معاشرے میں ہر سو پھیلے ناسور
شیئر کریں
(آخری قسط)
کے ناسوروں نے گھر جیسے امن و سکون کے دولت کدے کو جہنم بنادیا ہے۔حلال امور کی ادائی میں سے صرف ایک واحد کام جو کہ طلاق ہے کو اللہ پاک نے نا پسند فرمایا ہے۔ معاشرے کا بنیادی یونٹ گھر ہے۔ جب گھر کو بسانے والے دونوں فریق خاوند اور بیوی کے درمیان سماجی کنٹریکٹ ہی نہ رہے تو پھر گھر کے سکون کی بربادی میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی۔ سوشل میڈیا نے جہاں عوام کو بہت سے امور میں آگاہی دی ہے وہاں اِس کے منفی اثرات نے بھی معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انتہائی دکھ کا مقام ہے کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال کی بدولت معاشرے میں شرم وحیا کو آگ لگ گئی ہے۔
گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے رحجان نے معاشرے کو اِس بُری طرح لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ مذہب کے بغیر ہے اور روحانی اقدار نام کی کوئی شے یہاں نہیں ہے۔فیس بک کی چیٹینگ سے شادیوں تک پہنچنے والے مراحل کے بعد جب نام نہاد محبت کی فینٹسی کا بخار رفو چکر ہوتا ہے اور زندگی کی حقیقتوںکی آشکاری ہوتی ہے تو پھر آٹے دال کو بھائو پتہ چلتا ہے کہ والدین کے گھر شہزادی بن کر رہنے والی نے اپنی مرضی سے گھر سے بھاگ کر جو معاشرے میں نیک نامی کمائی ہے اُس میں غلطی پر کون ہے۔ یوں پھر خلع کی نوبت آجاتی ہے ۔ اگر لاہور میں فیملی عدالتوں میں صرف طلاق والے کیسوں کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ معاشرہ کس جانب جا چکا ہے۔ اِسی طلاق اور خلع کی وجہ سے پھر نان و نفقہ اور اگر بچے پیدا ہوچکے ہوں تو اُن کی حوالگی کے حوالے سے مسائل سر اُٹھاتے ہیں۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والوں کی بڑی تعداد غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے جو اُنھیں جسم فروشی کے لیے استعا ل کرتے ہیں ۔حالیہ مہینوں میں پرنٹ اور الیکٹرنک میں یہ رپورٹ ہوچکا ہے۔ شادی کے جال میں پھنسا کر مشرق ِ وسطیٰ میں جسم فروشی کے لیے لڑکیوں کو اسمگل کر دیا جاتا ہے۔ حوا کی بیٹی کے ساتھ جو سلوک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہورہا ہے۔اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے رہنما ہمارے حکمران فکری طور پر مکمل کھوکھلے ہوچکے ہیں اُن کو اِس کا بالکل ادراک نہیں کہ پاکستانی معاشرہ کس طرف پرواز کر چکا ہے۔
بے روزگاری بھی بہت بڑی وجہ ہے۔ طلاقوں کی شرح میں اضافے۔موجود مشترکہ خاندانی نظام اور روپے پیسے کی ہوس نے رشتوں کو بھلادیا ہے اور بس اپنی جان کے لیے ہر کوئی فکر میں مصروف ہے۔یوں مشترکہ خاندانی نظام بُری طور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔گارڈین کورٹ کے معاملات کے حوالے سے بہت سے مسائل اتنی پیچیدگیوں کے حامل ہیں کہ بچے بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ماتحت عدلیہ میں میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کی وجہ سے بچوں کی حوالگی اور اُن کی اپنے والد یا والدہ سے ملاقات کے حوالے سے احسن طور پر امور انجام نہیں دیے جارہے ہیں۔ ایک مہینے کے بعد د و گھنٹے کی ملاقات وہ بھی ایک ڈربہ نما کمرے میں جہاں سینکڑوں اور لوگ بھی اپنے بچوں سے ملنے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اگر خادم اعلیٰ اپنی آنکھوں سے جاکر ماتحت عدلیہ کے زیر انتظام عدالتوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کا حشر دیکھ لیں تو اُن کو اندازاہو جائے گا کہ اِس طرح تو کبوتر بھی کسی ڈربہ نما کمرے میں نہیں رکھے جاسکتے جس طرح کہ گارڈین کورٹس کی حالت زار ہے کہ بچے اپنے والدین سے ملاقات کے لیے ذلیل وخوار ہو رہے ہوتے ہیں اور یہی حال اُن کے والدین کا بھی ہوتا ہے۔والدین کی ناچاقیوں کی سزا معصوم بچوں کو تو بھگتنا پڑتی ہی ہے اِس کے ساتھ ساتھ بچوں کے ماں باپ بھی گارڈین کورٹ کے چکر لگا لگا کر اور بچوں کے لیے نان و نفقہ کے حصول کے لیے جس طرح عدالتوں میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یقینی طور پر ماں اور باپ اور اِسی طرح بچوں کے لیے بھی ایک مشکل صورتحال بن جاتی ہے۔
دوسری طرف اگر ان بچوں کی تعلیمی استعداد اور اُن کی ذہنی کیفیات کا اندازہ لگایا جایا تو یہ امر بالکل واضح ہے کہ بچے ذہنی طور پر کافی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔بن ماں یا باپ کے بغیر بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہونے والے مضر اثرات کا ادراک وہی کر سکتا ہے جو اِس چکی میں پس رہا ہو۔ ماں یا باپ کے فوت ہوجانے کی صورت میں بچوں کو یہ صبر تو آہی جاتا ہے کہ اُن کی ماں یا اُن کا باپ اب اِس دُنیا میں نہیں ہے۔لیکن جب بچے اپنے ہم جماعتوں کو اپنے والدین کے ساتھ دیکھتے ہیں اور والدین کی مشترکہ تربیت اور محبت سے استفادہ کر رہے ہوتے ہیں تو یہ معاملہ اُن بچوں کے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔ماں یا باپ کی علیحدگی کی وجہ سے منتشر خیالات کے حامل بچے معاشرے کے لیے اُس طرح ذہنی طور پر بہتر شہری ثابت نہیں ہو پاتے جس طرح والدین کی آغوش میں پلنے والے بچوں کی پرورش ہورہی ہوتی ہے۔ حالیہ ایک دہائی سے پاکستانی سو سائٹی کے بودوباش میں عجیب و غریب تبدیلی آئی ہے۔ اِس تبدیلی کو اگر تباہی سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ٹی وی چینلز کی بھرمار، موبائل فون اور انٹرنیٹ کا بے تحاشا استعمال معاشرے کو ایسے دوراہے پہ لے آیا ہے کہ خاندانی نظام کی دھجیاں بکھرتی جارہی ہیں۔ دادا دادی جو کسی بھی گھر کے لیے نعمت و رحمت تصور ہوتے تھے اور اسلامی و مشرقی معاشروں کی پہچان تھے اُن کے حوالے جو صورتحال بنی ہے وہ یہ کہ اُن کا احترام ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ دوسرا والدین کا احترام والا نظریہ بھی بہت حد تک مفقود ہوتا جارہا ہے۔ تیسرا موبائل کی وجہ سے سارا جہاں ایک بٹن کے دبانے پر آشکار ہونے کے لیے ہر وقت تیار ہوتا ہے۔ اِس لیے زندگی میں ہوس پرستی نے اتنی جگہ بنا لی ہے کہ اب خلوص اور وفا صرف شاعری کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ معاشرے میں تعمیر و تربیت کے لیے سب سے اہم خیال کیا جانے والا شخص اُستاد اِس وقت اُس مقام کو کھو چکا ہے جو اِس معلمی پیشے کا خاصا تھا۔اب اُستاد بھی پیسہ کمانے والی مشین بن چکا ہے کیونکہ معاشرتی اخلاقی زوال پزیری اِس نہج تک پہنچ چُکی ہے کہ اُستاد کا درجہ ایک ملازم کی طرح کا ہو چکا ہے اِس کی وجہ معاشرے میں دولت کی عزت ہے اور یوں پرائیوٹ اداروں میں علم کی روشنی کی بجائے ڈگریوں کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔طلاقیں کیوں اتنی بڑی تعداد میں ہورہی ہیں اور جو بچے ماں یا باپ کے بغیر پروان چڑھیں گے اُن کے ساتھ کون کون سی محرومی ہے جو جونک کی طرح اُ نہیں لپٹ جائے گی!
(ختم شد)