میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا کی جوہری معاہدوں میں واپسی

امریکا کی جوہری معاہدوں میں واپسی

ویب ڈیسک
جمعه, ۸ اکتوبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

(مہمان کالم)

جوناتھن پاور

2015 میں صدر اوباما کے دور میں امریکا اور ایران کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد ایران پر عائد تجارتی پابندیاں ختم کر دی گئی تھی۔ جوہری معاہدے میں ایران، امریکا، چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیاشریک تھے۔ تہران نے یورینیئم کی افزودگی کو محدود کرنے کی حامی بھری تھی اور بین الاقوامی نگران اداروں کو اجازت دی تھی کہ وہ ایرانی تنصیبات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر کے ایران پر دوبارہ جوہری پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ٹرمپ کی طرف سے ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا مقصد اسے ایک نئے معاہدے پر مجبور کرنا تھا جسے جوائنٹ پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کہا گیا تھا۔ ٹرمپ ناصرف تہران کے جوہری منصوبے کو مزید محدود کرنا چاہتے تھے بلکہ اس کے بیلسٹک میزائل کے منصوبے کو بھی روکنا چاہتے تھے۔ ایران بھی معاہدے کی تعمیل کے بجائے یورینیم کی افزودگی شروع کر چکا تھا۔ ایران کے مطابق اس کا جوہری منصوبہ پْرامن ہے۔ تاہم اطلاعات کے مطابق اس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اجازت سے کہیں زیادہ یورینیئم کی افزودگی شروع کر دی تھی۔ یورینیئم کی افزودگی کو جہاں ایک ری ایکٹر کے ایندھن کے طور پر استعمال کر کے اس سے توانائی پیدا کی جا سکتی ہے وہیں اس سے نیوکلیئر بم بھی بنایا جا سکتا ہے۔
جوبائیڈن کے امریکی انتخابات میں کامیاب ہونے کے ساتھ ہی جہاں متعدد دیگر عالمی اور ملکی امور میں تبدیلیوں کا خیال کیا جا رہا تھا وہاں تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے تھے کہ امریکا ایرانی جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہو سکتا ہے۔ جوبائیڈن کے حلف اٹھاتے ہی نئی انتظامیہ نے عندیہ دیا تھا کہ وہ اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائیں گے لیکن اس سے پہلے تہران کو اس معاہدے کی تمام شرائط پر مکمل عملدرآمد شروع کرنا ہو گا۔ جوہری معاہدے کے تحت امریکا، چین، فرانس، روس، برطانیا اور جرمنی نے ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی نگرانی کے عوض پابندیوں میں نرمی کی تھی۔ ایران کی وزارت خارجہ نے اس سلسلہ میں انکار کرتے ہوئے کہا کہ جوہری معاہدہ ایک کثیر الجہتی بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کی منظوری اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت دی گئی، اس میں رد و بدل ممکن نہیں اور اس معاہدے کے فریق واضح ہیں جن میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ ایران کی جانب سے یہ ردعمل فرانس کے صدر ایمانویل میکران کے اس بیان کے بعد آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر مذاکرات میں سعودی عرب کو ضرور شامل کیا جانا چاہیے۔ العربیہ ٹی وی سی سے بات کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر مذاکرات بہت سخت ہوں گے۔ فرانسیسی صدر نے یہ بھی کہا کہ تہران کے ساتھ 2015ء کے معاہدے میں علاقائی طاقتوں سے رجوع کیے بغیر جو غلطیاں ہوئیں ان سے گریز کرنا ہو گا۔ دوسری طرف امریکا کے صدر جو بائیڈن نے سی بی ایس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو
میں کہا ہے کہ ایران پر عائد تجارتی پابندیوں کو اس وقت تک نہیں ہٹایا جائے گا جب تک وہ 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کی شرائط کو پورا نہیں کرتے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ ا?یت اللہ خامنہ ای پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ تہران صرف اس شرط پر 2015 کے جوہری معاہدے کی تعمیل کرے گا اگر امریکا اس پر عائد تجارتی پابندیاں ختم کرے۔
پاگل پن کی مختلف اشکال ہو سکتی ہیں، مگر صدر ٹرمپ کی انٹرمیڈیٹ نیوکلیئر فورسز ٹریٹی (آئی این ایف) سے دستبردار ی بدترین پاگل پن تھا۔ باہمی یقینی تباہی وہ تصور ہے جس نے سرد جنگ کے دور میں بڑی طاقتوں کو نیوکلیئر تصادم سے باز رکھا۔ میخائل گورباچوف اور صدر ریگن نے آئی این ایف معاہدے کے ذریعے اس تصور کے خاتمے کے لیے کام کیا، ایک معاہدہ جس سے یورپ میں نصب ایٹمی میزائل سسٹم اور اس کے تحت 500 سے 2000 کلومیٹر رینج کے میزائل ختم کر دیئے گئے۔ یہ میزائل اپنے سائز سے کہیں زیادہ خطرناک تھے، خطرناک اس لیے بھی تھے کہ ان کے ہدف تک پہنچنے کا وقت دس منٹ سے کچھ کم تھا، جو کہ روس کو جوابی کارروائی پر متحرک کرنے کے لیے کافی اور اس سے نیوکلیئر جنگ کا احتمال یقینی تھا۔
آئی این ایف معاہدہ کی منسوخی پر پنٹاگون اور دفتر خارجہ کے اندرونی حلقوں کے علاوہ یورپی یونین کے نیوکلیئر پالیسی سازوں نے بھی مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ فارن افیئرز جرنل میں ’’روز قیامت کی واپسی‘‘ کے عنوان سے شائع آرٹیکل میں سابق سینیٹر سام نائون اور توانائی کے ماہر سابق سیکرٹری ارنسٹ مورٹز نے لکھا تھا، ’’1962ء کے کیوبا میزائل بحران کے وقت امریکا روس نیوکلیئر ٹکرائو کا خطرہ جس طرح انتہائوں کو چھو رہا تھا، آج وہی صورتحال دوبارہ سے پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ البتہ سرد جنگ کے برعکس اس مرتبہ دونوں خطرے سے نظریں چراتے دکھائی دیتے ہیں‘‘۔
سرد جنگ کے دور کی محاذ آرائی سے متعلق جتنی بھی الزامات کی کہانیاں تراشی گئیں، اس کے برعکس سوویت دور میں ذاتی طور میں نے لاتعداد روس کے دورے کیے، یوں گزشتہ 50سال کے دوران میں سیکڑوں مرتبہ روس جا چکا ہوں۔ ان دوروں کے دوران ہر روسی مکتبہ فکر اور طبقے کے لوگوں سے میری گپ شپ ہوئی، جس کی بنیاد پر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ روسیوں کی اکثریت امن پسند اور ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہے۔ مغربی یورپ اور امریکیوں کی اکثریت کے بارے میں بھی پورے یقین کے ساتھ میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں۔ اس کے باوجود دونوں نے سرد جنگ دور کے جنگجوئوں کو نئی زندگی دیدی ہے اور اسی وقت انہیں کے احکامات پر عمل ہو رہا ہے۔
سام نائون اور ارنسٹ مورٹز مبالغہ ا?رائی نہیں کر رہے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ کمیونسٹ دور کے برعکس آج دونوں ملک ایک ہی سیاسی آئیڈیالوجی پر عمل پیرا ہیں۔ روسی سیاسی نظام کی تمام تر خامیوں اور صدر ولادی میر پوتن کی مطلق العنانی کے باوجود آج کا روس سرمایہ داری نظام کا حامل اور مسیحیت کی جانب جھکائورکھنے والا ملک ہے۔ کوئی سوچ بھی کیسے سکتا تھا کہ صدر ٹرمپ روس نواز ہوں گے۔ ادھر پوتن بھی کوئی معصوم نہیں، وہ اشتعال انگیزی کرتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے امریکی ان کے بارے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوں، تاہم ان میں چند تنقیدی باتیں برداشت کرنے کی لچک ہونی چاہیے۔ قیام امن کے لیے کم از کم اتنی لچک دکھانی ضروری ہے۔ جیسے کو تیسا کی بات ان کے لیے کی جاتی ہے جو کہ قیام امن کی حرکیات بالکل نہیں سمجھتے۔ پوتن کے دلائل اپنی جگہ درست ہیں، روس کا ایک مرتبہ پھر گھیرائو کیا جا رہا ہے۔
مشرقی یورپ کے اینٹی میزائل اور ریڈار کے لیے مقامات جو کہ ایرانی میزائل سے یورپ کے دفاع کے لیے ہیں، روس کی جانب ان کے رخ کو موڑنا بہت آسان ہے۔ نیٹو کو توسیع دے کر جس طرح گورباچوف کے ساتھ وعدوں کو پامال کیا گیا، روسی خدشات کو تقویت پہنچانے کے لیے یہی کافی تھا۔ اس کے باوجود میری نظر میں روسی ردعمل کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔ آئی این ایف معاہدے کے تحت بھی امریکا اور نیٹو کی نیوکلیئر ہتھیاروں سے لیس آبدوزیں بحیرہ بالٹک اور بحیرہ اسود میں روسی ساحل علاقے کے قریب چل سکتی تھیں۔ اس معاہدہ پر ا سٹریٹجک بحث بکواس کے علاوہ کچھ نہیں۔
بعض ماہرین کی نظر میں معاہدے پر امریکی رویے کی بنیادی وجہ چین کے انٹرمیڈیٹ رینج میزائل ہیں، جن کا ہدف تائیوان، جاپان، جنوبی کوریا اور امریکی علاقہ گوام ہو سکتے ہیں۔ ان چینی میزائلوں میں بیشتر نیوکلیئر کے بجائے روایتی وار ہیڈز سے لیس ہیں۔ دنیا بھر کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے 90فیصد ذخائر امریکا اور روس کے پاس ہیں۔ یورپ جو کہ امریکا روس کشمکش کے درمیان پھنس سکتا ہے، اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وہ کیا کرے گا؟ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کہہ چکے ہیں کہ نئی صورتحال کا اصل شکار یورپی یونین اور اس کی سکیورٹی ہوئی ہے۔ اہل یورپ چاہیں تو اپنی سرزمین پر امریکی میزائلوں کی تنصیب کی اجازت نہ دے کر اس کی طاقت کم کر سکتے ہیں جیسا کہ وہ سرد جنگ کے دور میں کر چکے ہیں۔ آئی این ایف معاہدے کی وجہ سے روس امریکا نے یورپ میں نصب 2692 میزائل ہٹا دیئے تھے۔ یورپ کو اس کامیابی کا کھل کر دفاع کرنا ہے۔ اسی معاہدہ کی بنیاد پر بین البراعظمی میزائلوں میں تخفیف کے معاہدے ہوئے، 1986ء میں نیوکلیئر میزائلوں کی تعداد 70ہزار کے لگ بھگ تھی، جو آج 15 ہزار سے کم ہے۔ اس کے باوجود سابق امریکی صدر ٹرمپ نے آئی این ایف معاہدہ کی تجدید نہ کی، جیسا کہ صدر اومابا اور صدر دمتری میدوی دوف نے ا?خری مرتبہ کی اور ہزاروں میں بین البراعظمی میزائلوں کی تعداد مزید کم کی گئی تھی۔ بدقسمتی سے ٹرمپ کے پاگل پن کے خلاف خاطر خواہ آوازیں نہ اٹھیں۔ دنیا کو جوہری ہتھیاروں اور ایٹمی میزائلوں سے لاحق خطرات سے بچانے اور انسانیت کی بقا کے لیے یہ امر از بس حد تک ضروری ہو چکا ہے کہ امریکا ایران سے جوہری معاہدے میں شامل ہو اور دوسری طرف روس کے ساتھ ایٹمی اور میزائل ہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدے آئی این ایف کی تجدید کرے۔ جوبائیڈن کے سفارتکار اور سیکرٹری خارجہ ایسے اہم عہدوں پر براجمان رہنے اور ان معاملات کی نزاکت کو بخوبی سمجھنے کے باعث ان سے توقع تھی کہ وہ ٹرمپ دور کے اس پاگل پن کا خاتمہ کریں گے مگر دس ماہ کے اقتدار میں ان کی جانب سے کوئی مثبت قدم نہ اٹھایا جانا ان کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں