میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انڈے یات

انڈے یات

ویب ڈیسک
اتوار, ۸ جنوری ۲۰۲۳

شیئر کریں

دوستو،ہمارے ملک میں’’دیہاڑی باز‘‘ بہت ہیں، سب اپنے اپنے ’’سیزن‘‘ لگاتے ہیں۔۔ بقرعید پر قصائی،جانوروں کے بیوپاری اندھا دھند کماتے ہیں، رمضان میں دکانداروں کا فل سیزن ہوتا ہے، درزی بھی قصائی بنے ہوتے ہیں۔اسی طرح سے آپ اگر محسوس کریں گے تو سب بار ی باری اپنی دیہاڑی لگاتے نظر آئیں گے۔۔ اب سردیاں شروع ہیں تو مرغیاں اور انڈوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ تین سو روپے درجن انڈے کراچی میں فروخت ہورہے ہیں، یعنی پچیس روپے کا ایک انڈا۔۔ اسی طرح انڈے والا سوپ بھی مہنگا ہوگیا ہے۔چکن مہنگی ہونے سے چکن کے باربی کیو آئٹم بھی مہنگے ہوگئے ہیں۔سردیوں کے ساتھ ہی ہر جانب انڈے کے چرچے ہوجاتے ہیں۔سابق حکومت نے تو انڈے اور مرغیوں کو ملک کی مستقبل کی معیشت قرار دیا تھا، یہ بات اب ہماری سمجھ میں آرہی ہے پچھلی حکومت کی باتوں میں کتنی سچائی تھی۔۔
چین دنیا کا سب سے زیادہ انڈے پیدا کرنے والا ملک ہے۔ جو سالانہ 5.6 بلین کلو گرام انڈے پیدا کرتا ہے، اور عالمی منڈی میں فروخت کرتا ہے۔دوسرے نمبر پر امریکا ہے، جو 5.6 بلین کلو گرام انڈے پیدا کرتا ہے۔ اور عالمی منڈی میں بیچ کر ڈالر کماتا ہے۔تیسرے نمبر پہ انڈیا ہے، جو 3.8 بلین کلو گرام انڈے پیدا کرتا ہے۔ جو بیچ کر ڈالر کماتا ہے۔ سعودی عرب اور پورے یو اے ای میں انڈیا کے اسٹیمپ شدہ انڈے فروخت ہوتے ہیں۔جبکہ یہ کام پاکستان میں آسانی سے ہو سکتا ہے۔ دیہات میں عورتیں گھروں میں شیڈ بنا کر مرغیاں پال سکتی ہیں، اور گھر کا کام بھی کر سکتی ہیں۔ تجارتی بنیادوں پہ انڈے پیدا کر کے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے،لیکن ہمارے دانشوروں اور سیاست دانوں کا وژن دیکھ لیں،عمران خان کے اس بزنس آئیڈیا کا بھی مذاق اڑا کر رکھ دیا۔کپتان کی حکومت عوام کو’’دیسی مرغ ‘‘ کھلانے کا سوچ رہی تھی لیکن کم عقل عوام کے نصیب میں یہ عیاشی کہاں تھی۔۔ایک مرغا کو بہت غصے کی حالت میں دیکھا، کلغی تنی ہوئی تھی،غصے سے کہہ رہا تھا۔۔ ہماری عورتوں پر اگر کسی نے معیشت کا بوجھ ڈالا تو حکومت کیلئے ٹھیک نہیں ہو گا،ساتھ ہی دھرنے کی دھمکی بھی دے رہا تھا۔۔پچھلی سے پچھلی پی پی حکومت نے غریب عوام کیلئے بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام شروع کیا، یہ اچھا پروگرام تھا جس سے غریب کی مدد ہورہی تھی لیکن غریب دیہاتی کا ہاتھ اس اسکیم کے باوجود ہمیشہ مانگنے والا رہے گا۔کمانے والا ہاتھ مانگنے والے ہاتھ سے افضل ہے ۔۔ہماری قوم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی اچھا کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو سب مل کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں، جیسے ڈیم فنڈ شروع کیاگیا توکہاجانے لگا کہ بھیک سے ڈیم کیسے بنے گا؟؟ بنیادی طور پر مادہ پرستی اورمصنوعی رشتوں واسطوں میں جھکڑی قوم کا مذاق کرنا کوئی نئی بات نہیں، مجموعی طور پر ہم لوگ شارٹ کٹ والے ہوگئے ہیں، چاہتے ہیں پیسہ بھی آئے اور محنت بھی نہ کرنی پڑے۔۔ بے صبری اور بے ضمیر قوم جب بند دماغ سے سوچتی ہے تو پھر اسے اپنے سامنے کچھ نظر نہیں آتا ، جس کے بعد وہ ہر چیز کا مذاق اڑانا شروع کردیتی ہے۔۔
عمران خان نے جب پہلی بار اپنی کسی تقریر میں بطور وزیراعظم مرغی اور انڈوں کا ذکر کیا ، قوم کے دانش ’’وروں‘‘ نے سوشل میڈیا پر اپنی جگتوں کے ہتھیار کے تیز کرنا شروع کردیے۔۔ طرح طرح کے اسٹیٹس ڈالے جانے لگے۔۔ ایک صاحب نے تو شاعری کی آڑ میں مرغی اور انڈوں کا قصیدہ پڑھ ڈالا۔۔مرغی کے ہاتھوں میں ہے اب قوم کی تقدیر،ہر انڈہ ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔۔۔دیار معیشت میں اپنا مقام پیدا کر،نئی مرغیاں نئے انڈے صبح و شام پیدا کر۔۔۔ایک ہوں مرغیاں انڈوں کی پاسبانی کے لیے، بھائی خلیل کے دڑبے سے لیکر تایا اخلاق کا شجر۔۔۔ہم لائے ہیں پنجرے سے مرغی نکال کر، انکے انڈوں کو رکھنا میرے بچو ںسنبھال کر۔ ۔ ۔کھلتا کسی پہ کیوں میری نا اہلی کا معاملہ، انڈوں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے ۔۔ایک انڈا جسے تْو گراں سمجھتا ہے، ہزار قرضوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔۔ایک دوست نے علامتی افسانہ لکھ مارا، لکھتے ہیں۔۔بالاخر اس نے مجھے ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کہا مجھے تو تم بالکل پسند نہیں لیکن اگر میرے ممی پاپا کو پسند آ گئے تو میں تم سے شادی کر لوں گی۔سو اس نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ میں جوش میں مقررہ وقت سے بھی آدھا گھنٹہ پہلے اس کے گھر کے باہر کھڑا تھا۔ یہ ایک عظیم الشان گھر تھا۔ گھر کا گیٹ کھلا تو اندر مجھے نئے ماڈل کی چار کاریں نظر آئیں۔ خیر ملازم مجھے لیکر ڈرائنگ روم میں آ گیا۔کچھ دیر بعد اس حسینہ کے والد صاحب اور والدہ کمرے میں داخل ہوئے اور میرے سامنے صوفے پر بیٹھ گئے۔ ان کی شان دیکھ کر میرے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی۔ مگر وہ بہت کلچرڈ محسوس ہوتے تھے۔ ان نے ایک کاروباری قسم کی مسکراہٹ مجھ پر ڈالی۔۔والد صاحب نے بولنا شروع کیا ، بیٹا کیوں ہماری بچی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہو۔ شکل سے ہی تم یتیم سے لگتے ہو۔ میری بیٹی اس شہر کے سب سے مہنگے اسکول سے پڑھی۔ پھر اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہم نے اسے امریکہ بھیجا۔ وہ ابھی کچھ دن پہلے وہاں سے ماسٹرز کر کے واپس پہنچی۔ اس کو اس ملک کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بہت بھاری تنخواہ پر جاب آفر کر رہی ہیں۔ ہمارے پاس اس کے لیے بہت سے سیاستدانوں اور بزنس مین کے بیٹوں کے رشتے آ رہے ہیں۔ آخر تم کیا چیز ہو جو اسکو اس قدر پریشان کر رہے ہو۔۔انکل بولے جا رہے تھے اور میں شرم سے زمیں میں گڑتا جا رہا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں اتر جاؤں۔ سچ میں نے اپنی اوقات سے بہت بڑی کسی چیز کی خواہش کر دی تھی۔۔خیر انکل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید ارشاد فرمایا۔۔ بیٹا ہم آپ کی بے عزتی نہیں کرنا چاہتے مگر انسان کو اپنی شکل اور اوقات دیکھ کر بات کرنی چاہیے۔ تمھارے جیسے لڑکے کو تو ہم اپنی شہزادی بیٹی کا نوکر بھی نہیں رکھنا چاہتے اور تم یہ یتمیوں والا منہ اٹھا کر سیدھا اس کا رشتہ مانگنے ہی آ گئے۔ آخر تمھارے پاس ہے ہی کیا جو تم نے اتنی بڑی خواہش کر دی۔۔؟؟میں نے شدید پریشانی میں اپنا تھوک نگلتے ہوئے مری ہوی آواز میں کہا ۔۔ انکل میرے پاس چار دیسی مرغیاں تین درجن دیسی انڈے اور دو عدد کٹّے بھی ہیں۔۔یکدم انکل اور آنٹی کا موڈ تبدیل ہو گیا اور آنٹی نے مجھ پر پیار بھری نظر ڈالتے ہوئے محبت سے کہا ۔۔ بیٹا نکاح تو آج ہی کر دیتے ہیں۔ رخصتی کچھ دنوں بعد کر دیں گے۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہرنی شیر سے زیادہ تیز رفتار ہوتی ہے۔ لیکن شکار ہو جاتی ہے کیونکہ بار بار وہ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتی ہے کہ شیر کہاں تک پہنچا۔ ایسا کرنے سے اسکی رفتار کم ہو جاتی ہے۔بالکل اسی طرح جب ہم زندگی کے سفر پر رواں دواں ہوں تو بار بار ماضی میں جھانکنے سے ہمارا صرف اور صرف نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں