گجرات ماڈل‘ کی قلعی کھل گئی
شیئر کریں
بھارتی گجرات اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوچکاہے۔ وہاں یکم اور پانچ دسمبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور ووٹوں کی گنتی آٹھ دسمبر کو ہوگی۔اسی روز ہماچل پردیش اسمبلی کے انتخابی نتائج بھی منظرعام پرآئیں گے۔ گجرات میں بی جے پی پچھلے 27برسوں سے اقتدار میں ہے اور وہ خود کو ریاست کی ناقابل تسخیر قوت تسلیم کرتی ہے۔لیکن اس بار میدان میں کانگریس کے ساتھ ساتھ وہاں عام آدمی پارٹی کی موجودگی نے مقابلہ سہ رخی بنادیا ہے۔اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان پہلے ہی ہونے والا تھا، لیکن موربی سانحہ کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔امکان ہے کہ اس سانحہ کے اثرات انتخابی نتائج پر بھی پڑیں گے۔ اس معاملے میں حکومت کی مشنری نے جس لاپروائی اور غفلت کامظاہرہ کیاہے، وہ گجرات ماڈل کی قلعی کھولنے کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔
بلا شبہ موربی میں جھولتے پل پر پیش آئے خوفناک حادثے نے سبھی کو جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے۔تقریباً175 افراد کی دردناک ہلاکت سے پورا ملک غم زدہ ہے۔مرنے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔کئی خاندان پورے کے پورے ختم ہوگئے ہیں اوران کے گھر ماتم کدہ بنے ہوئے ہیں۔راجکوٹ کے بی جے پی ممبرپارلیمنٹ موہن کونڈریا کے گیارہ رشتے دار موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔بچاؤ کاموں کے دوران کئی مسلم نوجوانوں نے انسانیت کی لاج رکھی ہے اور درجنوں لوگوں کو ڈوبنے سے بچایا ہے۔ یہ ایک ایسی ریاست میں ہوا ہے جہاں مسلمان ہونا’جرم‘کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلہ میں جن دولوگوں کے نام سامنے آئے ہیں،ان میں پہلا نام حسین پٹھان کا ہے جنھوں نے 35زخمیوں کو اسپتال پہنچاکر ان کی جان بچائی جبکہ ماہر تیراک توفیق نے ندی میں کود کر تقریباً پچاس جانیں بچائیں۔یہ نفرت کے سوداگر وں کو منہ توڑجواب ہے۔
ہر حادثے میں جہاں غم واندوہ کے پہلو ہوتے ہیں تو وہیں مستقبل کی پیش بندیوں کے لیے ان عوامل کی چھان بین بھی ضروری ہوتی ہے جن کی کوکھ سے حادثہ نے جنم لیا۔کوشش یہ ہوتی ہے کہ مستقبل میں ان غلطیوں کااعادہ نہ کیا جائے اور ان لوگوں کو سزا ملے جن کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں سینکڑوں گھر ماتم کدے میں بدل گئے۔موربی شہر کے اس ہولناک سانحہ کے کئی اور پہلو بھی ہیں۔ پہلا تو یہی کہ یہ سانحہ اس گجرات میں ہوا ہے جو بی جے پی کے اقتدار والی سب سے پرانی ریاست ہے اور جسے ایک آئیڈیل ریاست کے طورپر دنیا میں پیش کیا جاتا ہے۔اتنا ہی نہیں یہاں ’ڈبل انجن‘ سرکار کے بھی بڑے جلوے ہیں۔گجرات کے بارے میں انگریزی کا ایک لفظ’وائبرنٹ‘بہت استعمال ہوتا ہے۔ اس کے معنی ہیں ’متحرک صوبہ‘۔یعنی گجرات ملک کی واحد ریاست ہے جو ترقی اور کامرانی کے معاملے میں سب سے زیادہ سرگرم اور متحرک قرار دیا جاتاہے۔ جس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے پروموٹ کیا جارہا تھا تو ان کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی گئی تھی کہ وہ ایک ایسی ریاست کے وزیراعلیٰ ہیں جو پورے ملک میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور متحرک ریاست ہے۔ اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا فسانہ ہے، یہ وہی لوگ بہتر جانتے ہیں جنھوں نے گجرات کو قریب سے دیکھا ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ موربی سانحہ نے گجرات میں بی جے پی سرکار کی پوزیشن کمزور کردی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سانحہ کی بنیاد خود گجرات سرکار کے اہل کاروں نے رکھی تھی۔200سال پرانے اس پل کی مرمت کے معاملے میں جو غفلت برتی گئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔سات مہینوں تک چلنے والی مرمت کے بعد اس کو کھولنے کا فیصلہ جلد بازی میں لیا گیا۔اس پل کو پندرہ سال کے لیے اوروی کمپنی کو دیا گیا تھا۔ اس سال مارچ میں مرمت کے لیے پل کو بند کردیاگیا تھا۔ 26/اکتوبر کو گجراتی نئے سال کے موقع پر اسے نگرنگم کی اجازت کے بغیر دوبارہ کھول دیا گیا۔یہ دراصل ایک جھولا پل تھا جس پر سیروتفریح کے لیے لوگ جاتے تھے۔ اس پر ایک وقت میں سو سے زیادہ لوگوں کاوزن اٹھانے کی صلاحیت نہیں تھی۔ جب دردناک حادثہ پیش آیا تو اس وقت جھولاپل پر 500سے زیادہ لوگ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پل کا رکھ رکھاؤ کرنے والی کمپنی نے زیادہ پیسہ کمانے کے لالچ میں زیادہ ٹکٹ فروخت کردئیے۔
دستور کے مطابق حکومت عوام کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہے اور وہ ہر اس حادثہ کے لیے جواب دہ ہے جو سرکاری مشینری کی لاپروائی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ظہورمیں آیا ہو۔ اس معاملے میں حکومت کی مشنری کس حد تک ذمہ دار ہے، اس کا اندازہ تو تحقیقات کے بعد ہی چل سکے گا،جو شروع ہوچکی ہے۔ لیکن ابتدائی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس کیبل پل کی مرمت کی ذمہ داری نگرپالیکانے جس اجنتا گروپ کو سونپی تھی، اس کا اس کام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ کمپنی الیکٹرانک گھڑیاں، کیلکولیٹر،گھریلو آلات اور ایل ای ڈی بلب بناتی ہے۔ابھی یہ بات صیغہ راز میں ہے کہ گھڑی اور بلب بنانے والی کمپنی کو اس قدیم پل کی مرمت کا ٹھیکہ کیسے مل گیا؟ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس قسم کے ٹھیکوں کو حاصل کرنے میں دست غیب اور سیاسی رسوخ بہت کام آتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر اس قسم کے پلوں کی مرمت اور رکھ رکھاؤ کرنے والی کمپنیاں اپنے ملک میں نہیں ہیں تو اس کام کے لیے غیرملکی کمپنیوں کی مدد لی جاسکتی تھی، لیکن اس میں دست غیب کا چلن نہیں ہوتا۔ دوسراپہلو یہ ہے کہ جب چاردن پہلے اس پل کونگر نگم کی اجازت کے بغیر عوام کے لیے کھول دیا گیا تو نگرنگم اس وقت بھی نیند سے نہیں جاگا۔
یہ حادثہ اپنی سنگینی کے اعتبار سے ایسا ضرور ہے کہ اس کے قصورواروں کو عبرتناک سزائیں ملنی چاہئیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہندوستانی سیاست میں ایسے بھیانک حادثات پر بھی سیاست کرنے کی روایت ہے۔ ظاہر ہے موربی حادثہ پر بھی سیاست ہورہی ہے۔گجرات میں اس وقت برسراقتدار بی جے پی نشانے پر ہے جو دیگر پارٹیوں کو اس معاملے میں سیاست سے باز رہنے کی نصیحت کررہی ہے۔ حالانکہ ماضی میں جب کبھی اس کی مخالف پارٹیوں کے اقتدار والی ریاستوں میں اس قسم کے حادثات ہوئے ہیں تو بی جے پی نے ان پر خوب سیاست کی ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ مغربی بنگال اسمبلی کے چناؤ کے دوران جب کلکتہ میں ایک زیرتعمیر پل گرگیا اور اس میں ایک درجن لوگ ہلاک ہوگئے تو بی جے پی نے اس سانحہ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھرپورکوشش کی۔ یہاں تک وزیراعظم نریندر مودی نے ایک عوامی جلسے کے دوران کہا تھا کہ ’’یہ حادثہ ’گاڈ‘ کی مرضی سے نہیں بلکہ سرکاری ’فراڈ‘ کی وجہ سے ہوا ہے اور عوام اس چناؤ میں ممتا بنرجی کو سبق سکھائیں گے۔‘‘ اگر یہی بات گجرات میں موربی پل کے بارے میں دوہرائی جائے تو بی جے پی لیڈروں کو بہت برا لگے گا۔
موربی کے خوفناک حادثہ کی تحقیقات کے لیے گجرات سرکار نے پولیس اور سول افسران کی ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس حادثے کی ذمہ داری مقامی افسران کے سرہے، اس کی انکوائری ان کے ساتھی افسران غیرجانبداری کے ساتھ کیسے کرپائیں گے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خوفناک سانحہ کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔موربی سانحہ کی عدالتی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس پر کیا فیصلہ صادر کرتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔