میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کم بچے پیداکرنے کانسخہ

کم بچے پیداکرنے کانسخہ

منتظم
منگل, ۸ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

احمد اعوان
یہ پاناما لیکس ،آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، اور پاکستان و بھارت کے مابین جاری کشیدگی سے زیادہ بڑامسئلہ ہے کسی اورکے لیے ہویانہ ہومگرمیرے لیے ضرور ہے مجھے پاناما لیکس کا جوبھی فیصلہ آئے کوئی فرق نہیںپڑتامیں پاکستان کاعام اورغریب شہری ہوںپرویزمشرف گیاآصف زرداری صاحب گئے اب میاںصاحب چلے جائیںمیری زندگی میں کوئی ایسابڑافرق نہیںپڑاکہ میں کسی صبح اٹھ کراردگردکے حالات دیکھ کرچونک اٹھاہوںکہ کیاہماراحکمران تبدیل ہوگیا؟ لہٰذا میاں صاحب رہیں یا چلے جائیں عمران خان آجائے یانہ آسکے یہ آرمی چیف صاحب اگلے 3سال مزیدآرمی چیف رہےںیاکوئی نئے آرمی چیف صاحب آجائےں یاسرحد پرٹک ٹک لگی رہے، اس سے مجھے توکوئی فرق نہیں پڑتا میں نے روز کنواں کھودنا ہے اور روز رزق تلاش کرنا ہے۔ نہ میںکوئی صنعت کارہوںنہ میں کوئی حکمران ہوںنہ میںکوئی اعلی سرکاری عہدیدارہوںکہ میرے مفادپرحالات کی تبدیلی سے کوئی اثرپڑے گامگرمجھے جوفکرکھائے جارہی ہے وہ آپ قارئین کے ساتھ ضروربانٹوںگا۔مجھے فکرہے کہ میرے معاشرے کی پڑھی لکھی عورت ایک دوسے زیادہ بچے پیدا کرنا کیوں نہیں چاہتی میں کوئی دائی نہیں ہوں جو اتنا بڑا بیان دے رہا ہوں میں ایک ایسا انسان ہوں جو سوچتا ہوںاوراردگرد صرف سڑک پارکرتے وقت نہیںدیکھتا بلکہ ویسے بھی دیکھتاہوںمیں بدلتے معاشرے کے تیوردیکھ کرفکرمندہوںاورمجھ جیسے چنداوربھی ہیںجوفکرمندہیںمعاشرے کے مسائل پر لکھنے والوںکاقحط پڑگیاہے اخبارات اٹھا کر دیکھیں توہردوسراایسے سیاست کادکھڑاسنارہاہے جیسے ملک میںاورکوئی مسئلہ ہی نہیںہے سب کے پیٹ بھرے ہیںسب خوشیوںمیں مگن ہیںبس ایک سیاست میں مسائل ہیںاگریہ چندسیاسی مسائل حل ہوجائیںتوبس راوی چین ہی چین لکھے ،ذرااپنے اپنے ٹی وی بندکریں۔اپنے محلے کے چاربزرگ جمع کریں،میں نے دانستہ بزرگ لکھا ہے (بوڑھوں کا ادب واحترام سر آنکھوں پر کل ہم نے بھی بوڑھا ہونا ہے) بوڑھے نہیںلکھا،بوڑھاانسان بزرگ بھی ہوجاتا ہے اس بات کے گوامکانات ماضی کی تہذیبوںمیںکافی روشن تھے ،لیکن آج کی نئی روشنی میںجوبغیرپیسے دیے بحال نہیںرہ پاتی اس میں پروان چڑھے لڑکے کل جب بوڑھے ہونگے توخداخیرہی کرے کہ یہ اس بڑھاپے میں کیاکیاگل کھلائیںگے پہلے کے دورمیں نوجوان مردوںکی صحبت میں جوان ہوتے تھے مگرآج کے نوجوان موبائل فون،وٹس اپ،صنف نازک،انٹرٹینمنٹ سے لطف اندوزہوتے ہوئے کب بڑھاپے میں پہنچ جائینگے ،پتابھی نہیںچلے گاایسے میں یہ جب خاندان کے مسائل کاحل نکالاکرینگے تو۔۔۔۔۔بس سوچ کرہی نہ سوچنے کوجی چاہتاہے۔تواگرخوش قسمتی سے آپ کوچاربزرگ مل جائیںتوان کے سامنے میری سوچ ضروررکھیںاوراپنے ماحول کاموازنہ آج سے 40سال پہلے کے معاشرے سے کریں۔آپ کے سامنے جوحقیقت آئے گی اگرآپ ایک حساس انسان ہیں تو وہ ضرور آپ کو فیصلہ کرنے پر مجبور کرے گی۔ مسائل بات کرنے مشورہ کرنے اورخیالات کے تبادلوںکے نتیجے میںہی حل ہوتے ہیں۔آج کی پڑھی لکھی خواتین بچوںکی پیدائش کے معاملے میں انتہائی حساس نازک اورخطرناک مسائل کاشکارہوچکی ہیں۔آپ جس محلے میں رہتے ہیںوہاںکے پڑھے لکھے گھروںمیں بچوںکی تعدادپرغورکریں اورکسی غریب بستی کے کسی بھی گھرمیںجھانک آئیں۔فرق واضح ہوجائے گا۔ پڑھی لکھی عورت بچے پیدا کیوں نہیں کرنا چاہتی؟ اس سوال کاجواب میڈیکل سائنس اورفلسفہ دونوں دیتے ہیں،پہلے میڈیکل سائنس کی سن لیتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ عورت اورمرداگرجلدی ماںباپ بننے کے عمل کاآغازکریںتوان کے ہاںاولاد کے امکانات مستقبل میں روشن رہتے ہیںاوران کے بچے بھی صحت مند ہوتے ہیں۔اسی طرح میڈیکل سائنس اس بات کابھی اظہار کرتی ہے کہ عورت کی ماںبننے کی صلاحیت 14، 15 سال سے شروع ہوجاتی ہے اگرکوئی عورت 16سال کی عمرمیںماںبن جائے تواس بات کے قوی امکانات ہیںکہ وہ 40سال کی عمرمیں بھی ماںبن سکتی ہے ،لیکن کیاکیاجائے آج 15، 16سا ل کی لڑکی اسکول میں ہوتی ہے 17سے 18سال تک کالج 18سے 20تک یونیورسٹی اور اگر یونیورسٹی میں وہ خوب دل لگاکرپڑھائی کرے تواس دلیل سے مددلے کرکہ میںپی ایچ ڈی کرکے ملک کی تقدیربدلناچاہتی ہوںمیں اپنے خاندان کانام روشن کرناچاہتی ہوں،ایسے میںوہ25،26سال تک اگر خداداد صلاحیتوںکی مالک ہوتوپی ایچ ڈی کرتی ہے اب 28سال کی عمرکی لڑکی کے گھر24,25سال کے لڑکے کارشتہ آناکسی معجزے سے کم نہیں، لیکن معجزے ہوناکیوںکہ بند ہوچکے ہیں لہٰذاایسارشتہ کسی حادثے کی صورت ہی آسکتا ہے۔ ورنہ 28سال کی عمرکی لڑکیوںکے لیے ہمارے معاشرے میں35سال 38سال 42سال 45سال 50سال کے مردوںکے رشتے آتے ہیں۔ یہ رشتے بھی آنے کے امکانات اس گھر میں زیادہ ہیںجہاںلڑکی خوبصورت ہو)یہ نہایت شرم ناک بات ہے کہ کسی لڑکی سے شادی کے لیے وجہ صرف اس کی خوبصورتی ہومگریہ ہمارے معاشرے کی دردناک اورکرب ناک سچائی ہے(میں مکمل ذمہ داری سے خوبصورت لکھ رہاہوںقبول صورت یا واجبی اورگزارے لائق صورت والی لڑکیاںبس دل کے ارمان آنسوںمیںبحہ گئے سنتی ہیں،ورنہ کسی بھائی بہن کے بچے کواپنے بڑھاپے کا سہرا بناکر پالنا شروع کردیتی ہیں۔اب جن پڑھی لکھی لڑکیوں (معذرت کے ساتھ خواتین) کی شادی 26سال 28سال 30سال کی عمرمیں ہوگی آپ انصاف سے بتائیںوہ کتنے بچے پیداکرینگی؟؟؟؟ایک یادواوراگریہ پڑھی لکھی خاتون کوئی نوکری کرتی ہے۔جیسے کہ اگرڈاکٹرہے ،پروفیسرہے ،بینکر ہے، کوئی سرکاری ملازمت کرتی ہے،تواس خاتون کے ایک دوبچے ہونابھی بڑی بات ہے ۔ اگرآپ کو میری رائے سے اتفاق نہیں ہے تومجھے اپنے ارد گرد ایسی 10خواتین کے بارے میں ضروربتائےے گا، جو میرے بتائے ہوئے شعبوں
سے وابستہ ہوں اور ان کے 5سے زیادہ بچے ہوںمیں آپ کودعوت دیتا ہوں کہ آپ کس روز کراچی کے اسپتالوں میں ایک چکرلگاکرآئیںاوروہاںکی خواتین ڈاکٹرزسے چیک اپ کرواتے ہوئے ان کے بچوںکی تعداد پوچھ لیں یقین کریں اکثرغیرشادی شدہ یا ایک، دو بچوںکی والدہ ہونگی وہاںسے تسلی ہوجائے توکسی سرکاری یونیورسٹی میں چکرلگالیںوہاںکسی بھی شعبے کے نوٹس بورڈ کوپڑھ لیںہرمضمون کے سامنے پڑھانے والی استانی صاحبہ کانام درج ہوگاجوشادی شدہ ہونگی ان کے نام کے شروع میں Mrs لکھا ہوگا، اس نوٹس بورڈسے ہی آپ کوتسلی ہوجائے گی دیگرشعبوںکوچھوڑیںان دوشعبوںکو لڑکیاںزیادہ اختیارکرتی ہیںان دونوںشعبوںسے وابستہ کوئی 5 خواتین ایسی ہوںجن کوآپ جانتے ہوںکہ ان کے 6بچے ہیںتومجھے ضرورمیل کیجئے گا۔یقین کریںیہ ایک انتہائی حساس موضوع ہے ،سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ پڑھی لکھی خواتین کل بڑھاپے میں کہاں جائینگی؟؟؟ جس طرح روزبروزلوگ اپنے معیار زندگی کوبلند کرنے کی فکرمیںلگے ہیںایسے میں ان کابڑھاپے میںکیاہوگا؟؟؟یاان خواتین نے کبھی بوڑھاہوناہی نہیں ہے؟یاان کوبڑھاپے کے مسائل کااندازہ ہی نہیںہے ؟؟؟خاندان ایک نعمت سے کم نہیںلیکن پڑھی لکھی خواتین اپنے آج کو اچھا اور سہولتوںسے بھرپوربنانے کے لیے خاندان کی جو قربانی دے رہی ہیںکیاوہ یہ احساس رکھتی ہیںکہ کل ان کوجن مسائل کاسامناکرناپڑے گاتب ان کی پوزیشن کیاہوگی۔؟؟؟مشہورفلسفی جان رالس نے Law of the people میں لکھاہے کہ عورت کومردبنادو،وہ تمام ذمہ داریاں،حقوق عورت کودے دوجوصرف مردوںکے ہیں۔عورتیں بچے پیداکرنابندکردیںگی۔ عالم اسلام کے جن ملکوں میں جدید تعلیم عام ہوتی جارہی ہے اور جہاں جہاں عورتوں کو انسانی حقوق دیئے گئے ہیں وہاں وہاںبچوںکی پیدائش کی شرح مسلسل کم ہورہی ہے 2015ءکی ایک رپورٹ کے مطابق دنیاکے 25ترقی یافتہ ممالک میںسے اکثریت کم بچوںکی پیدائش کے سنگین مسائل سے دوچارہیںان ممالک میں جرمنی، جاپان، سنگاپور، پولینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے ودیگرشامل ہیںان 25ترقی یافتہ ممالک میںکویت،واحد اسلامی ملک ہے جوترقی یافتہ ہے مگرساتھ ہی کم بچوںکی پیدائش کے مسائل کاشکار ہے گویاکویت ترقی کی قیمت اداکررہا ہے ،روایتی مذہبی تہذیبوںمیںامیرآدمی زیادہ شادیاں کرتا تھا اور زیادہ بچے پیداکرتاتھامگرجدیددنیامیں غریب آج بھی بچے زیادہ پیداکرتے ہیںمگرپڑھے لکھے اورامیرلوگ ایک بچہ مشکل سے پیداکرتے ہیں۔ آج کی دنیامیںنیوزی لینڈ،ڈین مارک ،سوئزر لینڈ، ناروے ،فن لینڈ،وغیرہ ایسے ممالک ہیں،جہاںکی آبادی کوہرسہولت میسرہے اوروہاںبچہ ماںکے پیٹ میں ہوتاہے توریاست اس کی کفالت کاذمہ اٹھالیتی ہے اورمرنے تک یہ ریاستیںدنیامیں سب سے زیادہ اپنے شہریوں کومراعات ،آسائشیں اور سہولیات دیتی ہیںریاست ماﺅںکوبچہ پیداکرنے کی ترغیب دیتی ہے ،پیسے کالالچ دیتی ہے، نوکری کرنے والی خواتین کوکئی سال کی چھٹی دیتی ہے مگریہ پڑھی لکھی آزادعورت بچہ پیداکرنے پرمشکل سے راضی ہوتی ہے۔ہمارے ہاںوہ وقت آنے میںابھی 50،60سال لگیںگے ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میںصرف 38فیصد مائیںبچوںکواپنادودھ پلاتی ہیں۔یہ سب جدیدذریعہ تعلیم کے مسائل ہیں،اوران مسائل سے جڑے کتنے مسائل ہیںان پر بات کرنے کے لیے کئی روزدرکارہیں،ہم ان مصنوعات پرتفصیل سے اورتسلسل سے ضرورلکھیںگے انشاءاللہ۔آج کی پڑھی لکھی عورتوںکے تیورکسی خوفناک طوفان کی اطلاع دے رہے ہیں۔اس لیے اب بچے سبزستارہ سے کنٹرول نہیںہوتے بلکہ کالج یونیورسٹی سے کنٹرول ہوتے ہیںاوریہ کم بچے پیداکرنے کاآزمودہ نسخہ ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں