میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تمام صوبائی اسمبلیوں میں سندھ اسمبلی کی حیثیت مقدم۔۔۔لیکن!

تمام صوبائی اسمبلیوں میں سندھ اسمبلی کی حیثیت مقدم۔۔۔لیکن!

ویب ڈیسک
بدھ, ۸ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

ہم اس قدر آزاد اور خودمختار قوم ہیں کہ ہم اپنے آپ کو کسی اصول، ضابطے اور کلیے قاعدے کے پابند نہیں سمجھتے بلکہ تمام قواعد و ضوابط کو اپنا پابند سمجھتے ہیں اور اپنے ہی منہ سے نکلنے والے الفاظ کو آئین اور قانون قرار دے دیتے ہیں۔ اسمبلیاں انتہائی واجب الاحترام ادارے ہیں جہاں پر قوم کی تقدیروں کے فیصلے ہوتے ہیں اور اس کے روشن مستقبل کے نہ صرف منصوبے بلکہ کامیابی و کامرانی کے راستے تلاش کئے جاتے ہیں۔ لیکن ہم افسوس ہی کرسکتے ہیں کہ ہماری اسمبلیوں میں وہ ہی لوگ بھیجے جاتے ہیں جو سیاست کے حروف ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے اور نہ ہی ادب و احترام کی حقیقت کے شناسا ہیں اور اسمبلی کے فورم پر وہ کردار ادا کرتے ہیں جن سے نہ صرف اسمبلیوں کا تقدس مجروح ہوتا ہے بلکہ قوم کے سر بھی شرم سے جھک جاتے ہیں۔ یوں تو ہماری ہر اسمبلی میں ہر روز طرفہ تماشہ دکھایا جاتا ہے لیکن یہ سندھ اسمبلی جہاں قیام پاکستان پر سب سے پہلے قائد اعظم کا اجلاس ہوا تھا ،جس کی وجہ سے اس کا تقدس بڑھ گیا اور یہ ہمیشہ کیلیے برقرار رہنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کا ماتم کیا جائے یا سینہ کوبی، افسوس کیا جائے یا آنسوبہائے جائیں کہ شہر قائد میں جہاں قائد اعظمؒ خود آرام فرمارہے ہیں اور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگرچہ اس شہر کے حالات کو وہ چشم سر سے تونہیں دیکھتے مگرچشم روح سے ضرور دیکھ رہے ہونگے اور ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ وہ نظام قدرت پر لب کشائی سے قاصر ہیں اوروہ بقید حیات ہوتے تو ایسے لوگوں کو اسمبلیوں میں داخل ہونا تو کجا، قریب سے گزرنے کی بھی اجازت نہ دیتے۔ گزشتہ روز اسمبلی میں کارروائی کے دوران اپوزیشن نے احتجاجی روایت کا مظاہرہ کیا، یہ اپنی جگہ درست ہے کہ اپوزیشن کو بولنے، سننے کے لیے وقت دینا چاہیے چونکہ یہ اُن کا جمہوری، سیاسی، پارلیمانی قواعد کے مطابق پورا پورا حق ہے ۔لہٰذا ہم اپنی رائے کی گیند ارکان اقتدار کے کورٹ میں بھی پھینکتے ہیں شائد کہ اترجائے ان کے دل میں بھی ہماری بات۔۔۔ کہ آئین سازی اور ترمیمی بل کے موقع پر اپوزیشن ارکان کے نقطہ¿ نظر کو پوری توجہ سے سنا جائے اور کبھی بھی اپوزیشن کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے اپنی گفتگو اور رائے کو مقدم نہ سمجھا جائے اور ان کو نہ صرف پورا پورا وقت دیا جائے بلکہ اُن کا احترام بھی برقرار رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی حکومتی فیصلے پر وہ نقطہ اعتراض پر آجاتے ہیں تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ غور کرنے کے لیے مزید وقت طلب کرے اور اپوزیشن کی رائے پر مزید اپنے فیصلے یا رائے پر نظر ثانی کرے اور پھر اپوزیشن کو مطمئن کرے ۔اسی طرح ہم اپوزیشن کی خدمت میں بھی اپنی گزارشات پیش کریں گے کہ وہ بھی حکومتی قراردادوں پر اپنے اختلاف کو حرف آخر نہ بنائیں اور نہ ہی اپنے احتجاج کو بے ہنگم کریں۔ ارکان حکومت اور ارکان اپوزیشن باہمی ہم آہنگی اور افہام و تفہیم سے قانون سازی میں اہم اور تاریخی کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ اپوزیشن کا مفہوم ہم نے صرف، صرف اور صرف مخالفت سمجھ لیا ہے، گزشتہ ہنگامہ خیز اجلاس میں اسپیکر کے ڈائس کا گہراﺅ، گو پی پی گو اور گو اسپیکر گو کے نعرے اسمبلی کے در و دیوار نے نہ صرف سنے ہونگے بلکہ یہ فلک شگاف نعرے سن کر اگر اسمبلی کے در و دیوار کو قوت گویائی مل جائے تو نصرت سحر عباسی کا دھمال اور احتجاج دیکھ کر وہ نہ صرف پریشان ہونگے بلکہ شائد یہ افسوس کریں کہ ہماری تعمیر یہاں ہونے کے بجائے کسی چنڈوں خانے میں ہوجاتی تو بہتر تھی، قوم پریشان حال ہے اور مصائب و مشکلات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے لیکن جن کو اپنے ضمیر کی آواز اور فیصلے کے ووٹ سے اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کیلیے منتخب کیا تھا وہ اپنے مفادات اور بینک بیلنس کی جنگوں میں مصروف ہوگئے۔
اور ہم یہ قوم کو آگاہ کرنا اپنا منصبی فرض سمجھتے ہیں کہ وہ بھی مصلحت، لالچ اور نا اہلیت کا ثبوت دیتے ہوئے نا اہل نمائندوں کا انتخاب نہ کریں بلکہ تعلیم یافتہ، سمجھدار اور ہوشمند لوگوں کا انتخاب کریں ۔اس کے باوجود اگر حالات اور ایسے روح فرسا واقعات سے سبق حاصل نہ کیا تو ہمارا یوں ہی رونا اور آنسو بہانا مقدر ہی رہے گا جس کے لیے قدرت نے اپنے اس اعلان سے آگاہ کردیا تھا کہ میں بھی اس قوم کی حالت تبدیل نہیں کرتا جو اپنی حالت بدلنے کی خود بھی کوشش نہ کرے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں