ٹیکسی پر پابندی یا عوام پر؟
شیئر کریں
یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ…. سندھ حکومت ہو یا پنجاب حکومت دونوں حکومتوں کی یہ مشترکہ بات ہے کہ ان کی عوامی مسائل پر نہ نظر ہے اور نہ ہی وہ ان مسائل کو سمجھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی ہمارا مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی عوامی ویلفیئر آرگنائزیشنز عوام کے لیے کام کرنا چاہے تو ان کو فوری طور پر بند کردیا جاتا ہے اور بند کرنا فرض عین سمجھتے ہیں، ٹریفک کے مسائل تو اپنی جگہ ہیں کہ ٹریفک گھنٹوں جام رہنے کے باوجود اس کی روانی کی امیدیں بھی دم توڑدیتی ہیں یہاں تک کہ جام ٹریفک ہونے کے دوران ایمبولینسز میں پڑے کئی مریض بھی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں اور ایسے کئی واقعات وقوع پذیر ہوئے کہ ہسپتال جانےوالی خواتین رستے میں ہی بچے جنم دے دیتی ہیں جبکہ کئی خواتین ڈلیوری کی تکالیف میں جان بھی کھودیتی ہیں اور پھر ٹریفک کے دیگر مسائل کے حل ملتے بھی نہیں اور نہ ہی تلاش کی زحمت گوارہ کی جاتی ہے۔
کراچی اور پنجاب میں کریم اور UBAR کے نام سے شروع ہونے والی ویب ٹیکسی منظر عام پر آئی تو دیکھتے ہی دیکھتے اس نے بڑی تعداد میں عوامی پذیرائی کا لوہا منوایا۔ عوام کو یہ خوشی اور اطمینان میسر ہوا کہ یہ سفر سستا اور با سہولت ہے اور چند دن بعد ہی یہ حیران کن خبر بھی آگئی کہ پنجاب اور سندھ حکومت نے اس ٹیکسی سہولت پر بھی پابندی لگادی۔ اس خبر سے پورے شہر اور صوبے میں بے چینی اور افرا تفری کی لہر دوڑگئی چونکہ خبر کو میڈیا نے بریکنگ نیوز بنادیا۔ یہ بھی کتنا عجیب ہے کہ فوراََ حکومتی نمائندے یعنی وزیر موصوف میڈیا پر آئے اور ایک سرکاری بیان دیا کہ ابھی بند نہیں ہورہی لیکن بلاتاخیر ایک سرکاری افسر نے یہ بیان بھی دیا کہ نہیں ہم اس کو بند کردیں گے یا بند کررہے ہیں۔ یہ ہم حکومت پنجاب اور سندھ کی مشترکہ نا اہلی ہی قرار دیتے ہیں اور اگر یہ کہا جائے تو آنے والا کل درست ہی ثابت کرے گا کہ دونوں حکومتیں نااہلیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کا یہ بھی طرفہ تماشہ دیکھئے کہ ان سروس کو ہدایت ہے کہ گاڑیوں کی فٹنس سرٹیفکیٹ لیں اور اپنی گاڑیوں کی کمرشل رجسٹریشن کرائیں لیکن جو گاڑیاں سڑک پر پہلے سے موجود ہیں، ان کی فٹنس تو لوگ ہر روز دیکھتے ہیں کہ ان گاڑیوں کی جو حالت زار ہوتی ہے اور کوئی عقلمند اور ذی شعور انسان یہ تسلیم تک نہیں کرتا کہ ان گاڑیوں کی فٹنس کبھی چیک بھی ہوئی ہوگی۔ اور یہ کہنا بھی درست اور سچائی کا آئینہ دار ہے ہوگاکہ یہ گاڑیاں صدیوں پرانی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے باڈی پارٹس لٹکتے، ٹوٹتے اور گرتے دکھائی دیتے ہیں اور اس حیرت کا بھی منظر دیکھئے کہ اگر ان بوسیدہ، بیمار اور غمزدہ گاڑیوں کی فٹنیس چیک کریں تو ڈرائیور یا مالکان 2017ءکا سرٹیفکیٹ آپ کو یا ہمیں پکڑائے گا، ہم تو یہ محسوس کرتے ہیں کہ یا ان کے اندر نظر نہیں اور موتیا اترا ہوا ہے یا ان کا دماغی توازن بگڑا ہوا ہے اور صاحب عقل لوگ یہ تک کہہ رہے ہیں کہ رشوت کی طاقت بوڑھے کو جوان اور جوان بوڑھا بنایا جاسکتا ہے یہ متعلقہ وزراءکی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے اداروں کو صحت مند بنانے کے لیے اپنی بیداری کا ثبوت دیں ان پرائیویٹ کاروں کی تو فٹنس کا معیار بہتر بلکہ 100% بہتر ملے گا لیکن وہ اس سیکٹر کی طرف توجہ دینے سے کیوں قاصر ہیں جنہیں پبلک ٹرانسپورٹ کہا جاتا ہے ۔
٭٭