قیادت کا فقدان ایم کیو ایم کی شکست کا باعث
شیئر کریں
محمد اکرم خالد
سینیٹ الیکشن نہ ہوتا دیکھنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی گذشتہ ۳ مارچ کو ملک بھر کی چاروں صو بائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں سینیٹ الیکشن ہوئے جس میں مسلم لیگ ن کے آزاد حیثیت سے لڑنے والے ارکین نے کامیابی حاصل کر کے پہلی اور پیپلز پارٹی نے دوسری پوزیشن حاصل کی جبکہ تحریک انصاف کو تیسری پوزیشن حاصل ہوئی ہے۔ سینیٹ الیکشن کا سب سے بڑا اپ سیٹ سندھ میں ہوا جہاں ایم کیو ایم کا 35 سالہ منظم ووٹ بینک با آسانی لوٹ گیا جس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ خود ایم کیوایم کے اپنے ہی محافظ تھے متحدہ جو گذشتہ کئی عرصے سے سینیٹ میں اپنی نشستوں کی وجہ سے ایوان میں اہمیت رکھتی آئی ہے آج وہ اہمیت اختتام پذیر ہوگئی ہے۔ پانچ میں سے ایک نشست حاصل کی گئی جو متحدہ اور اس سے منسلک کراچی کے عوام کا بہت بڑا نقصان ہے قیادت کی دوڑ نے متحدہ کو کئی دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
یہ تقسیم ایک دن طے تھی بہت سے لوگ اس تقسیم کو کراچی آپریشن سے جوڑتے ہیں جب کہ ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہے ایم کیو ایم وہ واحدجماعت ہے جس کے خلاف تین بار فوجی آپریشن کیا گیا مگر اس جماعت کا ووٹر اس سے منسلک رہا جس کی وجہ ڈر خوف ہوسکتا ہے مگر کراچی کی ایک بڑی تعداد کا ایم کیو ایم سے رومانس قائم رہا ہے جو آج بھی اپنی جگہ قائم ہے بلکہ موجود حالات میں جس سے طرح سے ایم کیو ایم کو تقسیم کیا جارہا ہے ایم کیو ایم سے منسلک نظریاتی لوگ آج بھی بانی متحدہ کی کمی کو پہلے سے زیادہ محسوس کر رہے ہیں کیوں کہ اگر بانی ایم کیو ایم پاکستان کے خلاف نا زیبا زبان کاا ستعمال نہ کرتے تو یقین ان کو پاکستان کی سیاست میں واپسی کا موقع فراہم کیا جاتا مگر پاکستان کے خلاف نا زیبا زبان نے ان کے سیاسی سفر کا خاتمہ کر دیا جس سے بڑی تعداد میں کراچی میں بسنے والے اُردو بولنے والوں کو اس وقت مشکلات کا سامنا ہے بد قسمتی سے ہماری سیاست ہو یا مذہبی وابستگی ہو ان دونوں کا تعلق زبان قومیت اور فر قوں سے جوڑا ہوا ہے سندھی بلوچی پنجابی پٹھان ہر کوئی قومیت کی بنیاد پر جماعتوں سے منسلک ہے ایسی طرح کراچی میں اکثریت کی بنیاد پراُردو بولنے والوں کی واحد جماعت ایم کیوایم ہے جو آج قیادت سے محروم ہے اس جماعت کی بنیاد پر سیاسی کیرئیر بنانے والے آج اپنی اپنی ڈیرھ اینٹ کی مسجد بنا کر مہاجروں کو مزید تقسیم کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
مصطفی کمال جو مہاجروں کے درد کا بڑا دعوی کرتے انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کراچی کے عوام کو منظم نہ کرنے کی سازش کر رہے ہیں سینیٹ الیکشن میں ایم کیو ایم کو چھوڑ کر ان کو جوائن کرنے والے آٹھ MPA نے فنگشنل لیگ کو سپورٹ کر کہ یہ ثابت کر دیا کہ کمال صاحب بھی بانی متحدہ کی طرح مہاجروں کے نمائندوں کی خریدوں فروخت کا حصہ ہیں ان کو صرف کراچی کا اقتدار حاصل کرنا ہے، اگر ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو کراچی کی عوام کی خاطر منظم رکھا جاتا اور یہ آٹھ MPA تمام تر اختلافات سے ہٹ کر مہاجروں کے نمائندوں کو سپورٹ کرتے یاپھرووٹ ڈالنے سے گریزکرتے تو شاید ایم کیوایم دو سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوجاتی مگر ذاتی انا کی خاطر ایسا نہیں کیا گیا جس کا نقصان کراچی کے عوام ا ور ان کے مسائل کو ہو گا اس وقت ضروری ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے سینیٹ کی شکست سے سبق سیکھیں اور آپسی اختلافات کا کراچی کی عوام اور ان کی بہتری اور خوشحالی کے لیے اقتدار کی جنگ کا خاتمہ کریں۔
کراچی شہر جو گذشتہ دس سال سے مسائل کا شکار ہے پیپلز پارٹی جس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ترقیاتی کاموں کے نام پر پورے شہر کو کھود دیا گیا ہے ایم کیو ایم جو کراچی آپریشن کے خوف سے جائز مسائل کے حل پر بھی آواز اُٹھانے سے ڈر کا شکار ہے سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کامیابی نے ایم کیو ایم کے دھڑوں کو سوچنے اور آپسی اختلافات کہ خاتمہ کا ایک موقع فراہم کیا ہے تین ماہ بعد عام انتخابات کا بگل بجے گا اگر ایم کیو ایم کے دھڑوں کی تقسیم کا خاتمہ اب بھی نہ ہوا تو کراچی کے عوام کے مسائل شاید اب بھی حل کی جانب گامزن نہ ہوسکے گے سینیٹ کی شکست کی طرح عام انتخابات میں بھی کیسی کے ہاتھ میں کوئی سیٹ نہ آئے گی بلکہ ایم کیو ایم کے تمام تر دھڑوںکا سیاسی سفر اختتام پذیر ہوجائے گا وقت کی ضرورت ہے کہ فاروق ستار ذاتی افراد کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایم کیو ایم کی کشتی کو ڈوبنے سے بچھائیں اور دوسری جانب عامر خان گروپ بھی فاروق ستار جنھوں نے ۲۲ اگست کو ایم کیو ایم کو نئی زندگی بخشی تھی ان کی قیادت میں کراچی کے عوام کی خوشحالی اور اس شہر کے امن کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھنے کے لیے مل کر جدوجہد کریں تاکہ کراچی میں اکثریت سے بسنے والے اُردو بولنے والوں کو بہترین قیادت نصیب ہوسکے ایم کیو ایم پاکستان کراچی میں بسنے والوں کی اشد ضرورت ہے جس کو قائم رکھنا ایم کیو ایم کے تمام تر دھڑوں کی اولین ذمہ داری ہے ۔