میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ملک ریاض کو موت یا جج کے انتقال پر ہی التوا مل سکتا ہے، سپریم کورٹ

ملک ریاض کو موت یا جج کے انتقال پر ہی التوا مل سکتا ہے، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
جمعه, ۸ فروری ۲۰۱۹

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے ارسلان افتخار اور ملک ریاض کے درمیان بزنس ڈیل میں توہین عدالت کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دور ان ملک ریاض کے وکیل کو تحریری معافی نامہ جمع کرانے اور ملک ریاض کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی ہے

جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اب اس عدالت سے التوا نہیں ملے گا، التواء صرف دو صورتوں میں ملے گا ملک صاحب یا جج صاحب انتقال کر جائیں۔ جمعرات کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ارسلان افتخار اور ملک ریاض کے درمیان بزنس ڈیل میں توہین عدالت کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

وکیل ملک ریاض ڈاکٹر باسط عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ملک ریاض کے خلاف توہین عدالت کیس نمٹایا جاچکا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ لیکن اس کیس میں فرد جرم لاگو ہوچکی تھی، ڈاکٹر باسط نے کہا کہ جب فرد جرم لگی تھی تو عدالتی حکم نامہ نہیں آیا تھا،عدالتی حکم نامے میں آیا تھا کہ ملک ریاض نے کبھی توہین عدالت نہیں کی،ملک ریاض نے کہاتھا کہ ان کا معاملہ عدالت کے ساتھ نہیں ارسلان افتخار کے ساتھ ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب فرد جرم لگ چکی ہے اب تو سزا ہونا باقی ہے ، ملک ریاض کے وکیل نے کہا کہ جناب ملک ریاض شدید بیمار ہیں ان کو کینسر ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس کو قانون کے مطابق پرکھیں گے،ملک ریاض نے عدالتی حاضری سے استثنیٰ کی کوئی درخواست نہیں دی،وکیل نے کہا کہ عدالت میں مستند انگریز ڈاکٹروں کی میڈیکل رپورٹس پیش کی ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مستند پاکستانی ڈاکٹروں کی رپورٹ پیش کرلیں وہ بھی قبول کرلیں گے، آپ بار بار انگریز ڈاکٹروں کا حوالہ کیوں دیتے ہیں۔

وکیل نے کہا کہ ملک ریاض پروسٹیٹ کینسر جیسی بیماری میں مبتلا ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اب اس عدالت سے التوا نہیں ملے گا التوا صرف دو صورتوں میں ملے گا ملک صاحب انتقال فرما جائیں یا جج صاحب انتقال کر جائیں۔وکیل نے کہا کہ جناب کو بتائوں کہ ملک ریاض کی سرجری ہونی ہے،کینسر جیسے مرض نے ملک ریاض کی ریڑھ کی ہڈی کو بھی متاثر کیا ہے،ایک اخبار نے ملک ریاض کی بیماری کے بارے میں چھاپ دیا ہے، میڈیا کو اس طرح کی خبریں چھاپنے سے منع کیا جائے،چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرائل کیلئے گواہوں کی فہرست سابق اٹارنی جنرل نے تیار کی تھی،گواہوں میں ارسلان افتخار، سابق چیف جسٹس افتخار چودھری،یوسف رضا گیلانی،سید یوسف اور سلمان علی خان شامل ہیں,چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پریس کانفرنس کی بنیاد پر کیس بنا تھا تو اس کی ویڈیو ہی کافی ہے،صرف ویڈیو کی تصدیق کرنا ہوگی، ویڈیو میں پتہ چل جائے گا کہ بات کرنے کا انداز کیا تھا،

ہم ملک ریاض کو 10 ہفتے حاضری سے استثنیٰ دے سکتے ہیں، وکیل نے کہا کہ ملک ریاض نے فون پر کہا کہ میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لکھ کر دیں ہم الفاظ کو دیکھ کر غور کریں گے،وکیل نے کہا کہ ملک ریاض کہتے ہیں کہ میں یہ داغ لے کر نہیں مرنا چاہتا کہ میں عدالت کی عزت نہیں کرتا، ملک ریاض اس وقت انگلستان میں ہیں، ایک ہفتے میں غیر مشروط معافی جمع کرا دیں گے، عدالت نے ملک ریاض کے وکیل کو حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت 21 فروری تک ملتوی کر دی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں