میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خطرات سے نجات کا راستہ

خطرات سے نجات کا راستہ

منتظم
هفته, ۸ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

syed-amir-najeeb
سید عامر نجیب
وطن عزیز میں لگتا ہے ہر چیز خطرے میں ہے ملک کی سالمیت کو خطرہ ، فوج کے وقار کو خطرہ ، میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کو خطرہ ، جمہوریت کو خطرہ ، سیاستدانوں کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کو خطرہ ، خفیہ اداروں کی ساکھ کو خطرہ ، تمام صوبوں اور تمام قوموں کے مفادات کو خطرہ ، تمام مذہبی فرقوں کو خطرہ یہاں تک کہ دین اسلام ، اسلامی تعلیمات اور اسلامی اقدار بھی خطرے میں ہیں ۔ مدارس اور ملک کا اسلامی تشخص بھی خطرات سے دو چار ہے اور تو اور نظریہ پاکستان اور ہماری تاریخ بھی خطرے میں ہے ،گو یا ہماری تمام شناختیں خطرات میں گھری ہوئی ہیں ۔ لیکن عجیب تضاد ملاحظہ فرمائیے ،اتنے خطرات کے باوجود ہم بحیثیت مجموعی سوئی ہوئی قوم ہیں جبکہ خطرات تو انسانوں کو چوکس اور بیدار کرتے ہیں ۔ کسی بلڈنگ میں خدانخواستہ آگ لگ جائے تو سست ترین لوگ ہوں یا انتہائی تھکے ہوئے افراد وہ جان بچانے کے لیے انتہائی مستعداور پُھرتیلے ہو جاتے ہیں تو پھر آخر کیوں اتنے ڈھیر سارے خطرات نے قوم کو بیدار اور چوکس نہیں کیا ؟؟ اصل میں حقیقی اور خود ساختہ خطرات میں بہت فرق ہے ۔ حقیقی خطرات نے تو بیدار کرنا ہی ہوتا ہے جبکہ خود ساختہ اور جعلی خطرات لوگوں کی بے حسی میں اضافہ کرتے ہیں کیونکہ جعلی خطرات جعلی دوائوں کی طرح بیماری میں اضافے کا ہی سبب بنتے ہیں ۔ سماجی ماہرین جانتے ہیں کہ جعلی خطرات دراصل لیڈر شپ کا حربہ ہوتے ہیں جو اپنی نا اہلیوں پر پردہ ڈالنے ،اپنی لیڈری چمکانے اور خود کو اپنے لوگوں کا نجات دہندہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ لیڈر جب اپنی کارکردگی ، اپنی صلاحیت اپنے افکار و نظریات اور اپنے وژن سے لوگوں کو متاثر نہیں کرپاتا تو پھر وہ ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے انھیں خطرات کا احساس کراتا ہے ،پاکستان ہی نہیںدنیا بھر کی نا اہل لیڈر شپ لیڈری چمکانے کا یہ آسان نسخہ استعمال کرتی ہے ۔
ایک اور انداز سے بھی مذکورہ خطرات کی حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ گروہوں کی اپنی نا اہلیوں اور بد اعمالیوں کے نتائج کا خوف بھی انکے لا شعور میں پیوست ہو جاتا ہے لیکن وہ دانستہ یا نا دانستہ اس خوف کی درست تفہیم نہیں کر رہے ہوتے ۔ اصل میں ہم اپنے کردار کا لاکھ دفا ع کرلیں لیکن اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے نتائج کے خوف سے نجات نہیں پا سکتے ۔ جو قومیں صاحب کردار نہ ہوں ان میں یہ کہنے کی جرأت بھی ہر گز پیدا نہیں ہو سکتی کہ ہمیں درپیش خطرات خود ہماری غلطیوں کا نتیجہ ہیں ۔ جمہوریت اگر خطرے میں ہے تو ہمارے سیاستدانوں کی نا اہلی کی وجہ سے خطرے میں ہے ۔ میڈیا کی آزادی کو اگر خطرہ ہے تو وہ میڈیا والوں کی مسلسل غیر ذمہ دارانہ روش کی وجہ سے ہے ۔ اداروں کے وقار کو خطرات بھی انکے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہیں ۔ یہ ہی حال مذہبی فرقوں کا ، لسانی گروہوں کا اور سیاسی جماعتوں کا ہے ۔ ہر ایک خود اپنے لیے خطرہ بنا ہوا ہے ۔ مذہبی فرقوں میں جو فرقے جتنے زیادہ متعصب اور اپنی فرقہ وارانہ شناخت کے بارے میں جتنے زیادہ حساس ہیں وہ اتنے ہی زیادہ خطرے میں ہیں ۔ عجیب بات یہ مشاہدے میں آرہی ہے کہ مذہبی فرقوں کو انکی فرقہ پرست قیادت کی پالیسیوں نے جتنا زیادہ نقصان پہنچایا وہ انکے بیرونی دشمنوں نے بھی نہیں پہنچایا ۔ اسی طرح مختلف لسانی گروہوں اور قوم پرست قیادتوں نے جتنا اپنی قومیتوں کو خطرے میں ڈالا، مروایا یا نقصان پہنچایا وہ کسی قومیت کے بیرونی دشمنوں نے بھی نہیں پہنچایا ۔ اس موقف کے کئی حوالے بھی ہیں اور بہت سے دلائل بھی لیکن اس کی تفصیل بہت سوں کی دل آزاری کا سبب بن سکتی ہے سو گُر یز کرنا ہی بہتر البتہ اگر کوئی از خود تجزیے کر کے تفصیل میں جائے تو با آسانی مذکورہ نتیجے پر پہنچے گا ۔
صاحب کردار لوگ بڑی کامیابیوں کو بُرد باری کے ساتھ ہضم بھی کرسکتے ہیں اور مناصب ، اختیارات اور آزادی کو پوری ذمہ داری کے ساتھ نبھا بھی سکتے ہیں اور ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں صاحب کردار لوگ نایاب نہیں نا پید ہوتے جا رہے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں لوگوں کو مغرور اور متکبر بنا رہی ہیں مناصب اور اختیارات فخر کا ذریعہ بن چکے ہیں ۔ آزادی کی آڑ میں بد معاشی کی جانے لگی ہے ۔ اختیارات سے تجاوز کرنے کی ایسی ہوا چلی ہے کہ وزیراعظم سے لے کر سرکاری چپڑاسی تک اپنے آئینی اور قانونی اختیارات میں گھٹن محسوس کرتا ہے۔ پارلیمنٹ سے لے کر عدلیہ اور میڈیا تک ہر ادارہ اپنی آئینی اور اخلاقی حدود میں رہنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا ۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور تمام ، لسانی ، علاقائی اور فرقہ وارانہ گروہ قانون شکنی اور اخلاقی حدود کی پامالی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہر ایک نے دہرا معیار اپنایا ہوا ہے ۔ اپنے لیے جن حقوق کو طلب کیا جا تا ہے اور اس کے لیے تحریکیں چلائی جاتی ہیں دوسروں کے لیے وہ حقوق قطعی پسند نہیں ۔ اپنی آزادی کی حفاظت اور دوسروں کی آزادی سلب کرنے کے عزائم ؟ ہر گروہ اپنے لیے چاہتا ہے کہ ریاست ماں کا کردار ادا کرے لیکن دوسروں کے لیے یہ چاہت ہوتی ہے کہ ریاست ظالم سوتیلی ماں بن جائے ۔ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت، مذہبی گروہ یا قومیت کو قانون کے دائرے سے نکل کر بھی رعایت دینے کے لیے تیار لیکن دوسروں کے لیے قانونی و اخلاقی حق بھی پسند نہیں ۔ تضادات سے بھرپور کردار رکھنے والے گروہ ، جماعتیں اور ادارے کس طرح ملک کو ترقی اور استحکام کی منزل سے ہمکنار کر سکتے ہیں ؟؟
حقیقت یہ ہے کہ ہر ادارے ، ہر مذہبی و سیاسی گروہ نے خود اپنے آپ کو خطرے میں ڈال رکھا ہے ۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اگر ہم خطرات سے نجات اور اپنے گروہ ، اپنے ادارے ، اپنی سیاست یا اپنے فرقے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اصل ضرورت خود احتسابی کی ہے ۔ہر ایک کو اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا اور اپنے اقدامات کو آئین و قانون کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار سے بھی ہم آہنگ کرنا ہوگا ۔اپنی تمام سرگرمیوں اور اپنے تمام عزائم کو ملکی مفادات اور اعلیٰ اخلاقی روایات کے دائرے میں رکھنا ہوگا ۔ ایک دوسرے پر بالا دستی حاصل کرنے کی ہوس کو بھی کنڑول کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی ہوس گروہوں ، اداروں اور شخصیات کو بیرونی قوتوں کا آلہ کار بننے کے لیے بھی آمادہ کردیتی ہے ،اسی طرح ذاتی اور مالی مفادات کا غلبہ بھی ریاست کے خلاف جرائم پر آمادہ کردیتا ہے ۔ آج اگر ملکی سالمیت کو خطرے میں بتایا جا رہا ہے تو ایسا کیوں نہ ہو جبکہ مذہبی ، لسانی ، علاقائی ، صوبائی اور سیاسی نفرتیں عروج پر ہیں ۔ میڈیا میں پیسے کی ہوس جب ملکی مفاد پر غالب آجائے تو ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدیں تو یقینی طور پر غیر محفوظ ہونگی ۔
ہمیں بحیثیت قوم نئے سرے سے منظم ہونے کی ضرورت ہے لیکن اس سے مراد نئی قانون سازی اور نئے سرے سے آئین سازی نہیں بلکہ اس کا مطلب ایک ایسی تحریک برپا کرنا ہے جو تمام گروہوں ، اداروں ، سیاسی و مذہبی جماعتوں اور شخصیات کو انکی حدود کا شعور دے انھیں ملکی مفاداور اخلاقیات کے اعلیٰ اصولوں سے روشناس کرائے اور انھیں رضاکارانہ طور پر اپنی اپنی آئین ، قانونی اور اخلاقی حدود میں رہنے پر آمادہ کر سکے ۔ ہر ایک جان لے کہ اسے سب سے زیادہ خطرہ خود اپنے آپ سے ہے ۔ آپ خود کو اپنے شر سے بچالیں، بیرونی دشمن سے تحفظ کی ضمانت یہ نظم کائنات دے رہا ہے ۔ سیارے جب تک اپنی حدود میں تیرتے رہیں انھیں کوئی خطرہ نہیں ہوتا ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں