میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایک صدی بعد نیا ورلڈ آرڈر؟

ایک صدی بعد نیا ورلڈ آرڈر؟

ویب ڈیسک
جمعرات, ۸ جولائی ۲۰۲۱

شیئر کریں

(مہمان کالم)

فرح ا سٹاک مین

جب 1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹکڑے ہوئے تو امریکا کئی عشروں تک اپنی اس فتح کا جشن منانے میں مصروف رہا۔ اس کے خیال میں یہ کمیونزم پر سرمایہ دارانہ نظام کی، ا?مریت پر ا?زادی کی اور یک جماعتی حکومت پر جمہوریت کی فتح تھی۔ وہ سمجھا کہ شاید اب کھیل ختم ہو گیا ہے اور وہ یہ جنگ جیت گیا ہے۔ وہ تاریخ کے دھارے کے آخری کنارے تک پہنچ چکا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ چین بھی چند دنوں کی مار ہے‘ جو فری مارکیٹ کی کئی اصلاحات پہلے ہی اپنے ہاں متعار ف کرا چکا تھا اور مغربی ممالک جیسے نظام کو اپنا چکا ہے۔ امریکا چین کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑی حد تک نارمل کر چکا تھا اور بڑی بے تابی سے کسی ’’چینی گورباچوف‘‘ کا انتظار کر رہا تھا۔ اگر ا?پ ابھی تک اس کے منتظر ہیں تو اپنا سانس روکنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
یکم جولائی کو چین کی کمیونسٹ پارٹی نے صدر شی جن پنگ کی سربراہی میں اپنی 100ویں تاسیسی سالگرہ منائی۔ صدر شی جن پنگ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے سوویت یونین کے ٹوٹنے سے ایک مختلف نوعیت کا سبق سیکھا ہے۔ سوویت یونین اس لیے نہیں ٹوٹا کیونکہ کمیونزم کی قسمت میں شکست لکھی ہوئی تھی بلکہ اس لیے ٹوٹا کیونکہ سوویت کمیونسٹ پارٹی کے عہدیدار کرپٹ ہو گئے تھے اور اپنے عہد اور عزم کو فراموش کر بیٹھے تھے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013ء میں کمیونسٹ پارٹی کے قائد کے طور پر جو پہلا عہد کیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ سوویت یونین والے انجام کو چین میں دہرائے جانے کا موقع نہیں دیں گے۔ ابھی تک یہ بحث ماند نہیں پڑی کہ کون سا نظام کارکردگی کے لحاظ سے بہتر ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ابھی تک اپنے اگلے رائونڈ کی تیاری کر رہا ہے مگر بجائے اس کے کہ وہ چین کے ساتھ مسابقت کو ایک زیرو سم گیم کے طور پر دیکھتا، امریکا مسابقت کی ایک ایسی راہ بھی اپنا سکتا تھا جو اسے اس بات پر اکساتی کہ وہ اپنے عوام پر سرمایہ کاری کرنے کے بارے میں سوچتا اور پھر ہمیشہ کے لیے اسی راہ پر گامزن رہتا۔
صدر شی جن پنگ کی کمیونسٹ پارٹی 1949ء سے چین میں برسر اقتدار ہے اور یہ شمالی کوریا کی کمیونسٹ پارٹی کے بعد اس کرہ ارض پر طویل ترین مدت سے حکمرانی کر رہی ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی اپنے سوویت سر پرستوں کے بعد محض زندہ ہی نہیں رہی بلکہ اس نے ایک ایسی معیشت کو فروغ دیا جو سوویت یونین کی معیشت سے کہیں زیادہ متحرک اور خوشحال ہے۔ جب کمیونسٹ چین پر قابض ہوئے تو اس وقت چین میں صرف 20 فیصد لوگ لکھ پڑھ سکتے تھے۔ آج چین کے 97 فیصد افراد خواندہ ہیں۔ آج چین میں جی ڈی پی کی فی کس گروتھ 10 ہزار امریکی ڈالر ہو چکی ہے جو 1960ء میں 90 ڈالر سے بھی کم تھی۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ 2028ء تک چین کی معیشت امریکی معیشت سے حجم میں کہیں ا?گے نکل جائے گی۔ اگرچہ یہ تخمینہ پہلے سے لگایا گیا ہے مگر اب یہ ایسا رجحان ہے جس میں کووڈ کی عالمی وبا کے بعد خاصی تیز ی دیکھنے میں آرہی ہے۔
چین اب اپنی عسکری قوت میں اضافہ کرنے کے لیے بھی کھلے دل کے ساتھ سرمایہ کاری کر رہا ہے اور وہ جبوتی میں اپنا پہلا اوورسیز فوجی اڈا کھولنے والا ہے مگر ا س کی معاشی ترقی زیادہ خوفناک ہے۔ چین بڑی خاموشی سے دنیا کا سب سے بڑا قرض دینے والا ملک بن چکا ہے اور اس سلسلے میں عالمی بینک، عالمی مالیاتی فنڈ اور قرضے دینے والی تمام حکومتیں مل کر بھی چین کو اس شعبے میں مات نہیں دے سکتیں۔ ڈیوڈ شپ با چین پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں‘ جن میں ایک نئی کتاب بھی شامل ہے جس کا عنوان ہے ’’China’s Leaders‘‘۔ ڈیوڈ لکھتے ہیں ’’اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چین ابھر رہا ہے۔ چین ابھر چکا ہے اور یہ آپ کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے‘‘۔
جب سے چین ایک عالمی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے امریکا کو خاصی پریشانی لاحق ہے۔ صدر جو بائیڈن اور ان کی حکومت نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ امریکا چین کو 21ویں صدی کے سب سے بڑے جیو پولیٹکل چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے۔ چند ہفتے قبل ڈیمو کریٹس اور ریپبلکن ارکان نے اپنی دیرینہ نفرت کو پس پشت ڈال دیا تھا تاکہ یونائیٹڈ سٹیٹس انوویشن اینڈ کمپٹیشن ایکٹ 2021ئ￿ کو پا س کرایا جا سکے‘ جس کے بعد ریسرچ اور ہائر ایجوکیشن میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو جائے گا۔ نیٹو کی حالیہ سربراہ کانفرنس میں ساری توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ کس طرح نیٹو اتحاد کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آرہا ہے اور اس کے ساتھ کس طرح نمٹا جائے۔ یہاں ہونے والی بحث سے ایک نئی اور خوفناک سرد جنگ کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ یہ بات اس لیے بھی قابلِ فہم ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی مخاصمت کی وجہ سے تصادم وغیرہ کا قوی امکان ہے اور یہ کہ معاملہ اگر ہاتھ سے نکل گیا تو یہ ناقابلِ تصور نقصان کا باعث بن سکتا ہے؛ تاہم اگر اس کے ساتھ سمجھ بوجھ سے ڈیل کیا گیا تو یہ نہ صرف امریکا اور چین بلکہ باقی دنیا کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
صدر جو بائیڈن نے شاید 2012ء میں درست ہی کہا تھا جب انہوں نے صدر شی کو بتایا ’’ایک امریکی کے طور پر ہم ہمیشہ مسابقت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ڈی این اے کا حصہ ہے اور امریکا کے عوام وہ شہری ہیں جو ہمیشہ ہرچیلنج پر پورا اترتے ہیں‘‘۔ اگر امریکا کو ایک مسابقت کار ملک کے طور پر ایک بات جاننے کی ضرورت ہے تو وہ یہ کہ مسابقت ایک صحت مند عمل ہے۔ اجارہ داریاں ہمیشہ سستی، استحصال اور دادا گیری پیدا کر تی ہیں۔ یہ بات اکنامکس کے شعبے میں بھی درست ہے اور یہ جیو پولیٹکل بالا دستی کے لیے بھی درست ہے۔
امریکی عوام کے سپر پاور کے سٹیٹس نے انہیں گلوبل سائوتھ کے عوام کے جذبات سے لاپروا اور بیگانہ کر دیا ہے جب انہوں نے افغانستان اور عراق میں وسائل لوٹنے کے لیے تباہ کن جنگیں لڑنے اور انسانی خون بہانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اب امریکی عوام نے یہ سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت پوری انسانیت کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے۔ اور یہ بات اس قدر عیاں ہو کر سامنے آچکی ہے کہ اب ا س کے لیے ہمیں کوئی جواز تلاش کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی؛ چنانچہ امریکا میں یہ سوچ پروان چڑھنے لگی ہے کہ ہم تعلیم، سماجی شعور اور مشترکہ مقاصد پر سرمایہ کاری کیے بغیر بھی آگے بڑھ سکتے ہیں حالانکہ یہ سب جمہوریت کو صحت مند اور توانا رکھتے ہیں۔
چین کے ساتھ معاشی مسابقت سے امریکا ایک بار پھر اسی راہ پر گامزن ہو سکتا تھا جس پر چل کر وہ دنیا کا ایک عظیم ملک بنا تھا۔ اگر چین پر بغور نظر ڈالیں تو اس امر میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ اس نے امریکی عوام کو سائنسی ریسرچ اور تعلیم پر بھاری اخراجات کرنے پر مجبور کیا ہے جو ہمارے لیے ایک مفید بات ہے۔ اگر وہ انہیں اس امر کی یقین دہانی کرا دے کہ ان کی سپلائی چینز زیادہ پائیدار ہیں اور ان کی معیشت محض کسی ایک سہارے پر قائم نہیں ہے تو یہ بہتر ہو گا۔ اگر امریکا میں کوئی اس طرح کی بحث شروع کرا دے کہ انفرادی کے بجائے اجتماعی خوش حالی کو کس طرح فروغ دیا جا سکتا ہے‘ تو یہ ایک قابلِ تحسین امر ہو گا۔ اگر چین کی کووڈ ڈپلومیسی امریکا کو باقی دنیا کے لیے ویکسین کا پروڈیوسر بنا دے‘ جیسا کہ جو بائیڈن نے وعدہ کیا تھا‘ تو یہ سب کے لیے ایک نادر موقع ہو گا۔ چین‘ جس نے دنیا بھر میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے 1.2 ٹریلین ڈالر سے بیلٹ اینڈ روڈ پلان ترتیب دیا ہے‘ اگر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا اور مغربی ممالک ترقی پذیر ملکوں کو کم تر شرح سود پر قرضے فراہم کرنا شروع کر دیتے ہیں تو اس عمل کو افریقی اور لاطینی ممالک کے ساتھ ایک منصفانہ سلوک سمجھا جائے گا۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنٹسٹ بروس ڈکنز‘ جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے امور کے ماہر ہیں‘ نے مجھے بتایا ’’اگر اس طرح ہم مندی سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم امریکا میں اپنے لبرل ایجنڈے کے حصول میں کافی پیش رفت کر سکتے ہیں۔ اس تناظر میں چین کے ساتھ مسابقت امریکا اور اس کے شہریوں کے لیے ایک مفید عمل ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسابقت کبھی نسل پرستی کے شکنجے میں پھنس جاتی ہے اور کبھی قوم پرستی کے جذبات سے الجھ جاتی ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ اس کے عسکری پہلوئوں کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں‘‘۔
ستم ظریقی یہ ہے کہ جس وقت بھی اس مخاصمت میں شدت آتی ہے تو چین اور امریکا‘ دونوں ایک جیسے مسائل میں پھنس جاتے ہیں یعنی وسیع تر عدم مساوات، مینو فیکچررز کی کم لاگت والے ممالک کی طرف منتقلی، ماحولیاتی نقصانات اور مڈل کلاس کے ناممکنات پر مبنی خواب اور خواہشات۔ تمام ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ روابط برقرار رکھنے چاہئیں اور مشترکہ چیلنجز کا سامنا کر نے کے لیے سب ملکوں کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ شاید ایک دن آ جائے گا جب چین کی موجودہ قیاد ت خوش حالی اور جدت کے حقیقی ذرائع پر سوچنے پر مجبور ہو جائے گی اور اپنے نظام کے دروازے خیالات کے آزادانہ تبادلے کے لیے کھول دے گی۔ کمیونسٹ پارٹی کی شاندار کامیابی محض کمیونزم کی مرہونِ منت نہیں ہے بلکہ اس کی اصل وجہ چینی قیادت کا اپنے نظام کو فری مارکیٹ کے مطابق ڈھالنا ہے۔
چین چیئرمین مائوزے تنگ کی پالیسیوںکی وجہ سے ایک عالمی طاقت کا سٹیٹس حاصل کرنے میں ناکام ہوا جنہوں نے نجی ملکیت کو ختم کر دیا تھا اور تعلیم یافتہ پروفیشنلز کے خلاف ایک کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کر دی تھی۔ ان پالیسیوں کی بدولت چین کو انسانی تاریخ کے ایک بدترین قحط کا سامنا کرنا پڑا تھا جس سے سیاسی کشیدگی اور ریڈ گارڈز کا ایک دوسرے کو قتل کرنے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین کی تمام تر کامیابیاں ان اصلاحات کی مرہون منت ہیںجو ڈینگ ڑیائو پنگ نے متعارف کرائی تھیں اور جنہوں نے چینی نظام کو نجی ملکیت کے لیے کھول دیا تھا۔ نیا سسٹم کسی آئیڈیالوجی کے بجائے عوام کے فیڈ بیک اور نتائج پر مبنی فیصلوں کی روشنی میں کام کرتا ہے۔ اگر امریکی نظام حکومت ڈیمو کریٹس اور ریپبلکن ارکان کے درمیان کبھی ادھر کبھی ادھرلڑھک رہا ہے تو چینی کا نظام بھی ان دونوں گروپوں کے درمیان گھوم رہا ہے جن میں سے ایک گروپ عوام اور معیشت پر سخت کنٹرول کا خواہش مند ہے اور دوسرا گروپ اسے نسبتاً آزاد ی دینا چاہتا ہے۔ ڈینگ ڑیائو پنگ دوسرے گروپ کے ساتھ کھڑے تھے جو دنیا بھر سے ہر نئی چیز سیکھنے کا حامی تھا۔
صدر شی جن پنگ سخت کنٹرول کے حامی ہیں اس وقت تاثر یہ ہے کہ چین میں اصلاحات کا سلسلہ رول بیک کر دیا گیا ہے اور ایک سخت گیر قسم کی مطلق العنان حکومت قائم ہے۔کمیونسٹ پارٹی میں ان کے ونگ کے لوگ دیگر ممالک پر یہ دیکھنے کے لیے نظر رکھے ہوئے ہیں کہ وہ کیا نہیں کر رہے۔ انہوں نے سوویت ریاستوں کے رنگین انقلاب (colour revolution) اور عرب ریاستوں کے سپرنگ انقلاب کا دقیق مطالعہ کیا ہے تاکہ ان ناکامیوں سے بچا جا سکے۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ انٹر پرینیورز انقلاب کے حامی بنتے جا رہے ہیں تو انہوں نے چین کے ابھرتے ہوئے سرمایہ داروں کو کمیونسٹ پارٹی میں شامل کر نا شروع کر دیا۔ جب انہوں نے مشاہدہ کیا کہ سوویت یونین کی معاشی تنہائی اس کی سب سے بڑی کمزوری بن گئی تھی تو انہوں نے عالمی معیشت سے تعاون اور تعلق کا راستہ اپنا لیا اور اس طرح چین کو مغرب کے لیے ناگزیر بنا دیا۔ یقینی طور پر صدر شی جن پنگ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے سوویت یونین کے ٹوٹنے سے ایک مختلف نوعیت کا سبق سیکھا ہے۔ سوویت یونین کے بارے میں ہمارے ہاں جو بھی بتایا جاتا رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین اس لیے نہیں ٹوٹا تھا کہ کمیونزم کی قسمت میں شکست لکھی ہوئی تھی بلکہ سوویت یونین کو شکست اس لیے ہوئی تھی کہ سوویت کمیونسٹ پارٹی کے عہدیدار کرپٹ ہو گئے تھے اور اپنے عہد اور عزم کو فراموش کر بیٹھے تھے۔دوسری جانب چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013ء میں کمیونسٹ پارٹی کے قائد کے طور پر جو پہلا عہد کیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ سوویت یونین والے انجام کو چین میں دہرائے جانے کا موقع نہیں دیں گے۔
حالیہ برسوں کے بغور مشاہدے کے بعد یہ احساس ہو رہا ہے کہ صدر شی جن پنگ سمجھتے ہیں کہ اب مزید سیکھنے کے لیے کچھ بچا ہے اور نہ اب اس کی ضرورت رہی ہے۔ 2008ء کے سنگین معاشی بحران اور 2016ء میں امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد صدر شی جن پنگ کی اس خواہش کو معاف کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ناگزیر نتیجے کے طور پر جلد امریکا کی تباہی کا انتظار کر رہے تھے۔ کسی دور میں امریکا بھی بڑی بے تابی سے کسی ’’چینی گورباچوف‘‘ کا انتظار کر رہا تھا۔ چینی صدر نے مارچ میں گفتگو کرتے ہوئے بڑے کھلے الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا ، انہوں نے واضح طور پر کہا تھا ’’مشرق طلوع ہو رہا ہے اور مغرب غروب ہو رہا ہے‘‘۔
میں کچھ زیادہ یقین سے تو بعد کے حالا ت میں کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ امریکی جمہوریت کی حالت جتنی دگرگوں ہو گئی ہے‘ میں آج بھی اس کے مقابلے میں آمریت کے حق میں شرط لگانے کے لیے تیار بیٹھا ہوں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے ہم یونی پولر دنیا اور اس کی آلائشوں سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں اور میرے خیال میں اس سارے قضیے میں یہ سبق پوشیدہ تھا کہ اگر مسابقت ختم ہو جائے تو معیار گھٹنا شروع ہو جاتا ہے اس لیے مثبت مسابقت کو باقی رہنا چاہیے۔امریکی عوام کو چین کے ساتھ شروع ہونے والی مسابقت سے گھبرانے یا خوفزدہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں