میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دہلی ترمیمی بل :انجام گلستاں کیا ہوگا؟

دہلی ترمیمی بل :انجام گلستاں کیا ہوگا؟

ویب ڈیسک
منگل, ۸ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

ہندوستانی پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں قومی خطہ راجدھانی ایکٹ ترمیمی بل صوتی حمایت سے منظور ہو گیا ۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ فی الحال بی جے پی کو لوک سبھا میں دوتہائی ارکان کی حمایت حاصل ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس قانون سے عوامی فلاح بہبود کا کیا کام ہوگا ؟ تو اس سوال کا سہل ترین جواب یہ ہے کہ مذکورہ بل سے عام لوگوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ یہ دراصل دہلی کے عوام کی منتخب شدہ حکومت کو لگام لگانے کی ایک پارلیمانی دھاندلی ہے ۔ اس قانون کے ایوانِ بالا میں منظور ہوجانے کے بعد دہلی سر کار کے لئے ہر کام کے سلسلے میں لیفٹیننٹ گورنرسے صلاح و مشورہ کرنا لازمی ہو جائے گا اس لیے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا اس بل کی منظوری کو دہلی والوں کی بے عزتی قرار دینا حق بجانب ہے ۔ ترمیمی بل کی منظوری سے دہلی حکومت مرکز کے کٹھ پتلی لیفٹینٹ گورنر کے اشاروں پر ناچنے کو مجبور ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے اسے غیر آئینی بتایا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ قانون ملک کے وفاقی ڈھانچے کی بیخ کنی بھی کرتا ہے ۔
اس کہانی کی ابتداء 07 اگست 2018 کو ہوئی جب دہلی اسمبلی کے پانچ روزہ مانسون اجلاس میں پہلے ہی دن عام آدمی پارٹی کے رکن ِ اسمبلی سوربھ بھاردواج نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیاجس میں کہا گیا تھا ”دہلی اسمبلی کا واضح موقف ہے کہ قومی دارالحکومت علاقہ دہلی کے لئے الگ سے پبلک سروس کمیشن ہونا چاہئے ۔” اس کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ”قومی دارالحکومت علاقہ دہلی کی حکومت اس کمیشن کی تشکیل کے عمل کو چھ ہفتے میں مکمل کرنے کے لئے تمام ضروری اقدامات کرے گی”۔ بی جے پی چونکہ بڑے زور و شور کے ساتھ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دئیے جانے کے مطالبہ کرتی رہی ہے اس لیے اسے مذکورہ بل کی حمایت کرنی چاہیے تھی لیکن زمانہ بدل گیا تھا۔ ایک زمانے میں دہلی کے اندر کانگریس کی مرکزی حکومت اور بی جے پی کی ریاستی سرکار ہوا کرتی تھی اس لیے اپنے فائدے کی خاطریہ لوگ ایسا مطالبہ کیا کرتے تھے ۔ فی الحال الٹا معاملہ ہوگیا ہے ۔ مرکزی حکومت پر بی جے پی کا قبضہ ہے اور ریاست میں عآپ کا بول بالا ہے اس لیے مودی سرکار نے دہلی حکومت کے اختیارات کو محدود کرنے سے متعلق ترمیمی بل منظور کروا کے اپنے چہرے سے منافقانہ نقاب کو ازخود نوچ کر پھینک دیا ہے ۔
دہلی بھی ویسے تو ایک صوبہ ہے مگر دارالخلافہ ہونے کے سبب اس کو دوسری ریاستوں کی مانند مکمل ریاستی درجہ حاصل نہیں ہے ۔ دہلی میں گورنر نہیں بلکہ لیفٹننٹ گورنر ہوتا ہے ، پہلے اس کے اختیارات محدود ہوتے تھے ۔ مودی سرکار نے ایک نیا قانون بناکر اپنے پٹھو ایل جی کے اختیارات میں اضافہ کیا اور وزیر اعلیٰ کے پر کتر دئیے ۔ اس قانون سے قبل دہلی حکومت کو پولیس، امن و امان اور زمین کو چھوڑ کر تمام شعبوں کے لیے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ ان تین شعبوں کے علاوہ کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے کے لیے لیفٹننٹ گورنر کی رضا مندی ضروری نہیں تھی لیکن اسے بدل دیا گیا۔ حکومت کے اس فیصلے نے دہلی میں برسرِ اقتدار عام آدمی پارٹی کے اس الزام کی تائید کردی جس میں بی جے پی پر الیکشن میں شکست نے کے باوجود لیفٹننٹ گورنر کے توسط سے صوبائی حکومت چلانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
مودی سرکار کے آمرانہ طور طریقہ میں سر کاری بابو غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سارے اہم عہدوں پر فائز وفاداروں کو توسیع پر توسیع دے کر ان کی مدتِ کار بڑھائی جارہی ہے ۔ اس کے لیے سبکدوشی کے نت نئے قوانین بنائے جاتے ہیں اور عدالتی پھٹکار کے باوجود گہار لگا کر ایکس ٹینشن کی بھیک مانگی جاتی ہے ۔اس کی تازہ ترین مثال ای ڈی کے ڈائرکٹرایس کے مشرا کی سرکاری وکالت ہے ۔ ایسے میں دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کوبا اختیاربنا کر ان کے ذریعہ عوام کی حکومت کو لنڈورا بنانا قابل فہم الزام ہے ۔ اس معاملے میں دہلی کی حکومت نے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کیا تاکہ لیفٹیننٹ گورنر کی مداخلت پر قدغن لگے ۔ دہلی حکومت نے عدالت نے یہ دلیل دی تھی کہ 2018 میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے مطابق زمین اور پولیس جیسے چند معاملات کو چھوڑ کر دیگر تمام معاملات میں دہلی کی منتخب حکومت کو بالادستی حاصل ہوگی۔ اس کے برعکس مرکزی حکومت کا موقف تھا کہ 4 جولائی، 2018 کو، سپریم کورٹ نے مرکز بمقابلہ دہلی تنازعہ میں کئی مسائل پر اپنا فیصلہ دیا، لیکن کچھ معاملات جیسے خدمات یعنی افسران کے تبادلے پر کنٹرول کو مزید سماعت کے لیے چھوڑ دیا۔ اس لیے اسے بڑی بنچ کے حوالے کیا جائے ۔
دہلی میں انتظامی خدمات کے کنٹرول کا معاملہ جب عدالت میں گیا تو سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے 14 فروری 2019 کو اس پر فیصلہ سنایا۔ تاہم اس میں دونوں ججوں کی رائے مختلف تھی۔ اس لیے یہ معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا گیا کہ وہ فیصلے کے لیے تین رکنی بینچ تشکیل دیں۔اس قضیہ پر 2019 کے اندر جسٹس بھوشن نے فیصلہ تھا کہ سروسس ( خدمات کا تقرر) صرف مرکز کا دائرہ اختیار ہے ۔ اس کے بعد بی جے پی نے ایوان پارلیمان میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر ایک قانون منظور کروا کر دہلی حکومت کے ہر اہم فیصلے کو لیفٹیننٹ گورنر کی مرضی کا تابع کردیا گویا عوام کے ذریعے منتخب شدہ حکومت کو مرکز کے مقررکردہ نمائندے کا محتاج بنا دیا گیا لیکن وہ بھول گئی کہ جس ریاست کی بابت بل منظور کیا گیا وہاں کی عوام نے اروند کیجریوال کو ایسی زبردست اکثریت سے نوازہ ۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے کہ جس کا بی جے پی خود اپنے گڑھ گجرات میں بھی تصور نہیں کرسکتی۔ 2015 میں عام آدمی پارٹی کو دہلی کی 70 رکنی اسمبلی میں 67 اور بی جے پی کو محض تین حلقوں میں کامیابی ملی تھی۔ 2020 کے الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو 65 اور بی جے پی پانچ حلقوں میں کامیاب ہوسکی تھی ۔ ایسی مضبوط دہلی سرکار پر نکیل کسنے کی خاطر یعنی دہلی حکومت کے اختیارات کم کرنے کے لیے مارچ 2021 میں لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات وسیع کرنے والااین سی ٹی ترمیمی بل لوک سبھا کے اندر منظور کیا گیا۔
اس قانون کے مطابق دہلی کی کیجریوال حکومت کے ہر انتظامی فیصلے پرلیفٹننٹ گورنر کی منظوری کو لازم قرار دے دیا گیا۔یہ بل کو دونوں ایوانوں میں منظو ہوگیا اور حزبِ اختلاف کا ہنگامہ سرکار کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکا ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اب کی بار پھر لوک سبھا میں منظوری کے بعد نیا قانون راجیہ سبھا میں پاس ہوجائے گا۔ اس لیے کہ جمہوری نظام کے اندر عدل و انصاف یا منطق اور دلیل کے بجائے
جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا بول بالا ہے ۔ مگرپھر جسٹس چندر چوڑ، جسٹس ایم آر شاہ، جسٹس کرشنا مراری، جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی آئینی بنچ نے جسٹس بھوشن کے فیصلے کو مسترد کرکے تمام ججوں کی رضامندی سے اکثریت کا فیصلہ سنا تے ہوئے صاف کہا کہ دہلی حکومت کو افسران کے تبادلے اور تعیناتی کا حق ہے ۔ اس فیصلے سے مودی سرکار کی بڑی سبکی ہوگئی ۔ اروند کیجریوال کو عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے سے مودی سرکار پر ایک بہت بڑی فتح سے ہمکنار کردیا کیونکہ سپریم کورٹ نے کہا گوکہ دہلی ایک مکمل ریاست نہیں ہے ، لیکن قانون ساز اسمبلی کو فہرست 2 اور 3 کے تحت اسے یہ اختیار دیا گیا ہے ۔
عدالتِ عظمیٰ نے اعتراف کیا کہ آرٹیکل 239اے اے مرکز کو جامع تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ پارلیمنٹ کو تھرڈ شیڈول کے کسی بھی موضوع پر قانون بنانے کا پورا اختیار ہے نیز مرکزی اور ریاستی قوانین میں تصادم کی صورت میں مرکزی قانون غالب ہوگامگر وفاقی آئین میں دوہری سیاست ہے ۔ عوام کے ذریعہ منتخب شدہ دوہری حکومت عوامی مرضی کی عکاس ہے ۔ اس لیے وفاقیت کے اصول کا احترام کیا جائے ۔ مرکز تمام قانون سازی، تقرری کے اختیارات اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ اگر منتخب حکومت افسران کو کنٹرول نہیں کر سکے گی تو عوام کی اجتماعی ذمہ داری کیسے ادا کرے گی؟ جمہوری طور پر منتخب حکومت دہلی کے عوام کے سامنے جوابدہ ہے ۔ منتخب حکومت کو عوام کی مرضی پر عملدرآمد کا اختیار ہونا چاہیے ۔ وفاقی نظام اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب مرکز تمام قانون سازی کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے ۔ اس طرح عدالت نے مرکز کی بالادستی پر ایک سوالیہ نشان لگا کر اس کے حدود و قیود طے کردئیے جو موجودہ سرکار کے سر پر عدالت کا زبردست ہتھوڑا تھا۔ اس سے تلملا کر مرکزی حکومت نے فوراً ایک حکمنامہ جاری کردیا۔ اس آرڈیننس کو اب قانون شکل دی جا رہی ہے ۔ حزب اقتدار کے ساتھ حزب اختلاف کی اس کشمکش پر ماہر القادی کا یہ شعر صادق آتاہے
مدت سے کشاکش جاری ہے ، صیاد میں اور گل چینوں میں
تنظیم گلستاں ہونے تک انجام گلستاں کیا ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں