سندھ کا سیاسی منظر نامہ
شیئر کریں
27مارچ کونوازشریف کی حیدرآباد آمد سے سندھ میں جو سیاسی ہلچل شروع ہوئی اب وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے ۔نواز شریف کے بعد عمران خان نے پیپلزپارٹی کے گڑھ دادُومیں کامیاب جلسہ کر کے اندرون سندھ پیپلزپارٹی کے لیے خطرہ کی گھنٹی بجا دی ہے جس کا اعتراف دادوسے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما پیر مظہر نے کیا ہے۔ دادومیں لیاقت جتوئی کا ایک بڑا حلقہ اثر ہے، خصوصاً میہڑ اور اس کے گردونواح میں لیاقت جتوئی کا اثر بہت گہرا ہے ،عمران خان کو جو جھٹکا نادر اکمل لغاری کے پیپلزپارٹی میں جانے سے لگا تھا، لیاقت جتوئی کی تحریک انصاف میں شمولیت نے اس کا اثر بڑی حد تک کم کر دیا ہے جبکہ بھٹو قبیلہ کے سردار ممتاز علی بھٹو سے بھی عمران خان کی ملاقات سودمند رہی ہے اگرچہ ممتاز علی بھٹو نے تحریک انصاف میں شمولیت سے گریز کا راستہ اختیار کیا ہے لیکن اتحاد اور باہمی تعاون کا وعدہ بھی کیا ہے۔ شاید ممتاز بھٹو نواز شریف کی جانب سے کیے گئے وعدوں کے عدم ایفاءپر احتیاط پر آمادہ ہوئے ہیں اور اپنے سندھ نیشنل فرنٹ کو قائم رکھتے ہوئے پی پی مخالف ووٹرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور ون ٹو ون مقابلہ کر کے پیپلزپارٹی کو انتخابات میں ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اگر یہ اتحاد قائم ہوتا ہے تو پیپلزپارٹی کے لیے لاڑکانہ اور دادومیں کامیابی مشکل کام ہو گا کیونکہ جہاں لاڑکانہ میں ممتاز بھٹو کے گہرے اثرات ہیں اور ان کے قریبی تعلقات جمعیت علماءاسلام (ف) سے بھی ہیں۔ جمعیت علماءاسلام اس علاقہ میں ایک خاص تعداد میں حامی رکھتی ہے جس کا اندازہ گزشتہ دنوں شکار پور میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے کیا جا سکتا ہے جہاں صوبائی حکومت کی مکمل سرپرستی کے باوجود امتیاز شیخ ایک سخت مقابلے کے بعد کامیابی حاصل کر سکے جبکہ اس موقع پر بننے والا اتحاد بہت وسیع نہیں تھا اور شکار پور کا دوسرا بااثر قبیلہ جتوئی، ان انتخابات میں غیر جانبدار تھا لیکن عام انتخابات میں جتوئی قبیلہ غیرجانبدار نہیں رہے گا ۔جتوئی اور شیخ قبائل کے درمیان ایک عرصہ سے سیاسی کشمکش جاری ہے دوسری جانب جتوئی اور مہر قبائل میں تنازعہ موجود ہے، مہر قبیلے کی پیپلزپارٹی سے قربت کے نتیجہ میں جتوئی قبیلہ ازخود پیپلزمخالف اتحاد کا حصہ بننے کو ترجیح دے گا ۔اب ممتاز بھٹو کی حمایت اور لیاقت جتوئی کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد اس علاقہ کا سیاسی منظر نامہ بدل رہا ہے ،اس امر کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ 27 دسمبر2016 ءکو گڑھی خدا بخش میں آصف علی زرداری نے اعلان کیا تھا کہ وہ نواب شاہ اور بلاول زرداری لاڑکانہ سے ضمنی انتخابات لڑیں گے، لاڑکانہ میں ایاز سومرو سے قومی اسمبلی کی سیٹ خالی کرائی جانی تھی جبکہ نواب شاہ کی سیٹ سے آصف زرداری کی بہن ڈاکٹر عذرا پیچوہو کو استعفیٰ دینا تھا ،لیکن سیاسی منظر نامہ کی تبدیلیاں دیکھتے ہوئے یہ اعلان سیاسی بڑہک سے آگے نہ بڑھ سکا اور تقریباً4 ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود دونوں ارکان قومی اسمبلی نے اپنے استعفیٰ جمع نہیں کرائے ہیں ۔شنید ہے کہ ایاز سومرو نے استعفیٰ دینے کے بجائے پارٹی قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ لاڑکانہ کی اس سیٹ جہاں سے فریال تالپور رکن قومی اسمبلی ہے ضمنی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کریں ۔
نواز شریف کے دورہ حیدرآباد سے مسلم لیگ تو کوئی خاص فائدہ نہ ہو سکا بلکہ ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ بدین کے علاقہ سے ایم پی اے اور پارٹی کے صوبائی صدر محمد اسماعیل راہو نے پارٹی سے اختلاف کا واضح ثبوت دیا اور حیدرآباد میں کسی بھی پروگرام میں نظر نہیں آئے، یوں اسماعیل راہو کی راہیں مسلم لیگ سے جدا ہوئیں اور وہ بالآخر پیپلزپارٹی کو پیارے ہوئے۔ اسماعیل راہو جو 2013 ءکے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر بھی شکست سے دوچار ہوئے تھے اور انتخابی عذر داری کے نتیجہ میں ایک بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ پولنگ جس میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے پیپلزپارٹی میں کھل کر اسماعیل راہو کا ساتھ دیا تھا یوں اسماعیل راہو اس پولنگ کے نتیجہ میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے لیکن یہ سیاست کی بدقسمتی ہے کہ اس کے نام پر محسن کشی کو سیاسی حکمت عملی قرار دے دیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے اسماعیل راہو کو خوش کرنے اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے کہ ضلع بدین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے ایک کا ضلع ماتلی ہو اور دوسرا بدین کہلائے اگر یہ تقسیم انتخابات سے قبل ہو جاتی ہے تو ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ،ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور بیرسٹر حسنین مرزا کے حلقہ انتخابات شدید طور پر متاثر ہو نگے کیونکہ شنید ہے کہ تلہار تعلقہ کو بھی اس طرح سے تقسیم کیا جائے گا کہ ذوالفقار مرزا کے حامی آدھے ووٹر ایک حلقہ میں باقی دوسرے حلقہ میں شامل ہونگے ان اضلاع کے قیام کے نتیجہ میں پیپلزپارٹی کو اپنی ضلعی باڈیاں تحلیل کرنا پڑیں گی اور اس طرح پیپلزپارٹی کمال چانگ کو ماتلی اور اسماعیل راہو کو بدین کی ضلعی قیادت دے کر ذوالفقار مرزا کے سامنے چھوڑ دینگے۔ اسماعیل راہو نے اسمبلی کی ایک ممکنہ سیٹ کے لیے اپنے والد کے سیاسی حریفوں سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ فاضل راہو نے اپنی سیاست کا آغاز پیپلزپارٹی مخالفت سے کیا تھا وہ نیشنل عوامی پارٹی کا حصہ رہے پھر رسول بخش پلیجو کے ساتھ ملکر عوامی تحریک بنائی لیکن نظریاتی اختلافات کی بنا پر کہ رسول بخش پلیجو کمیونزم کے روسی ماڈل اور فاضل راہو چینی ماڈل کے پیروکار تھے ،فاضل راہو کواوئل 1987ءمیں گولارچی میںان کے گھر میں کلہاڑی کے حملے سے قتل کر دیا گیا اس وقت اس کا الزام براہ راست تو نہیں لیکن اشارہ کنایہ میں پیپلزپارٹی کی طرف تھا کہ فاضل راہو نے اس علاقہ میں پیپلزپارٹی کے اثرات اور ووٹر بینک کو شدید طور پر متاثر کیا تھا ۔
اسماعیل راہو اتنی بڑی شخصیت نہیں ہے جتنا اسے پہلے مسلم لیگ نے صوبائی صدر بنا کر ظاہر کیا اور اب اس کی شمولیت کے لیے آصف زرداری نے گولارچی میں جلسہ کر کے ذوالفقار مرزاکی مخالفت کا ثبوت دیا ۔گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں ذوالفقار مرزا کے گروپ نے تمام تر حکومتی وسائل کے استعمال کے باوجود پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دیا تھا اس سے پیپلزپارٹی کی قیادت میں خوف کا ایک عنصر موجود تھا کہ عام انتخابات میں جب صوبائی وسائل دستیاب نہ ہونگے توذوالفقار مرزا کتنا بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔ پارٹی قیادت کو اس کے ازالہ کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی تھی لیکن اسماعیل راہو کی پارٹی میں شمولیت اور کمال چانگ کی جانب سے ضلع کے تقسیم کی حمایت کی یقین دہانی نے پارٹی قیادت کی مشکل آسان کر دی ہے دوسری جانب ذرائع کے مطابق ذوالفقار مرزا کے رابطے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سے جاری ہےں جہاں ذوالفقار مرزا کو بہتر صورتحال نظر آئے گی ذوالفقار مرزا نے اسی گھوڑے کی سواری کا فیصلہ کرنا ہے ۔یوں پیپلزپارٹی کو اسماعیل راہو کی شمولیت کافائدہ کتنا ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن ذوالفقارمرزاکے مسلم لیگ یا تحریک انصاف میں جانے کا نقصان بہت واضح ہے، ضلع کی تقسیم بھی اس نقصان کا ازالہ نہ کر سکے گی ۔سندھ میں سیاسی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے ،شہری علاقوں میں جہاں پاک سرزمین پارٹی ایک قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہی ہے خصوصاً سید مصطفی کمال کی یہ حکمت عملی کہ ارکان اسمبلی اور سینیٹ کو شامل کرنے کے بجائے ان افراد کو پارٹی کا حصہ بنایا جائے جو ماضی کے انتخابات میں ایم کیو ایم کی کامیابی کی کلید تھے جن کی موجودگی میں ووٹ خودبخود پتنگ کی طرف منتقل ہو جاتے تھے۔ ان افراد کی شمولیت سے پولنگ اسٹیشن سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا آسان ہوگا۔ اسی اُصول پر عمل کرتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی نے کراچی،حیدرآباد ،میرپورخاص اور ایم کیو ایم کے زیراثر دیگر علاقوں میں ایم کیو ایم کے یونٹ اور سیکٹر کے ذمہ داران کی ڈرائی کلیننگ کا عمل شروع کر رکھا ہے اس کے نتائج کیا نکلیں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس کے نتیجہ میں ایک امر تو لازمی ہے کہ کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص کی سیاسی قیادت تقسیم کا شکار ہو گی جس کا فائدہ پیپلزپارٹی کو پہنچے گا ۔
تحریک انصاف تو نادر اکمل لغاری کی پیپلزپارٹی میں شمولیت سے لگنے والے جھٹکے سے باہر نکل آئی ہے کہ نادر اکمل لغاری سے بااثر شخصیت لیاقت جتوئی نے بلا ہاتھ میں لے لیا ہے لیکن مسلم لیگ اسماعیل راہو کے داغ مفارقت کے بعد اب تک نقصان کا ازالہ نہیں کر سکی ہے مسلم لیگ نے اسماعیل راہو کی جگہ جن صاحب کو صوبائی صدارت کا منصب عطا کیا ہے وہ عوامی حلقوں میں ہی نہیں وکلاءبرادری میں بھی گمنام ہیں جب پارٹی کاصوبائی صدر ہی گمنام ہو تو پارٹی کہاں کھڑی ہو گی لیکن اصل معاملہ یوں نہیں بلکہ یہ پی پی مسلم لیگ مک مکا کا نتیجہ ہے کہ سندھ تمہارا پنجاب ہمارا اور وفاق میں باری باری ۔لیکن عوام اس مک مکا کو سمجھ چکے ہیں اور آئندہ انتخابات ان سیاستدانوں کو بتادیں گے کہ اب کھیل باری باری کا نہیں عوام کی باری کا ہے۔