اگرجبیں شکن آلود نہ ہوتو
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیکشن کمیشن نے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے جاری شیڈول پریکطرفہ طورپرنظرثانی کرتے ہوئے دونوں صوبوں میں آٹھ اکتوبر کو انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ اِس اعلان کاجواز مطلوبہ اخراجات کے لیے رقم کانہ ہونااور ملک میں امن و امان کا مسئلہ بتایا۔ انتخابی شیڈول میں ترمیم سے قبل سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنے اور انھیں اعتماد میں نہ لینے پرانتخابی شیڈول پر نظرثانی کے فیصلے کو ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے یکطرفہ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔اگر اعتماد میں لے لیا جاتا تو صورتحال مختلف ہوتی خیر چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے تین اپریل کو سماعت مکمل کی اورپھرچاراپریل کوفیصلہ سنادیا، جسے آئینی وقانونی ماہرین کی اکثریت عین انصاف قرار دیتی ہے لیکن حکومتی حلقے معترض ہیں جس پر لوگ حیران اور خفا ہیں۔ پارلیمنٹ ،کابینہ ،وزیراعظم ہائوس اِس وقت عملی طورپر سپریم کورٹ کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں ۔حالانکہ حکومت نے ابتدامیں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے کی بڑھک لگائی لیکن بعد میں ایسا نہ کر سکی اور عدالتی کارروائی کا حصہ بن گئی۔ وفاقی حکومت کبھی قومی اسمبلی اور کبھی پارلیمنٹ کا سہارالیتی ہے مگر بات نہیں بن رہی ۔ قومی اسمبلی نے تین رُکنی بینچ کا فیصلہ تسلیم نہ کرنے کی قرارداد منظور کرتے ہوئے حکومت کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے اور فل کورٹ بنانے کی قرارداد منظور کرلی ہے جس سے آئینی بحران مزید بڑھنے کا خدشہ ہے اورسیاست بچانے کے لیے عدالتی فیصلے کی بے توقیری کے مترادف ہے۔ جہاں تک سیاسی معاملات میں مداخلت کی بات ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ گزشتہ برس اپریل میں اسی سپریم کورٹ نے عدمِ اعتماد کی کارروائی مکمل کرائی جس پر موجودہ حکمران اتحادنے شادیانے بجائے اور اقتدار حاصل کیا اب موجودہ عدالتی فیصلے کو سیاسی معاملات میں مداخلت کہنا نا قابلِ فہم ہے ۔
عدالتی فیصلہ سنائے جانے کے بعد پبلک پراپرٹی ہوجاتا ہے اس لیے تبصرہ یا تجزیہ کیاجاسکتاہے مگراِس میں کوئی ابہام نہیں کہ کوئی تسلیم کرے یا انکاری ہوقابلِ نفاذ وہی حکم ہوتا ہے جو عدالت نے سنایا ہولیکن حکمران اتحاد اِس فیصلے کو جس طرح آئین و قانون کے ساتھ سنگین مزاق کہہ رہا ہے یہ روش درست نہیں۔ اگرصاحبانِ اقتدار کی جبیں شکن آلود نہ ہو تو ماضی کے کچھ واقعات دُہرانے کی جسارت کرناچاہتا ہوں۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں ہم نہیں مانتے ملک میں انصاف کا کوئی اِدارہ ہے جبکہ اُن کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی عدالتوں کے بارے کنگروکورٹس جیسے الفاظ استعمال کر چکی ہیں۔شاید آصف زرداری نے اپنے ہونہار فرزند بلاول بھٹو کونہیں بتایا کہ وہ خود بھی ماضی میں عدالتی اکھاڑ پچھاڑ کاحصہ رہ چکے ہیں۔ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو اسی بناپر خوش تھیں کہ وہ پی پی کے خلاف ہونے والے فیصلوں سے اختلاف کرتے رہے۔ چند فیصلوں سے اختلاف کرنے کی بناپرہی محترمہ کے سجاد علی شاہ پسندیدہ جج بنے اگر جبیں شکن آلود نہ ہوتوبتاناچاہوں گاکہ سب سے پہلے جب سپریم کورٹ نے بے نظیر حکومت ختم کرنے کے صدارتی فیصلے کو درست قرار دیا تو سجادعلی شاہ نے اتفاق نہ کیا اوراپناا ختلافی نوٹ لکھا ۔ایک اور موقع پر جب سپریم کورٹ نے میاںنوازشریف حکومت کی برخواستگی کو غلط قرار دیتے ہوئے بحال کرنے کا حکم دیا تو بھی سجاد علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ 58(2)B سے دو سندھی وزرائے اعظم قربان ہوئے لیکن ایک پنجابی وزیراعظم کے کیس میں صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی۔ اسی طرح مسلم لیگ ن سرحدکے صابر شاہ کے مقدمے میں صدر کی جانب سے وزیرِ اعلیٰ اور کابینہ کو تحلیل کرنے کا حکم سپریم کورٹ نے غلط قرار دیاتو یہاں بھی سجاد علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریرکیا کہ یہ اپیل تو سماعت کے قابل ہی نہیں ۔بلاول بھٹو کے والدین محترمہ بے نظیربھٹو اور آصف زرداری کو ایسے ہی اختلافی نوٹ سجاد علی شاہ کی طرف متوجہ کرنے کا باعث بنے اور وہ چوتھے نمبرپرہونے کے باوجودچیف جسٹس جیسے اہم عہدے کے قابل لگے۔ تین سینئر ججز اول جسٹس سعد سعود جان،دوم جسٹس عبدالقدیرچوہدری اور سوم جسٹس اجمل میاں پر انھیں اسی وجہ سے ترجیح دی گئی۔ آج جب بلاول کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانتے ملک میں کوئی انصاف کا ادارہ ہے تو ایسی بات کرنے سے قبل اگر اپنے والد بزرگوار سے کچھ معلومات ہی لے لیتے تو انھیں ایسی باتیں کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ ماضی میں سینئر ججز پر جونیئر کو ترجیح دینے کی روایت سیاستدانوں نے ہی شروع کی اب سپریم کورٹ میں ایسا سلسلہ ختم ہو چکاجس کے بعد تنقید کے نشتر چلانے کا جواز نہیں رہتا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کافیصلہ ناقابلِ عمل کہہ کرنہ صرف مسترد کردیا بلکہ وزیرِ اعظم نے عدل وانصاف کا قتل کہتے ہوئے تاریخ کا جبر قراردیا ہے۔ انھوں نے فیصلے کو چاراپریل کو بھٹو کے عدالتی قتل سے بھی ملایااورمطالبہ کیا کہ فل کورٹ بھٹو ریفرنس کا فیصلہ کرے ۔ مزید قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ فیصلے کے خلاف دو قرارداد پاس کرائی جاچکیں مگراُنھیں شاید یہ معلوم نہیں کہ قراردادوں سے عدالتی فیصلے تبدیل نہیں ہوتے بلکہ نظرثانی یا اپیل کا طریقہ کاراپنانا پڑتاہے جس سے حکومت گریزاں ہے۔ وزیراعظم کو آج بھٹو سے محبت محسوس ہونے لگی ہے مگر چند برس قبل وہ عدالتی فیصلے کی تحسین اور بھٹو سے نفرت کاکھلم کھلا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اب عدالتی فیصلوں پرتنقید اور آئین و قانون سے کھلواڑ جیسے الفاظ استعمال کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ اچانک بھٹو خاندان سے محبت کاجو سمندر دل میں ٹھاٹھیں مارنے لگا ہے ۔اِس کی وجہ اقتدارہے ۔کیا یہ غلط ہے کہ وہ چیف جسٹس جنھیں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زردار ی تین ججز کو سپر سیڈ کرکے لائے تھے کو ہٹانے کے لیے نہ صرف رفیق تارڑ جیسے معتمد خاص کے ذریعے بلوچستان ہائیکورٹ کو استعمال کیاگیابلکہ سپریم کورٹ پر حملہ بھی کرایا اگر صاحبانِ اقتدار کی جبیں شکن آلود نہ ہوں تو بس اتنا دریافت کرنا ہے کہ کیا آپ صرف حق میں آنے والے فیصلوں کو ہی مبنی برانصاف تصور کرتے ہیں اگر ایسا ہی ہے تو یہ رویہ اور سوچ درست نہیں کیونکہ عدالتوں سے اپنے حق میں فیصلے لینے کے لیے دبائو یا بلیک میلنگ جیسے حربے بے انصافی کاموجب بنتے ہیں ۔
حکمران جماعت کے قائد نواز شریف نے فیصلے کے خلاف قوم سے کھڑے ہونے کی اپیل کرتے ہوئے عدالتی حکم نامہ عمران کو لانے کے لیے جتن قراردیاہے، انھوں نے حکومت کو تین ججز کے خلاف ریفرنس لانے کی تجویزبھی دی مگر تجویز دیتے ہوئے وہ جانے کیوں نظر انداز کر گئے کہ ججز کے خلاف ریفرنسز کے نتائج کبھی تو قع کے مطابق سامنے نہیں آئے ۔پرویز مشرف اور پی ٹی آئی کی طرف سے دائر ہونے والے ریفرنسز کا حال سمجھنے کے لیے نہایت عمدہ مثال ہے اگر موجودہ حکومت بھی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا چاہتی ہے تو ریفرنس دائر کرکے دیکھ لے کامیابی کا کوئی امکان نہیں اور یہ جو عمران خان کو لانے کاجتن کہا جارہا ہے کیا یہ یادنہیںکہ چیف جسٹس کی بیٹی دراصل مسلم
لیگ ن کی ایم این اے محترمہ شائستہ پرویز ملک کی بہو ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عدالتیں پسند ناپسند، تعلق یا رشتہ داریاں مدِ نظر رکھ کر فیصلے نہیں کرتیں بلکہ آئین و قانون کو پیشِ نظر رکھتی ہیں اگر قائد کی جبیں شکن آلود نہ ہوتو بس اتنا یاد دلانا ہے کہ ماضی میں وہ افتخار چوہدری کی بحالی ہو یا یوسف رضا گیلانی کو نااہل کرانے کی جدوجہد ،اُنھی کے کلیدی کردار کی بدولت ممکن ہوامگر اب حالات بدل چکے ہیں اِس لیے جتنا شور مچایا جائے گا یا تنقید کی جائے گی اس سے کوئی سیاسی فائدہ ملنا تومحال ہے البتہ جاری بحران بڑھ سکتاہے جوملک کے لیے سودمند نہیں ہوگا۔
٭٭٭