میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی کے عوام کے دلی جذبات کی ترجمانی

سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی کے عوام کے دلی جذبات کی ترجمانی

ویب ڈیسک
بدھ, ۸ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کراچی کو آلودہ اور مضر صحت پانی کی فراہمی کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ایم ڈی واٹر بورڈ کراچی مصباح الدین فرید کو فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا ۔اخباری اطلاعات کے مطابق جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کراچی رجسٹری میں منچھر جیل اور پانی میں آلودگی میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کے کمیشن نے اپنی جو رپورٹ عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش کی اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آر او پلانٹس کی تنصیب میں اربوں روپے کا فراڈ کیا گیا، صوبے بھر میں700 سے زائد پلانٹس نصب کیے گئے لیکن ان پلانٹس کی تنصیب کے بعد ان کے معیار اور کارکردگی کا تجزیہ کیے بغیر اربوں روپے کی ادائیگیاں کردی گئیں۔ لاڑکانہ کی 70 لاکھ آبادی ہے، رائس کینال میں 18 مقامات پر گندا پانی ڈالا جاتا ہے اوریہ گندا پانی لاڑکانہ سے جوہی تک کاشتکاری اور پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے، لاڑکانہ کا 88 فیصد جب کہ شکارپور کا 79 فیصد زیر زمین پانی پینے کے قابل نہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوٹری میں نصب کیا جانے والا ٹریٹمنٹ پلانٹ بند ہوچکا ہے، کوٹری کا گندا پانی کے بی فیڈر میں ڈالا جاتا ہے اور یہی پانی کراچی کو فراہم کیا جاتا ہے، ٹھٹھہ میں بھی سیوریج نظام اور ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود نہیں جب کہ کراچی میں 84 مقامات سے پانی کے نمونے حاصل کیے گئے جن میں سے 80 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں، پانی میں موجود بیکٹریا اور ڈی ایس کی وجہ سے پیٹ کے امراض پھیل رہے ہیں اس کے علاوہ شہر کا گندا پانی سمندر میں چھوڑنے سے آبی حیات، مینگروز اور دیگر کو خطرات لاحق ہیں۔
ناکارہ آر او پلانٹس کی تنصیب،اور کراچی سمیت پورے سندھ کے عوام کو آلودہ اور مضر صحت پانی پینے پر مجبور کرنے والے افسران بالا پر پر عدالت کی برہمی اپنی جگہ بجا ہے، عدالت کا چیف سیکریٹری سے یہ استفسار بھی حق بجانب کہ یہ تو بتایا جائے کہ آر او پلانٹس کی دیکھ بھال کس کی ذمہ داری تھی، آر او پلانٹس کی تنصیب کس کا کام تھا اورکس نے یہ کام انجام دیاتاکہ اس صوبے کے محدود وسائل میں سے ، اربوں روپے کے فراڈ میں ملوث ملزمان کاپتہ چلایاجاسکے ،اوراس کے ذمہ دار ملزمان کوعوام پر ڈھائے جانے والے اس ظلم کی قرار واقعی سزا دی جاسکے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس امیر ہانی مسلم کے ریمارکس کہ ایک آدمی کی زندگی بچانے کے لیے 100 آدمیوں کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے، اگر ایک شخص کی زندگی کو بھی بچانے کے لئے ہمیں کسی کے خلاف قانونی کارروائی کرنا پڑی تو ضرور کریں گے۔کراچی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے عوام کے دل کی آواز ہے ، پاکستان کے عوام کی دلی خواہش یہی ہے کہ عوام کی جانوں سے کھیلنے اور قومی دولت لوٹنے والوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہئے اور نہ صرف ایسے بد خو لوگوں کو بلکہ ان کی حمایت اور معاونت کرنے والوں کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے ۔سپریم کورٹ نے ایم ڈی واٹربورڈ مصباح الدین فرید کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانےکا حکم جاری کیا ہے،اس حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم کو انتہائی نرم قرار دیاجاسکتاہے، عوام کو تو خوشی اس وقت ہوتی جب ان کو بیماریوں کا شکار کرکے ہسپتالوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کرنے والے اس شخص کو فوری طورپر گرفتار کرکے اس سے اس کی اب تک کی تمام بد اعمالیوں کا پورا پورا حساب لیاجاتا۔ اس قماش کے لوگ کسی طرح کے رحم اور رعایت کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ ایڈوکیٹ جنرل کی جانب سے مہلت کی استدعا پر سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تمام سیکریٹریوں کو نلکے کا پانی پینے کی شرط بالکل درست ہے بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ کم از کم واٹر بورڈ کے چیئرمین افسران بالا اورچیف سیکریٹری کو اس بات کاپابند بنایاجائے کہ وہ اپنے گھر میں نلکے کاوہی پانی استعمال کریں گے جو وہ عام شہریوں کو فراہم کررہے ہیں اور انھیں اپنے گھریلو استعمال کے لیے منرل واٹر حاصل کرنے کی قطعی اجازت نہیں ہوگی اگر یہ شرط عاید کردی جائے تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس شہر اور صوبے میں کبھی بھی مضر صحت پانی فراہم نہیں کیا جائے گا۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے شہر میں قائم تمام غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس بند کرنے کا حکم بھی جاری کیاتھالیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ واٹر بورڈ کے ارباب اختیار نے سپریم کورٹ کے ان احکامات کو ہوا میں اڑادیا ،کیونکہ شہر کے مختلف علاقوں میں ہائیڈرنٹس پہلے ہی کی طرح فعال نظر آتے ہیں۔چیف جسٹس انورظہیر جمالی اس سے قبل شہر میں پانی کی فراہمی کی ابتر صورتحال کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میںواضح کرچکے ہیں کہ کراچی میں ماحولیاتی آلودگی، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ اور پانی کا مسئلہ یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے، یہاں ہر طبقے کے لوگ بستے ہیں لیکن کوئی اس شہر کو اپنا نہیں سمجھتا، کوئی بھی ادارہ کراچی کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ واٹر بورڈ پانی فراہم نہیں کرتا تو کے ایم سی کچرا اٹھانے کو تیار نہیں، کے ایم سی اور واٹر بورڈ میں بڑی تعداد میں گھوسٹ ملازمین ہیں، انہیں شہریوں کے مسائل کے حل سے کوئی سروکار نہیں، یہ لوگ گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسارکیا تھاکہ کب تک کراچی والے پینے کے پانی کو ترستے رہیں گے، اول تو پانی نہیں ملتا اور جہاں ملتا ہے گندا پانی دیا جاتا ہے، پانی فراہم کرنا عدالت کا مسئلہ نہیں لیکن عوامی مفاد عامہ کا مسئلہ ہے ،اس لئے عدالت کو مداخلت کرنا پڑی۔ڈی ایچ اے کے 90 فیصد مکین ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں، پانی کی قلت ہے تو ٹینکرز کے لئے پانی کہاں سے آتا ہے۔جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ وال مینوں کے ذریعے شہر کا پانی کنٹرول ہوتا ہے ۔
کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں پینے کے پانی کی فراہمی کی ناگفتہ صورتحال کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کے ریمارکس اس شہر ہی نہیں پورے صوبے کے عوام اور سرکاری اداروں کی کارکردگی کے بارے میں ان کے ریمارکس اس پورے ملک کے عوام کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں ، اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اس ملک کے عوام کے دلی جذبات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ عوام کو بنیادی سہولتیں بلا تعطل فراہم کی جائیں اور اپنے فرائض سے اغماض برتنے والے خود کو احتساب سے بالا تر نہ سمجھیں ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ واٹر بورڈ کے چیئرمین کو ان کے عہدے سے سبکدوش کیے جانے کے احکامات کے بعد اب عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان فرائض سے مجرمانہ غفلت برتنے اورقومی وسائل میں مبینہ گڑبڑ ،گھپلوں اور خورد برد کے الزامات کے تحت مقدمات قائم کرکے ان کو قرار واقعی سزائیں بھی دلوانے کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے،تاکہ آئندہ اونچی کرسیوں پر بیٹھنے والے بیوروکریٹ اس طرح کے مجرمانہ عمل سے گریز کرنے پر مجبور ہوں۔
امید کی جاتی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اس معاملے میں بھی از خود نوٹس لیتے ہوئے واٹر بورڈ کے سربراہ اور ان کے معاونین کی فوری گرفتاری کا حکم صادر کریں گے اور اس حوالے سے ان کو کسی بھی طرح کی مہلت دینے سے گریز کیاجائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں