غیرقانونی بھرتیوں کے پیچھے کیاکچھ ہوتاہے سب کوپتہ ہے ،چیف جسٹس
شیئر کریں
محکمہ خزانہ سندھ میں 336 ملازمین کی غیر قانونی بھرتیوں کے خلاف اپیل پر سپریم کورٹ نے معاملہ دوبارہ سندھ ہائی کورٹ کو بھجوا دیا۔ بدھ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔سپریم کورٹ نے معاملہ دوبارہ سندھ ہائی کورٹ کو بھجوا دیا۔ عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کو سکیل 1سے 14 تک کے معاملے پر چھے ماہ میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کر دی ۔ عدالت نے کہاکہ16 سکیل سے اوپر کی پوسٹوں پر بھرتیاں سندھ پبلک سروس کمیشن کے زریعے کی جائیں گی، ہائیکورٹ تمام 336 ملازمین کا ریکارڈ چیک کروائے۔سپریم کورٹ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ سبطین محمود پر برہم ہوگئی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جن 10 ہزار لوگوں کے ٹیسٹ انٹرویو ہوئے ان کا ریکارڈ کہاں ہے؟ ۔ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ سبطین محمود نے کہاکہ محکمے سے کنفرم کر کے ہی بتا سکتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دس ہزار لوگوں کا سوال پیپر تو آپ بنا لیں گے جواب پیپر کا ریکارڈ عدالت کو دکھائیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایک ہی دن میں ٹیسٹ انٹرویوز مکمل کر کے فائنل بھرتیوں کی لسٹ بھی آویزاں کر دیا خدا کا خوف کریں۔ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ سندھ کے پانچ ڈویژن کراچی، سکھر، حیدر آباد، میر پور خاص اور لاڑکانہ میں ایک ساتھ ٹیسٹ انٹرویوز ہوئے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ کوئی طریقہ نہیں قانون کو فالو کئے بغیر بھرتیاں ہوں گی، غیر قانونی بھرتیوں کے پیچھے کیا کچھ ہوتا ہے سب کو پتہ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ 16، 17،18 گریڈ کے ملازمین کی انڈیکشن ہو ہی نہیں سکتی، بیک ڈور بھرتیاں کر کے سیول سرونٹ بنا دیا گیا انہیں مستقل نہیں کیا جاسکتا۔ وکیل ملازمین نے کہاکہ 2011 میں بھرتی ہوئے نوکری کرتے ہوئے 10 سال کا عرصہ گزر گیا۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ 336 میں سے 10 کی ڈگریاں ویرفیکشن نہیں ہوئیں تو انہیں نوکری سے فارغ کیا گیا،غیر قانونی طریقے سے بھرتیاں کی گئیں میڈیا کوریج موجود ہے عدالت پیمرا سے ریکارڈ منگوائے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ہم ہائیکورٹ بجھوا رہے ہیں وہاں سب کا کیس سنا جائے گا اور تحقیقات بھی ہونگی۔