جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے، مریم نواز
شیئر کریں
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید نے 2 سال مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے اور 4 سال عمران حکومت کی حمایت کے ذریعے ملک تباہ کرنے میں کردار ادا کیا ہے، ان کا کورٹ مارشل کیا جانا چاہیے، ہائبرڈ نظام لانے والوں کو سب سے بڑی سزا ووٹ کو عزت دو کی شکل میں عوامی آگاہی مہم سے ملی ہے، عمران خان کی ریٹائرڈ آرمی چیف پر تنقید بزدلی کی نشانی ہے، ہم آج بھی حاضر سروس کا کھلے عام نام لیتے ہیں، ثاقب نثار اب بھی متحرک ہیں، ججز کی آڈیو لیک سے سچائی پر مہر ثبت ہوگئی ہے، ججز کا محاسبہ کیسے ہوگا؟ جب جنرل باجوہ آرمی چیف بنے تو وزیراعظم ہاؤس میں ان کی فیملی کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی ۔ ایک انٹرویومیں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا کہ غیر آئینی کردار ادا کرنے پر سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو نشانِ عبرت بنانا چاہیے تاکہ آئندہ پھر کسی کو اس قسم کی جرآت نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ جب جنرل فیض حمید حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو وہ ان کے خلاف عدالت گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے درخواست جمع کرائی تھی اور ثبوت پیش کیے تھے جس میں سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ جنرل فیض اس وقت کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی صاحب کے گھر گئے تھے اور ان کو کہا تھا کہ نواز شریف اور مریم کو آپ نے سزا دینی ہے اور ضمانت نہیں دینی اور آپ کو یاد ہوگا کہ انہوں نے آن کیمرہ بیان دیا اور کہا کہ آپ کو کیسے پتا کہ سزا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری 2 سال کی محنت ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ دو2 سال جو وہ (جنرل فیض) محنت کرتے رہے اور اس کے بعد جو عمران کو لانے کے بعد 4 سال اس ملک کو تباہ و برباد کرنے کی محنت کی ہے اس پر نہ صرف ان کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے بلکہ ان کو نشانِ عبرت بھی بنانا چاہیے تاکہ آئندہ پھر کسی کو اس قسم کی جرات نہ ہو۔ مریم نواز نے کہا کہ ہائبرڈ نظام’ لانے والوں کو سب سے بڑی سزا ‘ووٹ کو عزت دو’ کی شکل میں عوامی آگاہی مہم سے ملی ہے۔ مریم نواز نے اکتوبر 2020 میں گوجرانوالہ جلسے سے نواز شریف کے خطاب کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس لمحے کو فخر سے دیکھتی ہیں جب نواز شریف نے نام لے کر ایک پیج کو للکارا تھا اور پورا اسٹیڈیم ایک کونے سے دوسرے کونے تک عوام کے نعروں سے گونج اٹھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس دن سے جو آگاہی عوام میں بیدار ہوئی اور جو عمران کی حکومت ختم ہوئی اس میں نواز شریف کی بہادری اور اس جرات کا بہت اہم کردار تھا جو حاضر سروس لوگوں کے خلاف کی تھی۔ مریم نواز نے کہا کہ آج بھی ہم کھلے عام نام لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اب بھی حاضر سروس لوگوں کے نام لیے ہیں اور میں نے ان کی تصاویر بھی لوگوں کو دکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ میں نے یہ کام تب نہیں کیا جب کوئی جانے والا کمزور ہو جاتا ہے، ایسا تو کوئی بزدل شخص ہی کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو مسائل پاکستان کی سیاست یا پاکستان کے نظام کو لاحق ہیں ان کی نشاندہی مسلم لیگ نے تب کی جب ایسے عناصر پوری طاقت اور اختیار میں تھے۔ مریم نواز نے کہا کہ ٹرک کی جو کہانی آڈیو لیک میں آئی ہے وہ صرف ٹرک کی کہانی نہیں بلکہ اس کا ایک پس منظر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب پرویز الہٰی صاحب کی آڈیو منظرِ عام پر آئی جس میں وہ جج کا نام لے کر کہہ رہے ہیں کہ اس کے سامنے ہمارا کیس لگوا دو اور ان کو یہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کے گھر آنا چاہتا ہوں تو اس سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ وہ مراسم بہت پرانے بھی ہیں اور بہت مضبوط بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بات صرف ٹرک، ملاقات یا بینچ فکسنگ کی نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ اس معاملے نے صرف اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہوئے مہر لگائی ہے جو بہت دیر سے عوام کے سامنے ہے۔ مسلم لیگ (ن) یہ کہتی ہے کہ جب بھی مسلم لیگ کی کوئی درخواست دائر ہوتی ہے یا پارٹی کا کوئی مقدمہ آتا ہے تو اس میں وہی بینچز بنتے ہیں اور یہ بات اب زبان زدِ عام ہوچکی ہے کہ جب بینچ بنتا ہے تو بینچ بنتے ساتھ ہی لوگوں کو پتا ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا آئے گا تو اس واقعے سے اس سازش کا بھانڈہ پھوٹا ہے جس کے بارے میں کچھ لوگ تو جانتے تھے تاہم جو لوگ ناواقف تھے ان کے سامنے بھی سب کچھ واضح ہوچکا ہے کہ انصاف کے دو معیار ہیں۔ ایک مسلم لیگ (ن) کے لیے اور ایک دوسری جماعت کے لیے۔عدلیہ کے محاسبے سے متعلق انہوںنے کہاکہ عوامی محاسبہ اس لیے ضروری ہے کہ جب تک عوام میں آگاہی نہیں تھی تو کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی۔ انصاف کے جو دو معیار ہیں اس کی نشاندہی کرنا ہمارا کام ہے۔ اس ملک کی قسمت سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کے ہاتھ میں ہیں۔ لوگوں کو سب پتا ہونا چاہیے کہ اس ملک میں کیا ہورہا ہے۔ جب عوامی سطح پر کوئی بات آجاتی ہے تو پھر اس سے آپ بھاگ نہیں سکتے،پھر اداروں پر بھی اس چیز کا دبائو پڑتا ہے اور پڑنا بھی چاہیے کہ جو اداروں کو بدنام کرنے والی کالی بھیڑیں ہیں ان کا احتساب کیا جائے،کوئی بھی سزا اور جزا سے اوپر نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کو قیمت ادا کرنا ہوگی۔اس سوال پر کہ ثاقب نثار، جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید سے کبھی ملاقات ہوئی تو مریم نواز نے کہا کہ ان کی ثاقب نثار سے تو شاید کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تاہم جنرل باجوہ صاحب سے ایک ملاقات ضرور ہوئی تھی جب وہ چیف بنے تھے،پہلی مرتبہ چیف بننے کے بعد جب وہ وزیرِاعظم ہائوس تشریف لائے تھے تو میری ان سے ملاقات ہوئی تھی اور اس وقت ان کی فیملی بھی ساتھ تھی۔مریم نواز نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو قوم کا سب سے بڑا مجرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اب بھی متحرک ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں ان (ثاقب نثار) کا بیان دیکھ رہی تھی اور جس طرح کی اب وہ باتیں کررہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ آج بھی متحرک ہیں اور وہ اس وقت جتنا بھی جھوٹ بول لیں، قوم ان کے بارے میں سب کچھ اچھی طرح جانتی ہے تاہم میں یہ سمجھتی ہوں کہ ثاقب نثار صاحب اس قوم کے سب سے بڑے مجرم ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھے تھے مگر ایک کرنل اور ایک بریگیڈیئر ان کو ہدایات دیا کرتے تھے۔ جنرل فیض ان کو ہدایات دیتا تھا اور انہوں نے اس سے ملاقات سے انکار نہیں کیا۔ مریم نواز نے کہا کہ ثاقب نثار نے قوم پر جو ظلم کیا اور جو کچھ انہوں نے ایک منتخب وزیرِاعظم نواز شریف کے ساتھ کیا اس سے بڑا ظلم یہ تھا کہ انہوں نے ایک نااہل، نالائق اور ہر طرح سے بدکردار شخص کو لاکر قوم پر مسلط کردیا۔ پھر صرف مسلط نہیں کیا بلکہ اس کو صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ بھی دیدیا۔ انہوں نے کہا کہ ثاقب نثار اب عوامی اجتماع میں جانے کے قابل نہیں ہیں،وہ شادیوں پر جب جاتے ہیں تو چھپتے پھرتے ہیں اور شاید یہی ان کیلئے سب سے بڑی سزا ہے تاہم میں یہ سمجھتی ہوں کہ ایسے کرداروں کو عبرت کا نشان بنائے بغیر یہ قوم ترقی نہیں کرسکتی اور نہ اس ملک کی سمت درست ہوسکتی ہے۔