امریکی اقداراورٹرمپ
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
یہ پہلاموقع تھاکہ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے امریکی صدرجس کے پاس ایٹمی بریف کیس کابٹن دبانے کی مکمل طاقت ہے،اس کے بارے میں امریکی الیکٹرانک میڈیاپرببانگ دہل ایک امریکی ماہرنفسیات دلائل کے ساتھ ٹرمپ کی دماغی صحت پراپنے شک وشبہ کااظہار کرتے ہوئے اپنے خدشات کااظہارکررہی تھی جس سے تمام دفاعی اورسیاسی تجزیہ نگاروں میں ایک خوف کی لہردوڑگئی تھی۔ ماہرنفسیات ڈاکٹرکاکہناتھاکہ ڈونلڈٹرمپ نے جب سے امریکی صدرکامنصب سنبھالاہے تب سے وہ ایسابہت کچھ کررہے ہیں جو امریکاکوایک عظیم
طاقت بنانے والے عوامل کے خلاف ہے۔انہوں نے قدم قدم پرایسی باتیں اورحرکتیں کی ہیں جوان کے منصب کے تقاضوں سے کسی بھی
طور میل نہیں کھاتیں۔ان کی کوشش رہی ہے کہ جوکھلنڈراپن ان کے مزاج میں پایاجاتاہے وہ امریکی صدرکے منصب میں بھی دکھائی دے۔ امریکاکوایک عظیم طاقت میں تبدیل کرنے والے اصولوں،طریقوں اور خواص کوانہوں نے نشانے پرلینے کی کوشش کی ہے اوریہ
بات اب بیشترامریکی زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں۔
عالمی سیاست کے حوالے سے کوئی بھی پیش گوئی انتہائی دشوارکام ہے۔حالات اتنی تیزی سے بدلتے ہیں کہ ہرپیش گوئی خطرے میں پڑ جاتی ہے اورٹرمپ کامعاملہ توہمیشہ سے پیچیدہ رہاہے۔ٹرمپ کے دورِ صدارت میں پہلے ایک سال کے دوران ایسابہت کچھ ہواجس کی بنیاد پر ان کے بارے میں پورے یقین سے کچھ کہناانتہائی دشوارہوگیاتھا۔ پیش گوئی کرنے والوں کوبھی اندازہ تھاکہ وہ اگرکچھ کہیں گے
توٹرمپ اس کے خلاف کچھ نہ کچھ کرکے انہیں ناکامی و ذلت سے دوچارکردیگا۔یہ بات البتہ پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ مورخین
جب ٹرمپ کے ادوارکے بارے میں لکھیں گے تواس نکتے پرضرورزوردیں گے کہ انہوں نے اپنے کھلنڈرے مزاج سے وہ نظم وضبط تباہ کر دیا جوامریکی صدرکیلئے لازم قراردیاجاتاتھا۔اب تک انہوں نے بہت کچھ اپنی خواہش کے اصول کی بنیادپرکیا،جس کے نتیجے میں امریکا کو کئی معاملات میں تھوڑی بہت سبکی کابھی سامناکرناپڑا۔اس کوسب نے محسوس کیاکہ ٹرمپ کے پاس اپناکوئی وژن نہیں تھا۔وہ کوئی ایسی
”گرینڈ اسٹریٹجی” تیارکرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے جس کی بنیاد پر کہاجاسکتاکہ وہ امریکی معاشرے اور قیادت کے ڈھانچے کو کوئی باضابطہ نئی شکل دینااوربحرانوں سے نکالنا چاہتاتھا۔ اس حوالے سے ان کی سنجیدگی کاگراف خاصا نیچارہا۔
کسی بھی ملک کیلئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کی کوئی واضح اوربڑی حکمت عملی نہ ہو۔اس مرحلے سے گزرے بغیرکوئی بھی ریاست ترقی تو کیا کرے گی،اپنا وجود بھی برقرارنہ رکھ پائے گی۔امریکاکوئی عام ملک نہیں،عالمی طاقت ہے۔اس کیلئے تو قیادت کے ڈھانچے کا مضبوط ہونااوربیشتربین الاقوامی معاملات میں واضح حکمت عملی کاہونالازم ہے۔امریکا میں ایک زمانے سے عظیم،ہمہ گیر حکمت عملی اپنانے کا رجحان رہاہے اوریہ رجحان محض اپنی پسندکانہیں بلکہ مجبوری اورلازم ہے۔امریکاسپر پاورہے،اسے کئی ممالک سے خصوصی تعلقات استوار رکھناپڑتے ہیں۔ہرخطے پرنظررکھناپڑتی ہے۔کسی بھی صدرکیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ملک کیگرینڈاسٹریٹجی سے ہٹ کرکچھ کرے۔ وہ اگر نمایاں حدتک بصیرت سے محروم ہواورمستقبلِ بعید کے بارے میں سوچنے اوراس حوالے سے کوئی واضح منصوبہ تیارکرنے کااہل نہ ہوتب بھی
اسے حکمت عملی کے حوالے سے بہت سے معاملات میں غیرمعمولی دلچسپی لیناہی پڑتی ہے۔ڈونلڈٹرمپ بظاہربصیرت کے حامل نہیں مگران کیلئے بھی ممکن نہیں تھاکہ ملک کی گرینڈاسٹریٹجی کونظراندازکرتے یااس سے مطابقت رکھنے والے اقدامات نہ کرتے۔ لیون ٹراٹسکی نے خوب کہاہے کہ اگرکوئی صدر گرینڈ اسٹریٹجی میں زیادہ دلچسپی نہ لیتاہوتب بھی گرینڈ اسٹریٹجی تواس میں دلچسپی لیتی ہی ہے۔یعنی پیچھے ہٹنے کی
گنجائش نہیں، صرف بڑھنے کاآپشن ہے۔
یہ نکتہ کسی بھی طورنظراندازنہیں کیاجاسکتاکہ ٹرمپ نے ایک اہم موقع پرامریکا کی صدارت سنبھالی تھی۔ ان کے انتخاب سے پہلے کے 70 برسوں میں امریکانے دوسری عالمی جنگ عظیم کے بعد سے ایک ایسی طاقت کاکرداراداکیاتھاجوپوری دنیاکو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کا
بھرپورعزم اورتوانائی رکھتی تھی۔امریکانے کئی خطوں کواپنی مرضی کے مطابق تبدیل کیا۔متعدد ممالک کوتعمیروترقی کی نئی جہتوں سے آشنا کیا اوردوسری طرف کئی ممالک امریکاکے ہاتھوں خرابیوں سے بھی دوچارہوئے۔ 1990میں سردجنگ کے خاتمے کے بعدامریکاچونکہ واحد سپرپاورتھااس لیے اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئیں۔تقریبا تین عشروں پرمحیط اس مدت کے دوران امریکانے اچھاکم اوربرازیادہ کیا ہے۔ بعض مواقع پر صاف محسوس کیاگیاکہ امریکا کیلئے معاملات الجھے ہوئے ہیں اوروہ جوکچھ بھی کررہاہے،اس کی پشت پریاتوبدحواسی ہے
یا پھرخوف۔
امریکی دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ حقیقت بھی نظراندازنہیں کی جاسکتی کہ ٹرمپ ایک ایسے وقت امریکاکے صدر منتخب ہوئے،جب چین اپنی پوری قوت کے ساتھ ابھرکرسامنے آچکاتھا۔چین ایک بڑاچیلنج ہے جس سے نمٹنے کیلئے امریکاکواپنی گرینڈ اسٹریٹجی تبدیل کرنا پڑے گی۔ایک طرف جہاں چین نے امریکاکی عسکری ومعاشی بالادستی کیلئے بہت بڑے چیلنج کی حیثیت اختیارکرلی ہے،وہاں خطے میں پاکستان جیسااہم اتحادی جس نے امریکاکودنیاکی واحدسپرپاوربننے میں اہم کرداراداکیا،سب کوعلم ہے کہ کشمیرمیں جاری ظلم وستم اور
پاکستان میں دہشت گردی کی بنا پر بھارت کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں لیکن امریکی بے وفائی اوربھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے اورافغانستان میں بدترین ہزیمت وشکست کے بعدپاکستان پربلاوجہ دباؤڈالنے کی غلط پالیسی اختیارکرنے کی بناپربھی سخت دھچکا لگا ہے اورردعمل میں خطے میں چین،پاکستان،روس اورایران کا ایک مضبوط بلاک بھی تشکیل پاچکاہے۔
ایک طرف چین نے امریکاکی عسکری ومعاشی بالادستی کیلئے بہت بڑے چیلنج کی حیثیت اختیارکی ہے اوردوسری طرف مشرق وسطی میں بھی صورتِ حال بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے جوامریکا کیلئے مشکلات پیداکررہی ہے۔یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ دنیابھرمیں جمہوریت کوبہترطرزِحکمرانی کی حیثیت سے قبول نہ کرنے کارجحان پروان چڑھ رہاہے۔عام آدمی یہ سوچنے پر مجبورہے کہ اگرآمریت اس کے مسائل حل کردے توجمہوریت کی کیاضرورت ہے؟
کئی عشروں سے امریکاعالمی سیاست ومعیشت پربلاشرکتِ غیرے متصرف رہاہے۔اس نے یورپ کوساتھ ملاکر اپنی مرضی کے فیصلے کیے
ہیں اوران فیصلوں کاپھل بھی کھایاہے مگراب بہت کچھ بدل گیاہے۔کئی ممالک تیزی سے مضبوط ہوکرابھرے ہیں۔ یورپ نے اپنی راہ بہت حد تک الگ کرلی ہے۔چین،روس،برازیل،جنوبی افریقااوردوسرے بہت سے ممالک تیزی سے مستحکم ہوئے ہیں۔ان کااستحکام
امریکی بالادستی کیلئے واضح خطرے کی شکل میں ابھراہے۔یہ سوال امریکامیں بھی جڑپکڑچکاہے کہ عالمی سیاست ومعیشت میں اب امریکا کیلئے کیارہ گیاہے۔موجودہ صدارتی انتخاب میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عالمی سطح پرامریکاکوبرترحیثیت برقراررکھنے کے قابل کس
طور بنایاجائے۔سیدھی سی بات ہے،چیلنجزبڑھ چکے ہیں۔ حکمت عملی میں غیر معمولی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے دورِ حکومت میں ایسا کچھ نہیں کیاجس سے اندازہ لگایاجاسکے کہ وہ آئندہ امریکاکو نئی بلندیوں پر لے جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔وہ بظاہراس سیاسی بصیرت سے محروم دکھائی دیئے جوکسی امریکی صدرکیلئے لازم سمجھی جاتی ہے مگراس کا یہ مطلب بھی ہر
گز نہیں کہ وہ اپنی شخصیت کاکوئی تاثرچھوڑنے میں مکمل ناکام رہے ہیں۔چند ایک معاملات میں انہوں نے بڑھک سے ہٹ کرعمل کے میدان میں اعتدال پسندی کاثبوت دیاہے مگرمجموعی طورپروہ اپنے اقوال واعمال سے امریکی فکرکومتاثرکرنے میں تھوڑے بہت کامیاب ضرور ہوئے ہیں۔یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ امریکانے جن اصولوں اور طریق کارکواپناکراب تک عالمی سیاست ومعیشت میں اپنی بالادستی کسی نہ کسی طور برقرار رکھی ہے انہیں ٹرمپ نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے اورکسی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ٹرمپ کادعوی ہے کہ جو کچھ وہ سوچتے اورکرتے ہیں اس سے امریکا کی طاقت اوردولت میں غیرمعمولی اضافہ ہوگااورعالمی سیاست ومعیشت میں امریکی بالا دستی برقرار رہے گی مگردرحقیقت ان کی پالیسیوں سے امریکاکونقصان پہنچاہے۔پالیسی سازاب یہ بات شدت سے محسوس کررہے ہیں کہ ٹرمپ کے آنے کے بعدسے امریکا کی سب سے بڑی طاقت والی حیثیت متاثرہوئی ہے۔جوکچھ وہ کہتے رہے ہیں اس کے وہ اثرات رونما نہیں ہوئے جو ہونے چاہیے تھے۔اب امریکیوں کواچھی طرح اندازہ ہوچکاہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں سے عالمی سطح پرامریکاکی پوزیشن قابل ذکر حد تک متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتی۔
امریکی پالیسی سازیہ دعوی بھی کرتے ہیں جس سے بڑی حدتک واضح اختلاف کیاجاسکتاہے کہ امریکانے چارنسلوں تک دنیاکو ایک ایسا نظام دیاہے جس نے امن،خوش حالی، استحکام اورجمہوریت کی راہ ہموارکی ہے۔یہ بات دیگرنظام ہائے سیاست سے موازنے کی صورت میں کہی جارہی ہے۔امریکانے عالمی سیاست ومعیشت پرجوبالادستی پائی وہ اس کی سخت قوت کانتیجہ تھی۔امریکاکے پاس بے مثال قوت تھی اور اس قوت کوبھرپوراندازسے بروئے لانے پربھی خاطرخواہ توجہ دی گئی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعدامریکانے باضابطہ عالمی طاقت کی حیثیت اختیارکی۔ایسانہیں کہ سردجنگ کے زمانے میں سابق سوویت یونین کے ہوتے ہوئے امریکاکی عالمی حیثیت اتنی مضبوط تھی جسے چیلنج نہ کیاجاسکتاتھاتاہم دنیادوواضح عالمی قوتوں کے درمیان تقسیم تھی۔ بظاہرامریکانے غیرمعمولی عسکری قوت کے ذریعے پوری دنیاکواپنی مٹھی میں رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن سردجنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کی عسکری قوت مزیدبڑھ گئی۔عالمی معیشت میں بھی اس کاحصہ اس قدربڑھ گیاکہ ایک مرحلے پرامریکی خام قومی پیداوارعالمی خام قومی
پیداوارکا25فیصدتھی۔دنیانے کسی ایک ملک کوباقی دنیاکے مقابلے میں اس قدرطاقتورکبھی نہیں دیکھالیکن امریکاکویہ مقام کبھی نہ ملتا اگر سوویت یونین افغانستان میں جارحیت کی غلطی نہ کرتااور پاکستان جیسااتحادی امریکاکی بھرپورمددنہ کرتالیکن امریکانے اپنی سابقہ تاریخ دہراتے ہوئے پاکستان کے ساتھ وہی سلوک کیاکہ جونہی سابقہ روس شکست وریخت سے دوچارہوا،امریکاوعدہ خلافی کرتے ہوئے پاکستان اورافغانستان کوبیچ منجدھارمیں چھوڑکر فوری طورپرپاکستان کے مخالف کیمپ کوگلے لگالیاکیونکہ بھارت نے بھی پانچ دہائیوں سے ایک وفادارساتھی روس سے بھی آنکھیں پھیرکرامریکاکی گود میں پناہ لیکراپنی برہمنی روایت کوقائم رکھاجس کاروسی وزارتِ خارجہ نے بھرپوگلہ کااظہاربھی کیا۔
لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مکافاتِ عمل نے چند برسوں کے دوران امریکی بالا دستی کیلئے بہت سے خطرات پیداکر دیئے ہیں۔اب چین،روس اوردیگرممالک ابھرکرسامنے آئے ہیں مگراس کے باوجود امریکاسمجھتاہے کہ اس کی عسکری اور معاشی قوت اب بھی اس قدرہے کہ وہ عالمی سیاست ومعیشت پرنمایاں حدتک متصرف ہے اورامریکی قیادت اب بھی دنیابھرمیں معاملات کوالٹنے اورپلٹنے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پرامریکاچاہتاتوایسی حکمت عملی ترتیب دے سکتاتھاجوصرف اس کیلئے کارگر ہوتی اور اسے زیادہ سے زیادہ عسکری ومعاشی قوت سے ہمکنارکرتی مگرپالیسی سازوں نے ایک ایسابین الاقوامی نظام ترتیب دینے پرتوجہ دی جس کے ذریعے صرف امریکا بھرپور استحکام سے ہمکنارنہ ہوبلکہ مجموعی طور پرتمام خطے ترقی کریں،خوش حالی پائیں اورخاص طورپرہم خیال ممالک زیادہ مستفید ہوں۔اس بین الاقوامی نظام کو چلانے کیلئے ادارے معرض وجودمیں لائے گئے،پروگرامزترتیب دیے گئے۔یوں اب تک بین الاقوامی نظام کے معاملے میں امریکا عالمی رہنماکی حیثیت اختیارکیے ہوئے ہے۔امریکانے عسکری اتحادتشکیل دیے۔کوشش کی گئی کہ بین الاقوامی تجارتی راستوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایاجائے۔یہ سب کچھ عالمی سطح پرامن برقراررکھنے کی خاطر کیا گیا، مگر درحقیقت امریکا یہ چاہتاتھاکہ ایک ایسی دنیاتشکیل دی جائے جس میں وہ خودزیادہ آسانی سے ترقی واستحکام سے ہمکناررہ سکے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پرامریکاچاہتاتوایسی حکمت عملی ترتیب دے سکتاتھاجوصرف اس کیلئے نہیں بلکہ اس کے قریبی اتحادیوں کیلئے بھی کارگرہوتی اورامریکازیادہ سے زیادہ عسکری ومعاشی قوت سے ہمکنارہوتامگرپالیسی سازوں نے ایک ایسا بین الاقوامی نظام ترتیب دینے پر توجہ دی جس کے ذریعے صرف امریکانہ صرف بھرپوراستحکام سے ہمکنارہو اوراس کے اتحادی مجموعی طورپرخطے میں ترقی اورخوشحالی
کیلئے اس کی بالادستی قبول کریں اورخاص طورپرہم خیال ممالک اس کی ہرپالیسی میں اس کے ہمنواہوں جس طرح مشرقِ وسطیٰ میں مسلم ممالک اورافغانستان کی تباہی میں اس کے تمام اتحادیوں نے اس کابھرپور ساتھ دیا۔اس بین الاقوامی نظام”ورلڈآرڈر”کوچلانے کیلئے
ادارے معرض وجودمیں لائے گئے،پروگرامزترتیب دیے گئے،یوں اب تک بین الاقوامی نظام کے معاملے میں امریکاعالمی رہنما کی حیثیت اختیارکرنے کے راستے پرگامزن ہے۔امریکانے عسکری اتحاد تشکیل دیے اورکوشش کی گئی کہ بین الاقوامی تجارتی راستوں کواپنے مفادات کیلئے زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایاجائے۔یہ سب کچھ عالمی سطح پرامن برقراررکھنے کے نام پرکیاگیالیکن اب اقوام عالم یہ سمجھ چکے ہیں کہ درحقیقت امریکایہ چاہتاتھاکہ ایک ایسی دنیا تشکیل دی جائے جس میں وہ خودزیادہ آسانی سے ترقی واستحکام سے ہمکناررہ سکے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعدکی دنیاکواپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی امریکی مساعی درحقیقت صرف اس مقصد کے تحت تھیں کہ عالمی سیاست ومعیشت میں اس کی بالادستی قائم ہو اورمسقل بغیرکسی چیلنج کے برقراررہے۔اسی لئے کویت عراق جنگ کے بعدجارج بش اول نے یہودی نژاد ہنری کسینجرکے تشکیل کردہ ”نیوورلڈآرڈ”رپروگرام کومتعارف کرانے کے بعدامریکانے جو عالمی نظام پراس قدر زور دیا تواس کابنیادی سبب یہ ہے کہ وہ معیشت،عسکری قوت اورسفارت کاری کے میدان میں اپنی پوزیشن زیادہ سے زیادہ مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ اس کیلئے وہ جودنیاتشکیل دینے میں مصروف ہے،اس کاواحدمقصداکیلے ہی اس سے بھرپوراستفادہ مقصودہے تاکہ عالمی معیشت کواپنی مرضی کے مطابق چلاکرامریکا اپنی طاقت میں بے پناہ اضافہ کرکے عالمی بالادستی کویقینی بنائے۔
یہ نکتہ نظر اندازنہیں کیاجاناچاہیے کہ امریکانے عالمی سیاست ومعیشت میں اب تک جوبھی مرضی کے فیصلے کیے ہیں ان کے حوالے سے اپنے اتحادیوں کیلئے زیادہ طاقت استعمال نہیں کی۔وہ اگرچاہتاتواپنی طاقت کے ذریعے غیر معمولی حدتک اپنی مرضی کے فیصلے کر سکتا تھا مگر اس کے بجائے کم استحصالی اندازاختیارکرکے امریکانے ان تمام ممالک کومجوزہ مفادات میں کچھ حصہ ضروردیاجوعالمی نظام کے حوالے سے اس کے تصورات کوقبول کرنے کیلئے تیارتھے۔دیگرسپرپاورزکے مقابلے میں امریکانے طاقت کے ذریعے بات منوانے پرکم توجہ دی۔ امریکا کے بہت سے شراکت داراس امرکابرملااعتراف کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی معاملے میں امریکاکی بالادستی سے اتنانہیں ڈرتے جتنا اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں امریکامعاملات سے الگ تھلگ نہ ہوجائے اورپھران ممالک کودیگرقوتوں کے ساتھ بھی سردجنگ کا سامنا کرنا پڑے!
ہرحال میں سب سے پہلے امریکاکانعرہ امریکی سیاست ومعیشت کیلئے بنیادی حیثیت رکھتاہے۔امریکانے کبھی اپنے مفادات کو کسی بھی صورتِ حال کے تابع نہیں کیا۔وہ صورتِ حال کواپنے مفادات کے تابع کرنے پریقین رکھتاآیاہے۔ایک یورپی سفارت کارکاکہناہے کہ یورپ نے70سال تک امریکاکی ڈفلی پررقص کیاہے۔ویتنام سے نکاراگواتک لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ اپنے ملک کے مفادات کو ہرحال میں تقویت بہم پہنچانے کیلئے امریکی حکام نے غیرمعمولی تشدداورظلم وجبر کی راہ پرچلنے سے کبھی گریزنہیں کیا۔معیشت اورسیاست سے ہٹ کربھی کئی معاملات میں امریکی اندازِ قیادت بہت اہم رہاہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعدسے امریکا نے عالمی سطح پرامن اوراستحکام کے حوالے سے غیرمعمولی کرداراداکرنے کی یہ وجہ بھی تھی کہ اس وقت دنیاسرمایہ داری اورکیمونزم نظام میں واضح طورپرتقسیم تھی اور امریکاکے اتحادی یہ سمجھتے تھے کہ امریکا عسکری امورمیں کمٹ منٹ کے مطابق کام کرنے اورڈلیورکرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتا ہے اور یہ کہ ایک انتہائی خطرناک دنیا میں حقیقی استحکام پیداکرنے اوربرقراررکھنے کی صلاحیت اگرکسی میں پائی جاتی ہے تووہ امریکاہے۔
امریکی صدوراس امرکیلئے کوشاں رہے ہیں کہ دنیابھرمیں ایسی جمہوریت اور بنیادی حقوق کی پاسداری کویقینی بنایاجائے جو امریکی قیادت کے تابع رہے اوراس کی واضح مثال ہمیں پہلے الجزائراوربعدازاں مصرکی مرسی حکومت کاتختہ الٹنے سے ملتی ہے۔امریکی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ عالمی سطح پربالادستی برقراررکھنے میں یہ بات بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے کہ اخلاقی سطح پرامریکاکیسی دنیا دیکھنا چاہتا ہے۔ امریکا نے اپنی اخلاقی بالادستی بھی یقینی بنانے کیلئیدنیابھرمیں کھلے معاشرے معرض وجودمیں لانے اورلبرل ازم کوبھرپورتقویت بہم پہنچانے کی کوششیں جاری رکھی ہیں۔
سابق امریکی وزیرخارجہ جارج شلزنے ایک بارکہاتھاکہ امریکانے زیادہ مستحکم تعلقات ان ممالک سے استواررکھے ہیں جہاں ایسی جمہوریت کی جڑیں گہری اورمضبوط ہیں جو امریکی اوراس کے اتحادیوں کی پالیسیوں سے مکمل آہنگی اوریکجہتی کا اظہارکریں۔یہ محض اتفاق نہیں،امریکاجن ممالک میں حقیقی جمہوریت اورسیکولرلبرل روایات دیکھناچاہتاہے ان کی طرف زیادہ جھکتاہے۔امریکی قیادت انہی ممالک سے بہترسیاسی اورمعاشی روابط کو فروغ دینے پرآمادگی ظاہرکرتی ہے جہاں کی سیاسی روایات امریکی اوراس کے اتحادیوں کی سیاسی روایات سے ہم آہنگ ہوں۔معاملات محض لین دین کی سطح سے کہیں بلندہوکر ورلڈآرڈرکے حقیقی نظریہ اورثقافتی ہم آہنگی مفادات تک تابع ہوں۔
ایسانہیںہے کہ امریکانے صرف سخت قوت(معاشی وعسکری)پرمداررکھاہے۔وہ اپنی بات منوانے کیلئے اوراپنی نمبرون پوزیشن برقرار رکھنے کیلئے دنیابھرمیں سوفٹ امیج بھی پھیلاتا ہے ۔امریکیوں نے ہردورمیں چاہاہے کہ دنیاان کے ملک کودیکھ کر صرف خوفزدہ نہ ہوبلکہ متاثر ہو کر متوجہ بھی ہو۔آج دنیابھرمیں امریکاکوسخت ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھاجاتاہے مگراس کے باوجوددنیاکے ہرملک کے باشندے چاہتے ہیں کہ انہیں کسی نہ کسی طورامریکامیں داخل ہونے کاموقع مل جائے۔جن ممالک سے امریکاکے تعلقات اچھے نہیں اور جہاں کے لوگ امریکا سے شدید نفرت کرتے ہیں وہاں بھی لوگ اس بات کے منتظررہتے ہیں کہ امریکی ویزالگ جائے یعنی مجموعی طورپرکہاجاسکتاہے کہ امریکا کی سخت قوت کو تقویت بہم پہنچانے میںنرم قوت نے بھی کلیدی کرداراداکیاہے۔ ناپسندیدہ ہوتے ہوئے بھی امریکامیں دنیابھرکے لوگوں کیلئے غیرمعمولی کشش پائی جاتی ہے لیکن صدافسوس کہ ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی نے امریکاکے برسوں سے قائم اس تاثرکوبری طرح نہ صرف مجروح کیابلکہ خودامریکی اعلی عدالت نے مداخلت کرکے ٹرمپ کی اس پالیسی کومستردکر دیاتھا۔
اب تک ٹرمپ نے جوکچھ کہاہے وہ اس امرکاغمازہے کہ وہ بنانے پرکم اور بگاڑنے پرزیادہ توجہ دیتے ہیں۔(ڈین ایچیسن کیلئے یہ بات بہت اہم تھی کہ وہ امریکاکی تخلیق کے وقت تھے)۔خودامریکی اورمغربی سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ کی بڑھکیں دیکھتے ہوئے یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ انہیں شاید کل کویہ بات قابل فخرمحسوس ہوکہ وہ امریکاکی تباہی کے وقت موجود تھے۔ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایسا بہت کچھ کہاجوبتاتاہے کہ انہیں بنیادی امریکی اقدارکی پاسداری کا ذرابھی خیال نہیں۔انہوں نے آزاد تجارت کے بجائے اپنے مفادات کوہرحال میں مقدم رکھنے کی تجارت پرزوردیا۔ ٹرمپ نے جمہوریت کیلئے اب تک ویسی پسندیدگی کااظہارنہیں کیا جیسی ان کے پیش روبیان کرتے آئے ہیں اورسب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے جمہوریت کے مقابل پوٹن کیلئے پسندیدگی کا اظہار کیا جو مطلق العنانیت کوبنیادی سیاسی قدرقراردے کرتمام اختیارات اپنی ذات میں سمیٹناچاہتے ہیں۔
امریکانے پانچ چھ عشروں میں جوکچھ بھی پایاہے اسے ٹرمپ ٹھکانے لگاناچاہتے ہیں۔ان کاخیال ہے کہ امریکانے جنگ کے بعدکے زمانے میں جوخارجہ پالیسی اپنائی وہ بہت سے معاملات میں مخالفین کواس قدررعایتیں دیتی رہی ہیں کہ اب وہ منہ دینے کاسوچ رہے ہیں۔ امریکانے دوسری جنگ عظیم کے بعدکی دنیا میں عالمی معیشت کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش ضرورکی ہے مگراس کوشش میں
اس نے اپنی مصنوعات اورٹیکنالوجی دنیابھر کودی ہے۔اس بات کو ٹرمپ جیسے لوگ پسندنہیں کرتے۔ان کاخیال یہ ہے کہ امریکاکو اپنی ٹیکنالوجیز اورجدید ترین مصنوعات ساری دنیا میں پھیلانے سے گریزکرناچاہیے۔
ٹرمپ نے امریکی فوج کو قیدیوں پرتشدد ڈھانے کی اجازت دیتے ہوئے یہ بھی کہاتھاکہ دہشتگردی ختم کرنے کی خاطراگرجنگی جرائم کا ارتکاب بھی کرناپڑے توایساکرنے میں کچھ ہرج نہیں۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ امریکانے کسی نہ کسی طوراپنی بالادستی کو برقرار رکھا ہے مگرٹرمپ تواسے ٹھکانے لگانے کیلئے بے تاب رہے۔ایسانہیں کہ جوکچھ ٹرمپ نے صدرکی حیثیت سے کہاوہ جذباتیت کی طرح پر تھا۔ وہ ایک زمانے سے کئی امریکی شراکت داروں پرشدید نکتہ چینی کرتے آئے ہیں۔انہوں نے80کے عشرے میں جاپان اورکویت کوشدید نکتہ چینی کانشانہ بناتے ہوئے کہاتھا کہ ان دونوں ممالک سے امریکاکوملاکم ہے اورامریکا نے دیازیادہ ہے۔اسی طورانہوں نے 2015 اور 2016میں جرمنی اور میکسیکوپرشدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاکہ ان دونوں ممالک نے امریکا کیلئے طفیلی کاکرداراداکیاہے۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے امریکاکے بعض شراکت داروں کے بارے میں جن خیالات کااظہارکیاوہ ان کے دوڈھائی عشروں کے خیالات ہی کاعکاس ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ نے صدرکی حیثیت سے امریکاکے بعض اتحادیوں اوراتحادیوں کے بارے میں جو کچھ کہاتھا،وہ محض بڑھک نہیں،جذباتیت کی سطح پرنہیں بلکہ وہ واقعی کچھ کرناچاہتے تھے،یعنی وہ امریکاکے بعض اتحادیوں کو ایک طرف ہٹانے اورنئے تعلقات استوارکرنے کی راہ پرگامزن ہونے کیلئے بے تاب تھے چاہے اس کیلئے امریکاکوکتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔کیاخودامریکا کے خیرخواہ اوران کے اتحادی ایک مرتبہ پھرٹرمپ کی ان پالیسیوں کے اجراکی حمائت کریں گے جس کی بناپرامریکاتیزی سے تنہائی کاشکارہونے جارہاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔