میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاک افغان تعلقات میں بگاڑ

پاک افغان تعلقات میں بگاڑ

ویب ڈیسک
بدھ, ۸ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

حمید اللہ بھٹی

کابل میں طالبان آمد سے کچھ حلقوں نے ایسا تاثر دیا تھا کہ پاک افغان سرحد پر اب امن یقینی اور تمام سرحدی مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ابھی تک ایسے کوئی آثار نہیں جن سے توقعات پوری ہوتی دکھائی دیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ماضی کی کٹھ پتلی افغان حکومتوں کی طرح طالبان قیادت بھی دراصل پاکستان کے تحفظات دورکرنے میں سنجیدہ نہیں۔ طالبان بھی نہ صرف مسائل حل کرنے میں عدم دلچسپی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے بلکہ امن و امان جیسے مسائل پیداکرنے میں ملوث عناصر کوبھی تحفظ اور سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ بظاہر دوستی کی دعویدار طالبان قیادت نے اب تو چندماہ سے دوستی کی باتوں کاتکلف بھی ترک کردیاہے ۔یہ رویہ دونوں ہمسایہ ممالک میں حکومتی اور عوامی سطح پر موجود تعلقات میں بگاڑ کا باعث بننے لگاہے۔ یہ بگاڑ پاکستان کے لیے بدامنی کا باعث تو بن ہی رہا ہے۔ بدحال افغانستان میں جاری تعمیر وترقی کی کاوشوں کوبھی سُست کر سکتا ہے ۔لہذا ضروری ہے کہ طالبان رہنما اپنے غیر دوستانہ رویے پر نظر ثانی کریں اور دونوں ممالک کے تعلقات میں بگاڑ کا باعث بننے والے عناصرکی سازشوں کاادراک کریں اور اُنھیں ناکام بنائیں۔ اِس میں صرف پاکستان کا ہی نہیں طالبان کا بھی بھلا ہے کیونکہ شرپسند عناصر کے خاتمے سے وہ پورے ملک پر اپنی گرفت مضبوط بنا سکتے ہیں۔
اِس میں شائبہ نہیں کہ پاکستان نے درپیش معاشی مسائل کے باوجود ہمیشہ افغان مہاجرین سے فیاضانہ سلوک کیا ۔یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کئی عشروں تک مہاجرین کو پورے ملک میں کہیں بھی آنے جانے اور کاروبارکرنے کی مکمل آزادی حاصل رہی۔ اِس فیاضی کا تقاضا تو یہ تھا کہ افغان مہاجرین امن سے رہتے اور ملکی قوانین کی پاسداری کرتے لیکن کچھ عناصر مہاجرین کی آڑ میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ یہی لوگ غیر قانونی اسلحے کا کاروبار کرتے ہیں۔ منشیات کی ترسیل کے ذمہ دار ہیں اوربڑے پیمانے پر اسمگلنگ کو پیشہ بنا چکے ہیں۔ انھی مہاجرین کی وجہ سے ملک میں روزگارکے مواقع کم ہوئے۔ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ،اب تو مذکورہ بالا لوگ قومی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ اسی لیے پاکستان نے فیصلہ کیا کہ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو نکال باہر کیا جائے اور جو رہناچاہتے ہیں وہ دستاویزات کے ساتھ رہیں اور ملکی قوانین کی پاسداری کریں۔ تعجب کا باعث یہ امر ہے کہ طالبان کا رویہ معاون و مددگار نہیں۔ بلکہ نہایت ہی غیر مناسب ہے ۔حالانکہ پاکستان کا غیر قانونی غیر ملکیوں کے خلاف فیصلہ منفرد نہیں۔ بلکہ دنیامیں کہیں بھی ایسی فیاضی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا کہ سب کے لیے آنے کے دروازے کھول دیے جائیں ۔تمام ممالک غیر قانونی آمد کوروکنے پر متفق ہیں۔ یورپ کے ساحلوں پر تارکین وطن کی کشتیاں ڈبونا سفاک طریقے سے غیر ملکیوں کو آنے سے روکنے کی مثالیں موجودہیں لیکن پاکستان انسانی حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کابھی کوئی فیصلہ کرے توبلاجواز تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو نامناسب ہے۔ بعض تنظیمیں اور مغربی ممالک افغانوں کی ہمدردی میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یورپ میں داخلے کے خواہشمندتارکین کوکوسٹ گارڈ کے اہلکار بچانے کی بجائے ڈوبنے کا تماشا دیکھتے ہیں ۔علاوہ ازیں طالبان جنھیں ملک کے اندربھی شورش کا سامنا ہے اُن کی تو ذمہ داری اوربھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ غیر قانونی آمدورفت کے تدارک کو یقینی بنائیں تاکہ نہ صرف ہمسایہ ممالک سے قریبی اور دوستانہ تعلقات برقرار رہیں بلکہ بدامنی پھیلانے میں ملوث گروہوں کا خاتمہ ہو لیکن پاکستان کی تمام تر فیاضی کے باوجود طالبان کی عبوری حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے جس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا کررہی ہے حالانکہ شرپسند عناصر اُن کے اقتدار کے لیے بھی چیلنج بن سکتے ہیں۔ اسی بناپر کہہ سکتے ہیں طالبان کاطرزِ عمل اُن کے اپنے مفاد کے بھی منافی ہے۔
پاکستان ایک سے زائد بار وضاحت کر چکا کہ غیر قانونی مقیم تمام غیر ملکیوں کے خلاف بلا امتیاز آپریشن کیا جارہا ہے۔ خاص طورپر صرف افغان نشانہ نہیں اِس دوران ایسے لوگوں کو پریشان نہیں کیا جارہا جن کے پاس کسی نوعیت کا ثبوت ہے یا افغان شہریت کارڈ ہے۔ البتہ جن کے پاس کسی قسم کی کوئی شناخت نہیں انھیں ہی بے دخل کیا جارہا ہے لیکن افغان عبوری حکومت کا خیال ہے کہ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن کا نشانہ کوئی اور نہیں صرف افغان شہری ہیں۔ ایسا خیال کرنا حقائق کے منافی ہے خطے میں غیر یقینی اور غیر کاروباری فضابنانے کے متمنی کچھ ممالک بھی افغان حکومت کے ہم خیال ہیں حالانکہ ایسے ممالک کے طالبان حکومت سے سفارتی تعلقات تک نہیں بلکہ انھوں نے مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کررکھی ہیں لیکن یہ ممالک چاہتے ہیں کہ پاکستان بددستور غیر قانونی غیر ملکیوں کی آماجگاہ بنا رہے۔ ایسا کیوں کیا جارہا ہے ؟یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں صاف ظاہر ہے کہ وہ چاہتے ہیں معاشی مسائل کے شکارپاکستان پر غیر قانونی لاکھوں افراد کا بوجھ ختم نہ ہو نیز خطے کے امن سے کھیلنے والوں سے کوئی روک ٹوک نہ ہو ۔اِس کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان کو چاہیے کہ قومی مفاد میں کیے جانے والے فیصلوں پر عملدرآمد میں کسی سُستی کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ ایسا یقینی بنائے کہ ملک میں کوئی بھی غیر ملکی قانونی طریقہ کار کے بغیر نہ آسکے کیونکہ دوستی اور بھائی چارہ اپنی جگہ،پاکستانی شہریوں کے جان و مال کا تحفظ بہرحال حکومت کی اولیں ذمہ داری ہے اگر طالبان کو اپنے شہریوں کا اتنا ہی احساس ہے توانھیں مہاجرنہ رہنے دے اور اپنے ملک لے جائیں افسوس کہ نہ توپاکستان میں مقیم اپنے شہریوں کو لے جاتے ہیں بلکہ جو افغانستان میں رہائش پزیر ہیں انھیں بھی پابندیاں لگا کر ملک چھوڑنے پر مجبور کررہے ہیںاِس لیے پاکستان کو افغان حکومت کو مطمئن کرنے کی بجائے اپنے شہریوں کے مفادکوترجیح دینی چاہیے ۔
کچھ عرصے سے افغان حکومت کا پاکستان پر مہاجرین کو ہراساں کرنے کا الزام لگانا وطیرہ بن چکا ہے اب تو کابل نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا ہے کہ اسلام آباد کا فیصلہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے معاملے پر دبائو کا حربہ ہو سکتا ہے۔ یہ سوچ یا طرزِ عمل بچگانہ اور اصل مسائل سے چشم پوشی کے مترادف ہے ۔افغان عبوری وزیراعظم ملا محمدحسن اخوند،وزیرِ دفاع ملا یعقوب بشمول وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی تک لاکھوں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو بے دخل کرنے کی حکمتِ عملی پر اِس کے باوجودکھلے عام تنقیدکرنے لگے ہیں کہ بے دخلی کا فیصلہ اُن تمام غیر ملکیوں کے لیے ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں۔یہ فیصلہ عالمی قوانین کے عین مطابق ہے اگر طالبان قیادت پاکستان کی بہی وخیرخواہ ہے تو اُسے پاکستان سے تعاون کرنا چاہیے تاکہ خطے میں غیر قانونی آمدورفت کا خاتمہ ہو اپنے شہریوں کوآنے جانے کیلئے قانونی طریقہ کار اپنانے پر زور دینے سے بڑی حد تک بہتری ممکن ہے ۔وائے افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا بلکہ طالبان قیادت بے جا تنقید سے مسائل بڑھانے کی روش پرگامزن ہے جوقابلِ مذمت ہے لیکن پاکستانی قیادت مت بھولے کہ ملک کے مفاد میں ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد میں مزید کسی کوتاہی یاتاخیر کی گنجائش نہیں۔ اِس لیے طالبان یا کسی کی پرواہ کیے بغیر ملکی مفاد کو پیشِ نظر رکھا جائے اگر غیر قانونی طورپر مقیم روزگارپر قابض غیر ملکی واپس چلے جاتے ہیں تو ملک میں بے روزگاری کی شرح میں بڑی حدتک کمی آسکتی ہے۔ توقع ہے کہ فیصلے کے نتیجے میں سترہ لاکھ تک غیر قانونی مہاجرین کی واپسی کا عمل ایک برس میں مکمل ہو گیاتو معاشی اور امن و امان کے مسائل کا شکا رپاکستان کی معیشت بہتر بنانے اور امن و امان کی بحالی میں نہ صرف مدد ملے گی بلکہ پاکستانیوں کے لیے روزگارکے مواقع بھی بڑھ جائیں گے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں