سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کا چیف جسٹس کو خط، خالی اسامیوں پر فوری تعیناتی پر زور
شیئر کریں
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد مزید دو سینئر ججوں اور سپریم جوڈیشل کمیشن کے اراکین نے بھی عدالت عظمیٰ میں خالی اسامیاں پر کرنے کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا۔سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے جسٹس طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس عمر عطابندیال کے نام خط میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ میں کوئی اسامی خالی ہونے کی صورت میں آئین کے آرٹیکل 175 اے (8) کے تحت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس خود بخود شیڈول ہونا چاہیے۔انہوں نے لکھا کہ کمیشن کے مجموعی ارکان کی اکثریت سپریم کورٹ کی ہر اسامی کے لیے ایک جج کی نامزدگی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے۔سپریم کورٹ کے ججوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اراکین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عدالت میں آسامیوں پر بروقت تعیناتی یقینی بنائیں اور اس حوالے سے کسی قسم کی تاخیر بدقسمتی اور نامناسب ہے۔خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں فروری سے اب تک 5 آسامیاں خالی ہیں اور وہ ان آسامیوں کو پر کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً چیف جسٹس سے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست کرتے رہے ہیں لیکن ان کے ساتھ اجلاس بغیر نتیجے کے ختم ہوگئے۔جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ نے نشان دہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی 28 ستمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کو اسی معاملے پر خط لکھے چکے تھے۔خط میں کہا گیا ہے کہ یہ سمجھنا اہم ہے کہ تعیناتیوں میں تاخیر سے غیرضروری افواہیں جنم لیتی ہیں، جس سے نہ صرف ادارے کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ تعیناتی کے عمل میں غیرجانب داری اور شفافیت پر سنجیدہ اثرات پڑتے ہیں۔سپریم کورٹ کے دونوں ججوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے آئین کے تحت اس کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھایا ہے اور کہا کہ سپریم کورٹ نے 1996 کے الجہاد ٹرسٹ کیس میں قانونی سمت واضح کردی ہے۔مذکورہ حوالے میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ کہتا ہے کہ عدالتی دفاتر میں مستقل آسامیوں تعیناتی فوری طور پر ہونی چاہیے اور 30 دن سے تاخیر نہ ہو۔جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ اس حوالے سے پہلے ہی 9 ماہ کی تاخیر ہوچکی ہے اور اس کو ہنگامی بنیاد پر پہلے حل کرنا چاہیے۔انہوں نے لکھا کہ ججوں نے پہلے ہی تجویز دی تھی کہ پانچوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کو ان آسامیوں کے لیے مدنظر رکھنا چاہیے یا ہر ہائی کورٹ سے سینئر دو ججوں کو دیکھنا چاہیے اور اس کے بعد جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اگلے اجلاس میں اس پر ووٹنگ ہونی چاہیے۔