سر سید کی کہانی
شیئر کریں
سر سید احمد خان کا 200واں یوم پیدائش نہایت خاموشی کیساتھ گزر گیا۔ میڈیا میں خبر آئی نہ سوشل میڈیا نے اہمیت دی کئی اخبارات نے بھی دو سطری خبر لگانے کی زحمت نہیں کی۔ ہمارے نیوز چینلز جو معمولی سے معمولی خبر کو اتنا اچھاتے ہیں کہ اسے اس وقت کی سب سے بڑی خبر بنا دیتے ہیں انہوں نے بھی سر سید کے 200ویں یوم پیدائش کی خبر دینا ضروری خیال نہیں کیا۔ کرتے بھی کیسے ٹماٹروں کے ریٹ اور گلستان جوہر کے چھری مار جیسی چٹپٹی خبروں سے کچھ وقت بچ جاتا ہے تو وہ حکومت اسٹیبلشمنٹ سیاست اور کرکٹ کی نذر ہو جاتا ہے۔ ہاں کسی گلوکار اداکار کی سالگرہ یا برسی ہو تو کم از کم ہیڈ لائنز میں جگہ مل جاتی ہے۔ ایسے میں کسی کو کیا پڑی ہے جو دو سو سال پہلے پیدا ہونے والے سر سید احمد خان کی پیدائش کا دن یاد رکھے۔ ہوگا کوئی پیدا ہوا ہوگا دوسو سال پہلے ہمیں کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانان برصغیر کا آج اور مستقبل دوسو سال پہلے پیدا ہونیوالے سر سید احمد خان کا مرہون منت ہے۔
1857ء کی جنگ ، ہندوستان میں مسلم قوم کے لیے تباہی و بربادی ، ذلت اور پسماندگی کی سوغات لے کر آئی تھی کیونکہ انگریزوں نے مسلمانوں ہی سے اقتدار حاصل کیا تھا اسلیے وہ جانتے تھے کہ اگر ہندوستان میں کوئی قوم ہم کو اپنا دشمن گردانتے ہوئے کسی بھی وقت ہمارے مدمقابل آ سکتی ہے تو وہ صرف مسلم قوم ہے۔ اسی لیے انگریزوں نے ہر سطح پر مسلمانوں کی بیخ کنی کا عمل شروع کر دیا۔ مسلمانوں پر تعلیم اور ملازمتوں کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ کچھ مسلمانوں نے بھی انگریز سے نفرت میں اس کے ہندوستان میں لائے گئے نظام تعلیم کو اپنانے میں نفرت کا اظہار کیا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ترقی کے میدان میں ہندوؤں کے مقابلے میں پسماندہ ہوتے چلے گئے۔ مسلمان جس تیزی سے سیاسی، سماجی و اخلاقی پستی کی طرف جا رہے تھے اسی رفتار سے معاشی بد حالی بھی ان کا پیچھا کر رہی تھی۔ دوسری طرف ہندو تیزی سے عہدوں اور اختیارات سے سر فراز ہو رہے تھے اور انگریز کے لیے مسلمانوں کو زیر کرنے میں معاون بن رہے تھے۔
ایسے میں اللہ کا ایک بندہ سر سید کی شکل میں اپنے دل میں قوم کا درد لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کو معلوم تھا کہ بغیر تعلیم اور وسائل کے قوم ، طاقتور انگریزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اگر ان سے نبردآزما ہونا ہے تو خود کو ان سے مقابلے کے قابل بنانا ہوگا اور یہ تبھی ممکن ہے جب قوم کے نوجوان جدید تعلیم حاصل کر کے میدانِ عمل میں اتریں ۔
یہی فکر تھی جو علی گڑھ تحریک اور علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد کا سبب بنی۔ سر سید نے یہ مفروضہ پیش کیا تھا کہ علی گڑھ سے نکلنے والے طلبا کے ایک ہاتھ میں عصری علوم ہونگے دوسرے ہاتھ میں قرآن اور سر پر لا الہ الا اللہ کا تاج ہوگا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے بعد یہاں کے طلبا نے قیام پاکستان اور قومی ترقی میں جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ اس کے علاوہ اس تعلیمی ادارے نے ملک و قوم کو ہر میدان میں ایسے روشن ستارے عطا کئے جن کی چمک نے دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔ وہ ادب و فلسفہ کا میدان ہو ، سائنس یا ٹیکنالوجی ہو ، لسانیات ، پیشہ ورانہ علوم یا تعلیم نسواں ، غرض کوئی بھی میدان ہو ، علی گڑھ کے طلبا نے ہر جگہ اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے اور یہ سب علی گڑھ تحریک اور اس کے بانی سر سید احمد خان کے خلوص کا فیضان ہے۔ سر سید جیسی عظیم ، باہمت اور اولوالعزم ہستی نے تاریخ کے ایک انتہائی ہولناک دور میں شکستہ اور منتشر مسلم قوم کو کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ان کی اس خدمت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ دو قومی نظریہ ، خلافت تحریک نظریہ پاکستان کی عملی تشکیل ان تمام تاریخی مراحل کے تانے بانے جاکر سر سید احمد خان اور ان کی علی گڑھ تحریک ہی سے ملتے ہیں ۔ جو قومیں اپنی تاریخ اور اپنے محسنوں کو بھول جایا کرتی ہیں تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرتی۔
(ختم شد)