میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ماں تو زندگی تھی پھر وہ اولڈ ہوم کیوں

ماں تو زندگی تھی پھر وہ اولڈ ہوم کیوں

منتظم
منگل, ۸ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

مصر کے خطے جزیرہ نما سینا میں پانچویں کلاس میں پڑھنے والے اسامہ احمد حماد نے امتحان میں ماں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں لکھا میری ماں مرگئی اور اس کے ساتھ سب کچھ ختم ہوگیا ۔اسامہ احمد کا یہ جملہ سخت سے سخت دل کو رلانے پر مجبور کر دے۔ بچے کی ماں سے محبت اس قدر گہری تھی کہ اس کو لگا اس کی ماں کے جاتے ہی دنیا سے اس کا سب کچھ ختم ہوگیا۔ ماں کے ساتھ اولاد کا رشتہ اتنا گہرا ہوتا ہے جیسے انسان کا اپنی سانسوں سے۔ چار برس قبل ایک اولڈ ہوم میں میری بھی ایک ماں سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ماں کسی دلاور خان اور شہباز خان کی تھی۔ رئیسہ خاتون جو پچھلے دس برس سے اولڈ ہوم میں مقیم تھیں،کہتی ہیں۔ ”میرے دس بچے ہیں میں پھر بھی لاوارث ہوں “ ان کے اس جملے نے مجھے اپنی جگہ ساکت کر دیا تھا۔ دلاور خان شہباز خان دس بہن بھائی ہیں جن کا باپ ان کے بچپن میں ہی وفات پاگیا تھا۔ ماں نے گھر گھر کام کر کے لوگوں کے کپڑے سی کر اپنے ان دس بچوں کو پڑھا لکھا کر بڑا کیا تو اس ہی اولاد کو بوڑھی ماں آنکھوں کو کھٹکنے لگی ۔ بیمار ماں کو سنبھالنا مشکل تھا تو اولڈ ہوم والوں کے حوالے کر کے چل دیے ۔ میں رئیسہ خاتون کے بوڑھے چہرے کو دیکھنے لگی جہاں پر گزرے ماہ و سال کی اذیتیں رقم تھی اداس قدموں سے اس اولڈ ہوم سے باہر آگئی ۔ بس اتنا کہوں گی کہ لازمی نہیں کہ ماں باپ کو اولڈ ہوم میں چھوڑ ناغلط ،بلکہ انہیں گھر میں بھی ایک توجہ کی ضرورت ہے جس سے تمہیں معلوم ہوگا کہ ماں کی زندگی تم میں اور تمہاری زندگی ماں میں ہے ۔
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھی، تیرے ساتھ ایک دنیا تھی
فرح انیس، کراچی


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں