میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اور اب کیا ہو گا

اور اب کیا ہو گا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۸ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

ابھی اسلامی سربراہی کانفرنس جس کی صدارت اسرائیل نواز امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے کی اور اس نے اسلامی اقدار کا خوب مذاق اُڑایا، ریاض میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ اور دختران حجاب سے دور تھیں، سر پر دوپٹہ تو کیا لیتی انہوں نے تو مکمل ساتر لباس بھی نہیں پہنا لیکن جب وہ اسرائیل پہنچیں تو ان کے لباس تبدیل ہو چکے تھے اور ویٹی کن میں تو اس لباس میں تھی کہ وہ جو لباس انہوں نے زندگی میں شاید ا س سے پہلے کبھی نہ پہنا ہو ان کے لیے ویٹی کن محترم ہے اور ہمارے لیے مکہ اور مدینہ۔
دہشت گردی کے خلاف ہونے والی اس کانفرنس میں دہشت گردی کے شکار سب سے بڑے ملک کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ ایران کے علاوہ قطر واحد اسلامی ملک تھا جس نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی، یوں قطر نے واضح کر دیا تھا کہ وہ کسی ایسے اتحاد کا حصہ بننے کو تیار نہیں جس کی سربراہی عملاً امریکا کے ہاتھ میں ہو، قطر اس سے قبل مسلمان ممالک کی اتحادی فوج کا حصہ بن چکا تھا اور سعودیوں کے ساتھ یمن میں برسرِ پیکار بھی ۔
لیکن جب معاملات اس نہج پر پہنچے کہ اسلامی دنیا کو دو حصوں میں باٹنے کا عمل شروع ہوا تو قطر نے فیصلہ کیا کہ وہ تقسیم کے اس عمل کا حصہ دار نہیں بنے گا ۔ پاکستان میں جنرل راحیل شریف کی مسلم ممالک کی اتحادی فوجیوں کی سربراہی پر شادیانے بجانے اور مبارکباد اور کامیاب سفارتکاری کے دعویدار اب بتائیں کہ کامیاب سفارتکاری کیا ہوتی ہے ؟ممالک کے درمیان ایسے تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں جیسا ایران اور سعودیہ عرب کے درمیان ہےں، لیکن دیگر ممالک درمیان کی راہ نکالتے ہیں اور فریقین کو مذاکرات کی میز پر لاتے، بات چیت کا ڈول ڈالتے اور کسی مشترکہ نقطہ تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پاکستان امت مسلمہ میں واحد ایٹمی قوت ہے جس کو مدبرانہ کردار ادا کرنا چاہیے لیکن یہ کردار پاپا رجب طیب اردگان کی سربراہی میں ترکی انجام دے رہا ہے ترکی جو اسلامی خلافت کا آخری مرکز رہا ہے، اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز بن رہا ہے ۔
قطر سے سفارتی تعلقات توڑنے والوں میں سعودی عربیہ اور اس کے لے پالک مصر،متحدہ عرب امارات،لیبیا ،بحرین اور یمن شامل ہے، عجب طرفہ تماشہ ہے کہ ایک جانب سعودی عرب یمن میں برسرپیکار ہے اور دوسری جانب یمن قطر سے سفارتی تعلقات توڑنے میں سعودی عرب کی پیروی کر رہا ہے، پاکستان جب اس اتحاد میں شامل ہورہا تھا تب بھی بہت سے حلقوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا، وہ خدشات اب حقیقت بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ یہ اتحاد امت مسلمہ کو جوڑنے نہیں توڑنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ قطر ایک معاشی طور پر مستحکم ملک ہے ممالک کے اس رویہ سے پوری دنیا کے عام آدمی کی زندگی متاثر ہونی ہے کہ پیڑول اور اس سے متعلقہ مصنوعات میں قطر کا ایک بڑا حصہ ہے اور قطر ایل این جی فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، دنیا کی معیشت کا بڑا حصہ ایل این جی پر انحصار کرتا ہے یوں قطر کے بائیکاٹ کے نتیجہ میں ایل این جی پر انحصار کرنے والی صنعتوں نے زوال کا شکار ہونا ہے کہ ان کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے درکار مقدار میں ایل این جی کا فوری حصول نا ممکن ہو گا، صنعتوں کا پہیہ رکے گا تو بے روزگاری کا سیلاب آئے گا اور دنیا ایک معاشی بحران کا شکار ہو جائے گی ۔
تیسری عالمی جنگ کا یہ نقطہ آغاز بھی ہو سکتا ہے کہ معاشی بدحالی ممالک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرے اور وہ خانہ جنگی عالمی جنگ میں تبدیل ہو جائے۔ پاکستان کے جتنے گہرے تعلقات سعودی عرب ،مصر اور لیبیا سے ہےں، اتنے ہی گہرے تعلقات قطر سے بھی ہیں۔ بلکہ موجودہ حالات میں تو ان تعلقات کی گہرائی اور بھی زیادہ ہے کہ اس وقت میں جب شریف برادران پاناما لیکس کے گرداب کا شکار تھے ، قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو خط لکھ کر شریف خاندان کی پریشانی کم کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی یہ دوستی کا وہ حق تھا جو قطری شہزادوں نے تو ادا کیا لیکن پاکستانی ” شہنشاہ اور شہزادے“ اس احسان کا بدلہ اس طرح ادا نہ کر سکے جس طرح ادا کرنا ان کا حق تھا جب قطر نے دہشت گردی کے خلاف کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا تو پاکستان کو بھی چاہیے تھا کہ وہ بائیکاٹ تو نہ کرتا لیکن اپنے وہ ذرائع استعمال کرتا کہ قطر کو اس کانفرنس میں بلایا جاتا ۔
پاکستان کے اس کردار نہ ادا کرنے کے نتیجہ میں جو ہوا وہ تو ہوا لیکن اب ردعمل جو سامنے آیا ہے وہ بڑا خطرناک ہے خصوصاً” شریفوں “ کے لیے مشکلات بڑھنے کے خدشات بہت بڑھ گئے ہیں۔ قطری شہزادے نے بہت آگے بڑھ کر خط لکھا تھا لیکن جب پاکستان نے اس کا وہ جواب نہیں دیا جو دیا جانا چاہیے تھا تو قطری شہزادے نے بھی وہ جواب دیدیا جو جواب دینا ان حالات میں ضروری تھا۔ قطری شہزادے کی جانب سے جے آئی ٹی میں پیش ہونے یا کسی بھی ذریعہ سے اپنا بیان ریکارڈ کرانے سے انکار شریف خاندان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے، اس کا اظہار سیاستدان بھی کرتے رہے ہیں اور عدالتیں بھی، اگر قطری خط قطری شہزادہ کی جے آئی ٹی میں عدم پیشی کے نتیجہ میں جے آئی ٹی اور نتیجاً سپریم کورٹ اس خط کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تو اس کی مثال تو یوں ہوئی کہ
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
شریف خاندان کی دیانت کی عمارت اس خط پر کھڑی تھی اور جب یہ خط ردی کا حصہ بنے گا تو وہ دیانت کی عمارت اس طرح زمین بوس ہو گی کہ اس کے ملبہ میں چھوٹے گونگلو ہی نہیں بڑے بڑے گونگلو بھی ایسے غائب ہونگے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں