ڈرگ ریگولیٹر ی اتھارٹی : جعلی ادویہ سازی کوروکنے میں مکمل ناکام
شیئر کریں
(رپورٹ : باسط علی) ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں صرف ایک نام کا ڈنکا بجتا ہے جو اوپر سے نیچے تک کسی بھی معاملے کو اوپر نیچے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بدنام زمانہ ریجنل ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی’’بریف کیس کھلاڑی‘‘ کی شہرت کے باعث ایک طرف سیکریٹری ہیلتھ سے لے کر نچلے افسران تک سب کا لاڈلا ہے تو دوسری طرف جعلی ادویہ ساز اداروں میں بھی وہ سب کا پسندیدہ ہے جو اُنہیں ہر قسم کے غیر قانونی کاموں میں مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ عدنان رضوی اپنی اسی صلاحیت کی بناء پر مفادات کاٹکراؤ رکھنے والے مناصب پر بھی ایک ساتھ براجمان رہ کر جعلی ادویہ ساز اداروں کی خدمت اوراپنے اداروں میں کرپٹ ڈرگ انسپکٹرز کو مکمل تحفظ دیتا رہا ہے۔ یوں اس ایک شخص کی باعث ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور یہ ادارہ جعلی ادویہ سازی کو روکنے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے۔
کوالٹی کنٹرول بورڈ سندھ پانچ سال کے طویل عرصے کے بعد بحال ہوا تو عدنان رضوی کوپراجیکٹ ڈائریکٹر ہیلتھ ڈاکٹر دبیر کی ایما پر کوالٹی کنٹرول بورڈ سندھ کے سیکریٹری کے عہدے پر تعینات کردیا گیا، جب کہ وہ اس وقت چیف ڈرگ انسپکٹر سندھ کے عہدے پر بھی فائز تھا۔ کوالٹی کنٹرول بورڈ ڈرگ کورٹ میں ریفر ہونے والے کیس کی سماعت کرتا ہے،اورڈرگ انسپکٹر کیس دائر کرتا ہے ، ان دونوں عہدوں پر عدنان رضوی کی تقرری خلاف قانو ن اور ایک دوسرے کے مفادات سے متصادم تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عدنان رضوی نے بیک وقت ان دونوں اہم عہدوں کواپنے مفاد میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا، ایک جانب وہ ڈرگ انسپکٹر کی حیثیت سے ادویہ ساز کمپنیوں کو بلیک میل کرکے ان سے’’ بریف کیس ‘‘لیتا رہا تو دوسری جانب کوالٹی کنٹرول بورڈ سندھ سیکریٹری کے طور پر ڈرگ کورٹ میں ریفر ہونے والے کیس کی سماعت بھی کمپنیوں کی جانب سے دیے جانے والے ’ ہدیے‘ کے مرہون منت تھی۔
ماہرین صحت کے مطابق اگر کسی بھینس کوبوسٹین ، سوماٹیک کے انجکشن لگائے گئے ہوں تو اس بھینس کا دودھ پینے والے افراد خصوصاً خواتین میں بیضہ دانی اور چھاتیوں کا کینسر اور قبل از بلوغت جیسے مسائل رونما ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے ڈیری فارمز میں ان انجکشن کا استعمال سختی سے منع ہے لیکن پاکستان اور خصوصا کراچی میں ان کا استعمال دھڑلے سے کیا جارہا ہے۔
اس عہدے پر براجمان رہتے ہوئے عدنان رضوی جعلی ادویات بنانے والی کمپنیوں کے فرنٹ مین بن گئے۔یوں اُن کی انگلیاں گھی میں اور سر پورا ہی کڑھائی میں رہا۔مختلف واقعات کی تفصیلات جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن کمپنیوں نے ’ہدیہ‘ دینے سے منع کردیا تو ان کے خلاف غیر معیاری ادویات بنانے کے کیس دائر کردیے گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب عدنان رضوی کی میڈیسن کمپنیوں سے کیے جانے والے مطالبات حد سے زیادہ بڑھ گئے ،اور اس کی بہت زیادہ شکایتیں ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی کے اعلیٰ حکام تک پہنچی تو عدنان رضوی کو سیکریٹری کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ ڈاکٹر قیصر محمود کو کوالٹی کنٹرول بورڈ سندھ کا سیکریٹری تعینات کردیا گیا۔ تاہم عدنان رضوی ابھی بھی خود کو سیکریٹری کوالٹی کنٹرول سندھ ظاہر کرکے کمپنیوں کو بلیک میل کر رہا ہے ۔
ممنوعہ انجکشن کی فروخت کے جھگڑے میں اب تک نصف درجن سے زائد قتل ہوچکے ہیں،جعلی ا دویات بیچنے والی مافیا کا اثر و رسوخ جرائم کی دنیا میں اپنی جڑیں گہری کرچکا ہے
حرص کے پجاری عدنان رضوی کراچی کے علاقے بھینس کالونی میں ممنوعہ اور جعلی انجکشن بوسٹین ، سوماٹیک اور اوکسی ٹوکسین فروخت کرنے والے جرائم پیشہ افراداور جعلی اودیات بنانے والوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ بھینس کالونی میں ان جعلی اودیات اور ممنوعہ انجکشن کی فروخت کا مذموم دھندہ عدنان رضوی اور دیگر ڈرگ انسپکٹرز کی رضا مندی سے کئی سالوں سے جارہی ہے۔ اس وقت بھینس کالونی میں بوسٹین اور سوماٹیک فروخت کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ڈاکٹرز ڈیری فیڈ (ڈی ڈی ایف) ہے، جس کے مالک ڈاکٹر عباس علی مرچنٹ کو ان کے مخالف گروپ کے ایک چودھری نے مبینہ طور پر ایک سابق ڈی آئی جی کی معاونت سے 30؍اگست 2015کو اپنے باڑے پر بلا کر ان کے دو محافظوں سمیت قتل کردیا تھا۔ ڈاکٹر عباس گزشتہ تیس سالوں سے بھینس کالونی میں مویشیوں کا چارہ اور ادویات فروخت کرنے والے سب سے بڑے ڈیلر تھے۔ ان ادویات کوبیچنے والی مافیا کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈرگ انسپکٹر بھی ان کی مرضی سے تعینات کیا جاتا ہے۔ یہ مافیا رفتہ رفتہ جرائم کی دنیا میں بھی اپنی جڑیں گہری کر چکا ہے۔
’’بریف کیس کھلاڑی‘‘ کی شہرت کے باعث عدنان رضوی ایک طرف سیکریٹری ہیلتھ سے نچلے افسران تک سب کا لاڈلا ہے تو دوسری طرف جعلی ادویہ ساز وں کا بھی پسندیدہ ہے
بھینس کالونی میں ڈرگ انسپکٹرز کی ملی بھگت سے جاری اس کام کی سفاکیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان ممنوعہ انجکشن کی فروخت کے جھگڑے میں اب تک نصف درج سے زائد قتل ہوچکے ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق اگر کسی بھینس کو یہ انجکشن لگائے گئے ہوں تو اس بھینس کا دودھ پینے والے افراد خصوصاً خواتین میں بیضہ دانی اور چھاتیوں کا کینسر اور قبل از بلوغت جیسے مسائل رونما ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے ڈیری فارمز میں ان انجکشن کا استعمال سختی سے منع ہے لیکن پاکستان اور خصوصا کراچی میں ان کا استعمال دھڑلے سے کیا جارہا ہے کیوں کہ اس کام میں ملوث افراد کو عدنان رضوی اور اس جیسے ضمیر فروش ڈرگ انسپکٹرز کی سرپرستی حاصل ہے۔ عدنان رضوی نہ صرف بھینس کالونی میں چلنے والے اس مذموم دھندے کی سرپرستی کر رہا ہے بلکہ کسی کارروائی کی صورت میں ملزمان کو مقدمات سے بچنے کے لیے معاونت بھی فراہم کر رہا ہے۔ حال ہی میں ایک ڈرگ انسپکٹر ذاکر سموں نے ڈاکٹر عباس مرچنٹ کی بیوہ نازنین مرچنٹ کی ایک کمپنی نازنین مختار اینڈ کمپنی کو کوالٹی کنٹرول بورڈ سندھ کی جانب سے ایک شوکاز نوٹس جاری کیا۔ جس پر عدنان رضوی نے سیکریٹری صحت سے کہہ کر ذاکر سموں کو بھینس کالونی سے ہٹوا دیا۔ ایم ایس ڈی کمپنی کے تیار کردہ چار سو روپے مالیت کے انجکشن بوسٹین کوبھینس کالونی میں عدنان رضوی اور دیگر ڈرگ انسپکٹرز کی معاونت سے 2300 سے2700 روپے میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اوریہ ڈرگ انسپکٹر فی انجکشن 20سے 25فی صد کمیشن لیتے ہیں۔ کراچی کے پسماندہ علاقے لانڈھی میں واقع بھینس کالونی میں عدنان رضوی اور اس کے ماتحت ڈرگ انسپکٹرز کمیشن کے علاوہ ماہانہ کتنی رقم لیتے ہیں، ان ممنوعہ انجکشن کے کاروبار سے ہونے والی آمدنی، ان انجکشن کی فروخت پر ہونے والے خونی کھیل اور اس میں ڈرگ انسپکٹرز کے کردار پر مزید تفصیلات کل کے اخبار میں شامل اشاعت کی جائیں گی۔
رشوت کے پیسے تحائف میں خرچ
بدعنوان چیف ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی جہاں ایک طرف کراچی بھینس کالونی میں ممنوعہ اور جعلی ادویات فروخت کرنے والوں کی سرپرستی کر رہا ہے تو دوسری جانب اس نے اپنے منظور نظر افسران کو نوازنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ چند ماہ قبل اینٹی کرپشن پولیس نے رشوت لینے کے الزام میں ڈرگ انسپکٹر لاڑکانہ ڈویژن صاحب خان میرانی اور ڈرگ انسپکٹر بدین شعیب انصاری کو گرفتار کیا۔ تاہم عدنان رضوی نے مذکورہ افسران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کرنے کے بجائے انہیں بچانے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ قواعد کے مطابق عدنان رضوی بحیثیت ریجنل ڈرگ انسپکٹر سندھ ان دونوں افسران کے خلاف کارروائی اور رپورٹ تیار کرکے حکام بالا کو بھیجنے کے پابند تھے، لیکن انہوں نے اپنے ان کرپٹ ڈرگ انسپکٹرز کو تحفظ فراہم کیا اور ایک بھی رپورٹ اعلیٰ حکام کو نہیں بھیجی۔ عدنان رضوی کی منظور نظر افسران کو نوازنے کی روشن مثال ایک جونیئر افسر ساجد شیخ ہے، جس نے Recommendation ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے لیبارٹری کے فنڈز میں گھپلا کرنے میں عدنان رضوی کی معاونت کی تھی، جس کا صلہ اسے نئی کار کی شکل میں ملا، جب کہ دوسرے ڈرگ انسپکٹرنفیس الرحمان کو بھی2018ماڈل کی سفید رنگ کی سوزوکی کلٹس کار بھی تحفے میں دی گئی۔