سندھ کی اپوزیشن جماعتیں نئے بلدیاتی قانون کیخلاف متحد
شیئر کریں
قائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ نے اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز محمد حسین، حسنین مرزا، بلال غفار کے ہمراہ سندھ اسمبلی میں اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2021 کے حوالے سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا کوئی امکان نہیں ہے بل آئین آئین سے متصادم کالا قانون ہے اسے واپس لینے تک کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ اپوزیشن کی تمام جماعتیں مذاکرات کی غیر رسمی دعوت کو بے معنی سمجھتی ہیں کیوں کہ اپوزیشن سے مشاورت بل اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل کرنی چاہیے تھی۔ حلیم عادل شیخ نے کہا اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے ترمیمی بل کے حوالے سے مشاورت کی ہے اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ اس کالے قانون کے تحت مقامی حکومتوں حاصل محدود اختیارات سے بھی محروم کر دیا گیا ہے ہم نے گورنر سندھ کو اس سلسلے میں اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ بل کی منظوری ہی غیر قانونی غیر آئینی اور غیر پارلیمانی طریقے سے ہوئی ہے اور یہ ترامیم سندھ کے شہروں پر قبضہ کرنے کی سازش ہیں کیوں کہ پیپلزپارٹی جاتنی ہے کہ آئندہ انتخابات میں ووٹ کے ذریعے کامیاب نہیں ہوسکتے اسی لئے چور دروازے سے نوٹ کے ذریعے کامیابی چاہتے ہیں۔ حلیم عادل شیخ نے مزید کہا ہم 2013 کے بلدیاتی قانون کو بھی نہیں مانتے جن کے تحت سندھ بی الخصوص کراچی کے بلدیاتی نظام کواختیارات سے محروم کر دیا تھا اور اب یہ مزید ترامیم لائے ہیں جو آئین کے آرٹیکل 7-8-32-140اے سے متصادم ہیں ان ترامیم کے تحت کوئی بھی شخص جو اپنی یونین کائونسل سیجیتنے کے قابل نہ ہو وہ بھی میئر اور چیئرمین بن سکتا ہے ہر منتخب عہدے کی ایک مدت ہوتی ہے لیکن اس بل میں مدت متعین نہیں کی گئی جب کہ سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کو یہ اختیار دیا گیا ہے وہ کسی بلدیاتی ادارے کو کوئی اختیار تفویض کریں یا واپس لے لیں۔ انہوں نے کہا یہ ایک دہرا نظام ہے جو صرف زرداران کے مفاد کیلئیبنایا گیا ہے وزیر بلدیات کے فون پر رابطے کے حوالے سے انہوں نے کہا یہ غیر رسمی رابطہ تھا اگر حکومت مذاکرات کے لئے سنجدہ ہوتی تو لیڈر آف دی ہائوس باضابطہ طور رابطہ کرتے ہم بند کمروں میں بات کرنے کو تیار نہیں ہے اس قانون کو لیکر پورے سندھ میں تشویش پائی جاتی ہے اور تمام سیاسی اور سماجی فریقین اس بل ناخوش اور ناراض ہیں یہ بل چالیس فیصد اپوزیشن کو بلڈوز کر کے عجلت میں لایا گیا ہے پہلے یہ قانون واپس لیا جائے اور بلدیاتی قانون میں موجود غیر اخلاقی، غیر انسانی، غیر قانونی شقیں ختم کی جائیں تو بات چیت ہوسکتی ہے۔