکھی ہوتی ہیں جبکہ خواتین ایسے میں بھی سردی کا کم اور اپنے فیشن کا زیادہ خیال کرتی ہیں اور ایسے ملبوسات پہنے نظر آتی ہیں جیسے انہیں سردی لگتی ہی نہ ہو۔ اب ماہرین نے بھی اس حوالے سے ایک دلچسپ انکشاف کر دیا ہے۔ رواں سال اگست میں برٹش جرنل آف سائیکالوجی میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ خواتین کو واقعی مردوں کی نسبت کم سردی لگتی ہے اور اس کا تعلق نفسیات سے ہوتا ہے۔ اس تحقیقاتی ٹیم کی ایک رکن روزینی فیلنگ نے اب اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں اس حوالے سے بتایا ہے کہ خواتین کے لیے سردی لگنے سے زیادہ یہ بات اہم ہوتی ہے کہ وہ کتنی خوبصورت نظر آتی ہیں۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جب ہم کسی ایک چیز پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں اور اسے اولین ترجیح بنا لیتے ہیں تو ہمارے جسم کی دیگر انتہائی ضرورتیں بھی پس پشت چلی جاتی ہیں۔ یہی صورتحال خواتین اور انہیں سردی کم لگنے کے معاملے میں ہوتی ہیں۔ خواتین کے لیے پہلی ترجیح خوبصورت نظر آنا ہوتا ہے، وہ کتنی بھوکی ہیں اور انہیں کتنی سردی لگتی ہے وغیرہ جیسی باتیں ان کے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو سردی کم محسوس ہوتی ہے۔
کم خوابی یا نیند کاروٹھ جانا، اس کی شکایت ہمیں بھی ہے۔ پوری رات نیند نہیں آتی،شاید یہ کوئی عارضہ ہی ہے۔ گزشتہ تیس برس سے راتوں کو چاروں طرف گردن گھمانے والے پرندے کی طرح جاگتے رہتے ہیں، (اگر آپ کو سمجھ نہیں آیا کہ یہ پرندہ کون سا ہوتا ہے تو پھر ہماری طرف سے خود کو ’’الو‘‘ ہی سمجھیں)۔۔بہترین نیند کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ٹک ٹاک سے شہرت پانے والے ایک برطانوی ڈاکٹر نے اب اس سوال کا بہترین جواب دے دیا ہے۔ اپنی ایک ویڈیو میں ڈاکٹرصاحب بتاتے ہیں کہ رات کو بہترین نیند لینے کے لیے کبھی بھی سہ پہر 4بجے کے بعد قیلولہ مت کریں، اس طرح آپ کو رات کو نیند مشکل سے آئے گی۔ اس کے بعد روشنی بچنے کے لیے ’سلیپ ماسک‘ کا استعمال کریں۔ اندھیرا جتنا زیادہ ہو، دماغ اتنا ہی زیادہ میلاٹونین پیدا کرتا ہے جس سے نیند کامعیار بہتر ہوتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کا مزید کہنا ہے کہ سونے سے کئی گھنٹے قبل چائے، کافی اور شوگری مشروبات وغیرہ کا استعمال ہرگز مت کریں۔ مثال کے طور پر اگر آپ رات 10بجے سوتے ہیں تو دن 12بجے کے بعد ان تمام چیزوں سے اجتناب برتیں۔ سونے سے 3گھنٹے کے دوران کوئی بڑا کھانا مت کھائیں۔ اپنے بیڈروم کا ماحول پرسکون رکھیں۔ سونے سے 2گھنٹے قبل ہر طرح کے کام بند کر دیں اور صرف آرام کریں اور سونے سے ایک گھنٹے قبل موبائل فون سمیت ہر طرح کی اسکرین کا استعمال بند کر دیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سانحہ سیالکوٹ کے حوالے سے کسی نے کیا خوب کہا ہے۔۔ نیوٹن کے سرپرایک سیب گرا تو وہ سب کچھ سمجھ گیا اور دنیا کو ایک نئی تھیوری دے گیا،ہماری قوم پر کتنے ہی مصائب اور آفات گرچکیں لیکن ہم آج تک کچھ نہیں سمجھ پائے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔