سندھ میں اختیارات کی جنگ
شیئر کریں
سندھ میں اختیارات کی جنگ اپنے شباب پر ہے۔ قومی سطح پر لڑی جانے والی ”پاناما جنگ“ سے ہٹ کر صوبہ سندھ میں لڑی جانے والی اختیارات کی جنگ گرچہ صوبائی نوعیت کی ہے، لیکن اس کی بازگشت اور اثرات وفاق تک پہنچے ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کے وزراءاکثر وفاق سے شاکی رہتے ہیں۔ کبھی آئی جی سندھ کی تقرری اور کبھی صوبے میں وفاق کی مداخلت کے حوالے سے کے گرما گرم بیانات پانی میں آگ لگا دیتے ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں عدالت کی مداخلت اور حکم پر بلدیاتی انتخابات تو کرا دیے گئے تھے لیکن صوبائی حکومتیں بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ میئر کراچی وسیم اختر پہلے تو جیل میں تھے‘ لیکن رہائی کے بعد بھی صوبائی حکومت انہیں پانی‘ لوکل ٹیکس‘ ٹرانسپورٹ اور سڑکیں گلیاں بنانے کا اختیار دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اختیارات حاصل کرنے کے لیے اب سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ صوبائی حکومت اور میئر کراچی کے درمیان جاری کشمکش ابھی فیصلہ کن مرحلے میں داخل نہیں ہوئی تھی کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ کے درمیان بھی چپقلش شروع ہوگئی ہے۔ سندھ کے عوام تبدیلی کی تمنا دل میں لیے سیاستدانوں کی کایا پلٹ دیکھ رہے ہیں۔ صوبے میں گزشتہ 9سال سے تو پیپلز پارٹی کا راج ہے، جس کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری 2018ءکے انتخابات کی تیاری میں مشغول ہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے بقول میاں نواز شریف نے بھی انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ باپ اور بیٹا پنجاب کا پھیرا لگا کر واپس سندھ آگئے۔ وہاں کچھ زیادہ دال نہیں گل سکی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے سماجی‘ معاشرتی‘ اقتصادی اور سیاسی نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی لیے گورنر سندھ محمد زبیر نے صوبے کے عوام سے کہا ہے کہ وہ 2018ءکے عام انتخابات میں لاہور کو بنانے والوں کو ووٹ دیں۔ ان کا اشارہ یقینی طور پر مسلم لیگ ن کی طرف تھا جس نے انہیں وفاق کا نمائندہ بناکر گورنر سندھ تعینات کیا ہے۔ ان کی پسندیدہ ترین شخصیت وزیر اعظم نواز شریف اور عزیز ترین پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن ہے۔ وہ میاں نواز شریف کی تعریف و توصیف میں اس قدر رطب اللسان ہیں کہ پاکستانی قوم اور ریاست کو دہشت گردی ‘ بھتہ خوری اور جرائم سے پاک کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دینے والے جرنیل سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ انہیں عام ساجنرل کہہ کر ان کی حیثیت کم کرنے کی کوشش کی اور بالخصوص کراچی کے امن کا سہرا تو وزیر اعظم نواز شریف کے سر باندھ ہی دیا ،جنہیں پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے سیکورٹی رسک قرار دیا ہے۔ سب مکافاتِ عمل ہے ۔ میاں نواز شریف نے کسی دور میں بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک کہا تھا۔ ان کا کہا ہوا اب ان کے آگے آرہا ہے۔ ایک سیکورٹی رسک جنرل راحیل شریف سے کیونکر بلند و بالا ہوسکتا ہے۔ عجب سیاست ہے۔ پاکستان کے دشمن بھارت سے دو جنگوں میں اگلے محاذ پر بہادری اور بے جگری سے لڑنے والے پاک فوج کے سابق سربراہ اور صدر مملکت جرنل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مقدمہ چل رہا ہے انہیں اشتہاری قرار دیا گیا ہے اور ملک سے کھربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے والے عیش و آرام سے سیاست کررہے ہیں۔ پاکستانیوں کا بال بال قرضوں میں جکڑنے والے نیا جال بچھا رہے ہیں اور 2018ءکے انتخابات کی تیاری کررہے ہیں۔
سندھ کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت گزشتہ سال 700ارب روپے ملے تھے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے مختلف منصوبوں کے لیے 2016ءمیں 500ملین ڈالر دیے جنہیں سندھ کے 8اضلاع میں خرچ ہونا تھا۔ اسپیشل ٹاسک فورس کے مطابق آبپاشی کے 90منصوبوں کے لیے 123ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ نہروں کا پانی پینے کے قابل بنانے اور آر او پلانٹ لگانے کے لیے بالترتیب 23ارب اور 28ارب روپے مختص کیے گئے تھے لیکن ٹاسک فورس نے سپریم کورٹ کے حکم پر جب ان منصوبوں کا جائزہ لیا تو ان میں سے اکثر پر کام ہی شروع نہیں ہوا تھا۔ سندھ میں سرکاری فنڈز کی بڑے پیمانے پر خورد برد کے سبب ہی غالباً گورنر سندھ محمد زبیر کو لاہور یاد آگیا اور وہ فرطِ جذبات میں کہہ بیٹھے کہ 2018ءکے انتخابات میں ان لوگوں کو ووٹ دیا جائے جنہوں نے لاہور کو بنایا ہے۔ یہ کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ گورنر سندھ محمد زبیر کو آئینی حدود میں رہنا چاہیے اور انہیں ووٹ نہیں مانگنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ آئینی حدود سے نکل جاتے ہیں اور لوگ گورنر سندھ کے کہنے پر ووٹ نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پورے صوبہ میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کے خدشات کو نظر انداز کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے ایل این جی کے معاملے پر نئی حکمت عملی مرتب کرلی ہے اور سندھ حکومت نے وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ صوبہ میں جاری ترقیاتی منصوبے جون تک مکمل ہوجائیں گے۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے گورنر کو اپنی آئینی حدود میں رہنے کی تلقین کرتے ہوئے اپنی حکومت کا دفاع کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بد انتظامی‘ رشوت اور کرپشن کے سبب سارا نظام درہم برہم ہے۔ گورنر محمد زبیر کہتے ہیں کہ 1970ءکی دہائی میں لوگ بیرون ملک سے کراچی گھومنے آیا کرتے تھے لیکن آج اپنے ہی ملک کے لوگ یہاں آنا پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں سندھ حکومت پر یہ واضح کردیا ہے کہ جب تک کراچی کی بزنس کمیونٹی اور وفاق چاہیں گے یہاں رینجرز رہے گی جس نے کراچی میں امن قائم کیا ہے۔ سندھ میں اختیارات کی جنگ کے تین فریق گورنر‘ وزیر اعلیٰ اور میئر وسیم اختر کراچی کی بساط پر اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں۔ وسیم اختر کا تعلق ڈاکٹر فاروق ستار کی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے ہے، اسی جماعت کے پاس کراچی اور حیدرآباد کی پارلیمانی طاقت ہے۔ اس جماعت سے الگ ہونے والے آفاق احمد‘ سید مصطفیٰ کمال اور انیس احمد قائمخانی اپنی اپنی جماعتوں کی عوامی مقبولیت بڑھانے میں مصروف ہیں۔ ان سب پارٹیوں کا نصب العین 2018ءکے عام انتخابات میں مینڈیٹ کا حصول ہے‘ پاک سر زمین پارٹی کے چیئر مین سید مصطفیٰ کمال نے کراچی ایڈیٹرز کلب کے پروگرام ”میٹ دی ایڈیٹرز“ سے خطاب کے دوران یہ اعلان کیا کہ سندھ میں ان کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد وہ پہلا حکم یہ جاری کرائیں گے کہ تمام اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل کردیے گئے ہیں۔ دنیا بھر میں عوامی مسائل بلدیاتی ادارے ہی حل کرتے ہیں بشرطیکہ انہیں مکمل طور پر با اختیار بنایا جائے۔ سید مصطفیٰ کمال سابق صدر مملکت پرویز مشرف کے دور میں کراچی کے میئر رہے ہیں۔ انہوں نے کراچی‘ حیدرآباد میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے۔ 355پبلک پارک قبضہ گیروں سے آزاد کروا کے ان کی حالت بہتر بنائی۔ فلائی اوور اور انڈر پاسز تعمیر کرائے۔ ان کے تعمیراتی کاموں کی بدولت آج بھی کراچی کے شہری انہیں یاد کرتے ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردوان بھی ملک کا اقتدار سنبھالنے سے پہلے استنبول کے میئر تھے۔ انہوں نے بھی ریکارڈ تعمیراتی کام کرائے اور کئی بار میئر منتخب ہوئے۔ پی ایس پی کے چیئرمین کو جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پاشا کے نام کی نسبت بھی حاصل ہے۔ کیا خبر کہ کرپٹ‘ بدعنوان‘ ظالم اور بے حس حکمرانوں سے تنگ قوم اپنا نیا لیڈر مصطفیٰ کمال کو ہی منتخب کرکے نئی تاریخ رقم کردے اور اختیارات کی جنگ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے۔