
فلسطین کوئی سرمایہ کاری کا منصوبہ نہیں ، فلسطینی اتھارٹی کا ٹرمپ کو جواب
شیئر کریں
٭1948اور 1967کے سانحات دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے ، منصوبہ ناکام بنادیں گے
٭ہماری فلسطینی قوم نے اپنے قانونی قومی حقوق کے دفاع کے لیے بھرپور قربانیاں دیں،ترجمان
فلسطینی اتھارٹی نے کہا ہے کہ فلسطینی عوام اور قیادت 1948اور 1967کے سانحات کو دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے اور اس قضیے کو ختم کرنے کے مقصد سے پیش کیے جانے والے کسی بھی منصوبے کو ناکام بنا دیں گے ۔یہ بات فلسطینی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے فلسطینی اتھارٹی کے سرکاری ترجمان نبیل ابو ردینہ کے حوالے سے بتائی۔ابو ردینہ کے مطابق فلسطین اپنی سرزمین، تاریخ اور مقامات مقدسہ کے حوالے سے فروخت کے لیے نہیں ، یہ کوئی سرمایہ کاری کا منصوبہ نہیں ہے ، فلسطینی عوام کے حقوق قابل مذاکرات نہیں ہیں، یہ سودے بازی کا کارڈ نہیں۔فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نے مزید کہا کہ ہماری فلسطینی قوم جس نے اپنے قانونی قومی حقوق کے دفاع کے لیے بھرپور قربانیاں دیں، اپنی سرزمین کی ایک بالشت سے بھی دست بردار نہیں ہو گی خواہ وہ غزہ کی پٹی ہو یا مغربی کنارا جس میں فلسطینی ریاست کا دار الحکومت مشرقی بیت المقدس بھی شامل ہے "۔ابو ردینہ کے مطابق فلسطینیوں کی جبری ہجرت کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کے منصوبوں پر عربی اور بین الاقوامی رد عمل نے ثابت کر دیا ہے کہ پوری دنیا ایک زبان ہو کر بات کر رہی ہے جو اس مسئلے کی بین الاقوامی قانونی حیثیت اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ہے جب کہ اکیلی امریکی انتظامیہ مختلف زبان بول رہی ہے اسی طرح امریکی شخصیات اور ارکان کانگریس اور اسرائیلی آوازیں بھی ہیں جن کے نزدیک یہ منصوبہ نا قابل عمل ہے "۔ابو ردینہ نے باور کرایا کہ امن و استحکام کا یقینی بنایا جانا فلسطین کے اندر بالخصوص اس کے دار الحکومت بیت المقدس کے اندر پوشیدہ ہے ، اس کا کسی دوسری جگہ یا کسی فرد کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں۔ابو ردینہ نے بتایا کہ صدر محمود عباس نے اپنے سرکاری بیان میں ان عرب اور عالمی ممالک کے مواقف کو گراں قدر قرار دیا ہے جن میں جبری ہجرت یا انضمام کو مسترد کر دیا گیا ہے ۔ انھوں نے باور کرایا کہ مستقل اور مستحکم امن کے لیے بین الاقوامی قوانین اور عرب امن منصوبے کی بنیاد پر سیاسی حل کا کوئی متبادل نہیں ہے ۔