میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تین حاکم، کئی کہانیاں (آخری قسط)

تین حاکم، کئی کہانیاں (آخری قسط)

منتظم
هفته, ۸ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

اقبال دیوان
ڈاکٹر ظفر الطاف کا خیال تھا کہ نواز شریف کہ ساتھ جم خانہ میں ساتھ کھیلی ہوئی کرکٹ اور اَسی۔تُسی گرڈ پر کام کرنا نسبتاً آسان ہوگا۔ان کے مزاج میں پنجابی صوبائیت کے عنصر کے ہمیشہ سے بہت چرچے تھے۔
انہیں جلد ہی اس غلطی کا احساس ہوگیا۔ڈاکٹر صاحب سمیت دیگر بیوروکریسی نے بھانپ لیا کہ ان کا اسٹائل ایک سیٹھ والا ہے۔وہ فائدہ پہنچانے والے گاہک کے علاوہ کسی اور کی بات کو قابل توجہ نہیں سمجھتے۔ان کی نفسیات کے ایک غالب حصے پر اس سوچ نے پہرہ جما رکھا تھا کہ ذوالفقار بھٹو نے 1973میںان کی ملوں کو قومیا کر ان سے ذاتی دشمنی نکالی ہے۔اس خفیہ نفرت اور جذبہءانتقام کا عقدہ کسی مہرباں نے جنرل جیلانی کے سامنے جاکر جب کھولا تو گویا انہیں پنجاب کے لیے ایک جہاں، ایک آسماں مل گیا ۔ وہ 1971 سے آئندہ چھ سال تک ڈی۔ جی۔ آئی ایس آئی تھے۔یہ بھٹو صاحب کی بدقسمتی تھی کہ ان کا یہ معتمد خاص ہی جنرل ضیا الحق کی حکومت کا تختہ الٹنے میں معاون خصوصی تھا۔ 1980 میں وہ گورنر پنجاب اور مارشل ایڈمنسٹریٹر لگے اور انہوں نے پنجاب سے پی پی پی کی بیخ کنی کے لیے ایک ایسے شریف خانوادے کا انتخاب کیا جس کی بھٹو خاندان سے دشمنی صادق ہو، معافی اور درگزر کا جس میں معمولی سا بھی شائبہ نہ ہو اور اس نفرت کا پہلے سے کوئی بہت چرچا نہ ہو۔وہ سیاسی نفرت کا ایک مول ہوں جو زمین کے اندر ہی اندر سرنگ کھود کر مناسب وقت پر شکار پر جھپٹنے کے لیے باہر نکل آتا ہے۔
یوں نواز شریف کوچہءسیاست کے خار زار میں قدم رنجہ ہوئے۔نواز شریف صاحب کی جواں عمری سے ہی یہ شہرت تھی کہ موقع ملتے ہی دشمنوں کی بے رحمی سے گردن توڑ دیتے ہیں اورمطلب پورا ہوجانے پر معاونین سے آنکھیں موڑ لیتے ہیں۔ مزاج میں لچک ٹینس والی سیرینا ولیمز کی طرح ایسی ہے کہ وقت آنے پر قدموں میں گر پڑتے ہیں تو اہل تجارت کی مصلحت پسندی اور انا کی فنا کا سہارا لے۔جانتے ہیں کہ جھکنے والے ہی رفعت کو گلے لگاتے ہیں۔ یہ فن انہوں نے بھٹو اور ضیا الحق سے سیکھا تھا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی کرسی پر وہ فرشتوں کی مدد سے براجمان ہوئے۔انتخاب میں ووٹوں کے بھرے ڈبے دیکھ کر ان کے دل میں یہ غلط فہمی گھر کرگئی کہ یہ عوام کا دیا ہوا پاپولر ووٹ ہے جوحقیقی مینڈیٹ کی صورت میں انہیں ملا ہے۔ نہ فرشتوں نے بعد کے ہونے والے انتخابات میں ان کے لیے مطلوبہ نتائج پیدا کرنے سے ہاتھ کھینچا اور نہ ہی پاپولر عوامی مینڈیٹ کا فریبِ عظیم ان کے بیانیے سے آج تک جدا ہوپایا۔طاقت کے اس بے جا احساس نے انہیں پے درپے فوجی قائدین سے تصادم کی شاہراہ پر کھڑا کردیا اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک کمانڈو نے ان کے قافلے کا رخ اس ریتیلی پگڈنڈی پر موڑ دیا جو بحیرہ احمر کی اس بستی کی طرف جاتی تھی جسے سعودی پیار سے بڑی بی یعنی جدہ کہتے ہیں۔
کمانڈو کا بطور چیف آف آرمی انتخاب بھی ان کا اپنا تھا ۔انہیں باور کرایا گیا تھاکہ دہلی کا طاؤس و رباب جنرل گروپ کا مہاجر ہے۔ مارشل ریس نہیں ۔پپو سائیں کا نقارہ نما ڈھول سن کر ڈر جاتا ہے۔عددی لحاظ سے فوج میں اپنا کوئی حلقہءمعاونت نہیں رکھتا۔ اپنے کور کمانڈر زکی horizontal hierarchy میں سندھ میں مفرور مغل بادشاہ ہمایوں کی طرح اس کا اپنا کوئی فائر پاؤر نہ ہوگا۔ نیا چیف جنرل بیگ کی طرح بادشاہ بننے کا بھلے سے لاکھ تمنائی ہونے کے باوجود حوصلہ مندی میں پست، ارادوں میں کمرزور ہوگا۔ہوس اقتدار محض ایک Still Born ہوگی جنہیں وہ ساری عمر حسرتوں کا دودھ پلاتا رہے گا۔ایک دفعہ لگ گیا تو آپ کے اشاروں پر پگ گھنگھرو باندھ میرا کی طرح ناچے گا۔
اس معاملے میں ہم سویلین ایک فاش غلطی کرتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ فوج ایک منظم اور بہت طاقت ور ادارہ ہے جو ایک مربوط چین آف کمانڈ کے تحت کام کرتا ہے۔
وہاں حکم دیے جانے کے بعد ”کیوں ؟“کی گنجائش نہیں ہوتی۔ جہاں بلاوا شہادت کا ہو وہاں سوال کیسا۔
نواز شریف صاحب جب پنجاب کے وزیر اعلی تھے تو ڈاکٹر صاحب سیکرٹری زراعت تھے۔بے نظیر صاحبہ وزیر اعظم کے طور پر مرکز میں براجماں تھیں ۔ان دنوں انور زاہد صاحب چیف سیکرٹری ہوتے تھے اور ایک سے ایک قابل افسر پنجاب میں موجود تھا۔ مرکز کی مخالفتوں کے باوجود پنجاب میں ترقی کا ایک باب کھل چکا تھا ۔بے نظیر حکومت کے خاتمے پر ایک دفعہ پھر حسب روایت فرشتوں کی امداد سے وہ آئی جے آئی والے اتحاد کے کاندھے پر بیٹھ کر وزیر اعظم بنے اور تین سال تک لطف اٹھایا۔تب تک وہ نرم مزاج اور رواداریوں کے علمبردار تھے لیکن دوسری دفعہ وزیر اعظم بننے پر ڈاکٹر صاحب نے ان میں محسوس کیا کہ انہیںایک درشتی، مطلق العنانی اور ایک احساس تفاخر نے گھیر لیا ہے۔وہ اب قابلیت سے زیادہ افسران میں سگانِ وفا کی علتِ وابستگی ڈھونڈتے ہیں۔ان کا چھوٹا بھائی پنجاب کا وزیر اعلیٰ بن چکا تھا ۔یہ ایک بہت بڑا حلقہءاقتدار تھا۔طاقت کے اسی زعم میں مبتلا ہوکر انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین اور ان سرکاری ملازموں کو سبق سکھانے کی ٹھانی جن سے انہیں کوئی گلہ تھا۔
اس بھیانک مقصد کی تکمیل کے لیے احتساب بیورو میں ان کا ایک غلام خاص ڈھونڈ کر لایا گیا۔یہ صاحب اور ایسے دوسرے خوش آمدی ٹولے نے مملکت کے امور کو گھسیٹ کر ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا کہ شام سویرے فوجاں ہی فوجاں دکھائی دینے لگیں۔
جنرل پرویز مشرف حاکم وقت بن گئے۔فوج میں وہ افسران کا انتخاب بارہ سال کی تعلیم کا تمغہ سجائے نوجوان افراد میں سے کرتے ہیں۔تربیت کے مزید مراحل وہ اپنے اعلیٰ پائے کے اداروں میں طے کرتے ہیں۔یہیں ان کے نقطہءنظر اور رویوں کی نشوونما ہوتی ہے۔زندگی کو ایک سیدھے سادھے انداز میں دیکھنے اور پرکھنے کا انداز یہیں سے ان کی نگاہ ثانی بن جاتی ہے۔یہ رویے اور اقدار ان کے لیے جانچ کا پیمانہ بن جاتے ہیں۔ وہ جو ہمارے ساتھ نہیں ہمارا دشمن ہے۔ہمارا کمانڈر سچ کی آخری علامت ہے، سو اس سے جڑے رہنا ہی حق کی فتح ہے۔نکتہ¿ نظر کی یہ یکسوئی انہیں ان دوستیوں کو پریمیم دینے پر اکساتی ہیں جو انہی کہ قبیلہءعسکری سے منسلک ہوں۔
جنرل مشرف نے ابتدا میں واشنگٹن کے کچھ چھوکرے سویلین معاملات سے نمٹنے کے لیے رکھ لیے،نائن الیون نے دنیا ہی بدل دی۔سیاسی امور سے نمٹنے کا فریضہ جنرل مشرف صاحب نے انکم ٹیکس کے ایسے سابق افسر کو اپنا پرنسپل سیکرٹری مقرر سونپ دیا جنہوں نے اپنے فرائض کی سرکاری انجام دہی میں شاید کسی بلدیاتی کونسلر کا بھی سامنا نہ کیا تھا۔
جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کی حکومتیں اس لیے بڑی بھاگوان تھیںکہ صحرائے سینائی میں سیدنا موسیؑ کے ساتھ بھٹکنے والے یہودی قبائل کی مانند ان پر امریکا کی مہربانیوں کا بادل ہمہ وقت سایہ فگن رہتا تھا اور امداد کا من و سلویٰ کانگریس کی منظوری سے نازل ہوتا تھا۔
تینوں حاکمین کے طرز حکمرانی میں ایک قدر مشترک تھی ۔ وہ اپنے سے منسلک اور کارِسرکار سے وابستہ افراد میں وہ سگ خانہ کی وفا داری کی خصلت کو وصف عظیم سمجھتے تھے۔وابستگی کی یہ ترجیح جنرل مشرف کے ہاں زیادہ شدید تھی۔ان کے عسکری ساتھی سویلین افراد سے بحث و مباحثے کے عادی نہ تھے۔جب جنرل مشرف کرسی شرف پر متمکن ہوتے تو اجلاس میں کیبنٹ ڈویژن کے سیکرٹری صرف وہی آئٹم لے کر آتے جو محض رسمی منظوری کے منتظر ہوتے اور جن میں فکری تصادم اور تخیلاتی اختلاف کا کوئی امکان نہ ہوتا۔کابینہ کے اجلاس سے پہلے کچن کیبنٹ کا زیرو گروپ ایجنڈا آئٹمز کی پٹاری کھول دیتا۔بعد میں کابینہ کا جو اجلاس ہوتا اس کی میعاد اس سے کم ہوتی جو زیرو گروپ کے اجلاس کی ہوتی تھی۔
جنرل مشرف کے دور میں Drawing-Board-Boys کی پاور پوائنٹ Presentations کا رواج بہت بڑھ گیا۔فوج کا بہت سارا عمل تکنیکی اور جغرافیائی ہوتا ہے ۔ جس میں Image اور Animation کی بہت اہمیت ہے جبکہ سرکار کے فیصلوں میں قانون سازی میں لفظ اور مطالعے کی بہت اہمیت ہے۔یہ جنرل ضیا الحق سے ذرا مختلف انداز تھا جو ہر بات سمری کی صورت میں سمجھنا چاہتے تھے۔وہ سمری جو ان سے پوچھ کر بنائی گئی ہو۔جس کی تجاویز ان کی رائے زنی سے زیادہ فیصلے کی طلب گار ہوں۔اس سے پہلے سرکار کے ہاں سمری اور Presentations کا کوئی رواج نہ تھا۔اس نے بیوروکریسی سے مطالعے کا شوق چھین لیا ورنہ اس کے مرتب کردہ گیزیٹ تو آنے والوں کے لیے مشعل راہ ہوتے تھے۔
ضیا دور میں افسران کو فرشتوں کے تمام باجی ادارے مانیٹر کیا کرتے تھے۔ ان کے سپاہی اللہ دتا قسم کے ہرکارے ہر وقت چپڑاسیوں کلرکوں ڈرایوروں اور گھر سے نکالے ہوئے ملازمین سے رابطے میں رہتے ۔اس ٹوہ کا نتیجہ یہ نکلتا کہ جس کی رائے سرکار کے مزاج سے جداگانہ اور معمولی حد تک بھی گستاخانہ ہوتی اس کے بارے میں بتایا جاتا کہ پی پی سے تعلق دار ہے ،شراب و شباب کا رسیا ہے۔
ان تینوں حاکموںمیں سچ پوچھیے تو صرف بے نظیر صاحبہ کارل جنگ نامی نفسیاتی فلسفی کے نظریے friction of opposites [Enantio Dromia] ”تصادم ،تضاد“ کی روشنی میں مکالمے اور بحث کی اہمیت سے آگاہ تھیں۔وہ ان باقی دو حکمرانوں سے ذہنی سطح پر بہت بلند تھیں۔
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں