ایپکس کمیٹی کے اجلاس نے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی افواہوں کا دم نکال دیا!
شیئر کریں
٭ سہیل انور سیال اور ضیاء الحسن لنجار وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہیں مگر ترپ کا پتہ شرجیل میمن ہیں، قائم علی شاہ بھی پرامید
حکومت سندھ ہمیشہ تبدیلی کے نشانے پر رہتی ہے۔ قائم علی شاہ 2008 ء سے 2013 ء تک وزیر اعلیٰ رہنے والے سندھ کے پہلے لیڈر تھے جنہوں نے اپنی مدت مکمل کی مگر اس کے بعد جب وہ 2013 ء میں دوبارہ وزیر اعلیٰ بنے تو ان کی کرسی کو خطرہ لاحق ہوا۔ بالآخر ان کو ہٹا کر سید مراد علی شاہ کو نیا وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ مراد علی شاہ کو تو 2018 ء کے عام الیکشن تک وزیر اعلیٰ بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ ان کو ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کا صرف ایک ہی سبب ہے کہ مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ پولیس کو ہٹانے کے لئے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو یہ پتہ ہے کہ ان کے والد سید عبداللہ شاہ جب وزیر اعلیٰ تھے تو ان کے پرسنل اسٹاف افسر (پی ایس او) اے ڈی خواجہ تھے جو اب آئی جی سندھ پولیس ہیں اس لیے وہ اے ڈی خواجہ کی عزت بھی کرتے ہیں اس کے باوجود وزیر اعلیٰ نے پہلے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو جبری چھٹی پر بھیجا اور پھر 3 اپریل کو ان کو ہٹا کر ان کی جگہ سردار عبدالمجید دستی کو قائم مقام آئی جی بنا دیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے دو روز بعد یعنی 5 اپریل سے اب تک آئی جی سندھ پولیس کو حکم امتناعی دے کر بحال رکھا اور واضح حکم دیا کہ آئی جی کے اختیارات کم نہ کیے جائیں اور نہ ان کے کام میں رکاوٹ ڈالی جائے لیکن اس کے باوجود ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ وزیر داخلہ سہیل انور سیال کا تقرر بھی اسی لیے کیا گیا تاکہ وہ آئی جی سندھ پولیس سے ٹکرائو والی پالیسی برقرار رکھیں۔ انہوں نے بے تکی باتیں کرکے آئی جی کو پریشان کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے اورپانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ گئے۔ یہ سب بڑے صاحب اس لیے کررہے ہیں تاکہ سندھ میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کا ماحول تیار کیا جاسکے۔ انہوں نے تین چار افراد کو تیار کرلیا ہے اور اب تو ایک نئی افواہ گردش کررہی ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ سیدقائم علی شاہ کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔کچھ حلقوں میں یہ بات زیر گردشہے کہ ان کو بڑے صاحب نے ایک خاص’’ ہدف‘‘ دیاہے اور قائم علی شاہ اپنے قریبی دوستوں، رشتہ داروں اور ساتھیوں سے اُدھار لے کر وہ ’’ہدف‘‘ پورا کر رہے ہیں ۔
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ سہیل انور سیال اور ضیاء الحسن لنجار کو وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل کیا گیا ہے اور ان کو تیار رہنے کا بھی حکم دیا گیا ہے لیکن اصل پتہ خفیہ رکھا گیا ہے، وہ بادشاہ کا پتہ ’’شرجیل انعام میمن‘‘ ہیں کیونکہ وہ بڑے صاحب کو پسند ہیں، ان پر اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات ہیں وہ خود کماتے ہیں لیکن سب کے ساتھ مل کر بیٹھ کر کھاتے ہیں، سب کو حصہ دیتے ہیں بڑے صاحب کو بڑا حصہ دیتے ہیں اور خواتین کے لیے وہ اپنے حصے کا بھی مال دے دیتے ہیں۔ اس لیے طاقتور خواتین بھی ہمیشہ شرجیل میمن کی حمایت کرتی رہتی ہیں۔ اسی لیے سندھ میں نیب کے قوانین ختم کرائے گئے تاکہ شرجیل میمن کو کلیئر کرایا جاسکے لیکن اچانک آرمی چیف نے کور ہیڈ کوارٹر میں ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلالیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں دوطرح کے پیغامات دیے ۔ایک یہ کہ آئی جی سندھ پولیس کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے دوسرا یہ کہ منتخب عوامی نمائندے احتساب کے مرحلے سے گزریں گے جس کا واضح مطلب تھا کہ حکومت سندھ جو اپنا احتساب کمیشن بنا کر کرپٹ افراد کو بچانا چاہتی ہے وہ قابل قبول نہیں ہے جنہوں نے کرپشن کی ہے ان کو احتساب کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا۔ ان کو بچانے کی کوشش نہ کی جائے۔ بس اسی بات نے حکومت سندھ اور بڑے صاحب کی نیندیں حرام کردی ہیں پھر بڑے صاحب نے پریشانی مٹانے کے لیے دورے شروع کردیے ہیں اور اب ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کی باتیں بند کردی گئی ہیں کیونکہ معاملات اب شاید بڑے صاحب کے ہاتھ سے بتدریج نکل رہے ہیں۔ شرجیل میمن، سہیل انور سیال، ضیاء الحسن لنجار تو فی الحال خاموش ہوگئے ہیں لیکن قائم علی شاہ چندہ کرنے میں مصروف ہیں اور وہ کسی بھی طور پر مایوس نظر نہیں آتے وہ اب بھی اس آسرے میں ہیں کہ انہیں دوبارہ وزارت اعلیٰ مل جائے گی اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ چند روز میں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔
الیاس احمد