بابری مسجد کا مقدمہ
شیئر کریں
آج سے پچیس سال قبل 6 دسمبر 1992کو اترپردیش کے علاقے ایودھیا میں بھارت کے طول و عرض سے جنونی ہندو لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئے اور تقریباً پانچ سو سالہ قدیم بابری مسجد کو شہید کردیا۔ یہ مسجد مشہور مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے 1527ء میں اتر پردیش کے مقام ایودھیا میں تعمیر کرائی تھی۔ یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی۔ تقسیم ہندوستان کے بعد بھی اس مسجد کی اہمیت مسلمانوں کے ہاں مسلمہ تھی۔ بھارت کے جنونی ہندو جو اسلام اور شعائر اسلامی سے خار کھاتے ہیں، ان کے لیے یہ تاریخی مسجد بھلا کیوں کر قابل قبول تھی۔ یہی وجہ تھی اس کے انہدام کے لیے خصوصی پلاننگ کی گئی۔
ہندوئوں کا دعویٰ ہے کہ یہ بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے دیوتا رام کی جائے پیدائش ہے، اس لیے اس جگہ پر مسجد کو منہدم کرکے اس پر رام مندر تعمیر کیا جائے۔ اس پروپیگنڈے کو خوب اچھالا گیا اور اس میں مزید رنگ بھرنے کے لیے کچھ شرپسندوں نے چال چلی۔ 1949 میں اس مسجد کے اندر سے رام کی ایک مورتی ملی جوکہ مبینہ طور پر شرپسند ہندوؤں کی طرف سے رکھی گئی تھی۔ اس مورتی کا بابری مسجد سے ملنا تھا کہ پورے بھارت میں شور مچ گیا اور مسجد کو گرا کر رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ اس وقت کی حکومت نے مسجد کی جگہ کو متنازع قرار دے کر مسجد عبادت اور زائرین کے لیے بند کردی۔ مسلمانان ہند نے اس پر خاصا احتجاج بھی کیا مگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا یہاں تک کہ 1984 میں دہشت گرد ہندو تنظیم ویشوا ہندو پریشد کی طرف سے رام دیوتا کی جائے پیدائش کو آزاد کروانے کی غرض سے ایک تحریک کا آغاز ہوا، جس میں بھارت کے صف اول کے سیاست دان بھی شامل تھے۔ بی جے پی کے ایک بڑے رہنما ایل کے ایڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی اور پورے بھارت کے ہندوؤں کو مسجد کے انہدام پر اکسانا شروع کردیا۔ اسی کی کوششوں کی وجہ سے مقامی عدالت نے مسجد کی جگہ پر ہندوؤں کو عبادت کرنے کی اجازت دے دی، جس سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمانوں نے ان معاملات سے نمٹنے کے لیے بابری مسجد ایکشن کمیٹی قائم کی مگر حالات ان کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے۔1989 میں ویشوا ہندو پریشد کے متشدد لوگوں نے مسجد سے ملحقہ جگہ پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی جس پر ایک دفعہ پھر شور مچ گیا۔ مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ تقسیم کے وقت اور اس کے بعد ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ رواداری اور امن کے جو وعدے کیے گئے تھے وہ ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔
1990 میں کچھ جنونی ہندوؤں نے مسجد کی عمارت کو جزوی نقصان پہنچایا، جس پر مسلمانوں کے احتجاج پر اس وقت کے بھارتی وزیراعظم نے وعدہ کیا کہ اس معاملے کو حل کرلیا جائے گا اور مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ مگر اس سے اگلے ہی سال اترپردیش میں انتہا پسند تنظیم بی جے پی کی حکومت قائم ہوگئی، جنہوں نے عوام سے ووٹ ہی رام مندر کی تعمیر کا لیا تھا۔ اب ان کے ہاتھ روکنے والا بھی کوئی نہیں تھا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پورے بھارت سے ڈیڑھ سے دو لاکھ جنونی اور انتہا پسند ہندوؤں کو جمع کیا اور بابری مسجد پر چڑھائی کردی۔ ایل کے ایڈوانی ان کی قیادت کر رہے تھے۔ جسے مٹھی بھر مسلمانوں نے روکنے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ شہید کردیے گئے اور اس کے ساتھ ہی تاریخی بابری مسجد کو بھی شہید کردیا گیا۔ اس کے بعد یہ جنونی ہندو مسلمانوں کی بستیوں پر حملہ آور ہوئے، جس سے مسلم کش فسادات شروع ہوگئے، جن میں تقریباً تین ہزار مسلمان تہ تیغ کردیے گئے۔ ان مین سے بہت سارے ایسے تھے جن کو زندہ بھی جلایا گیا۔
آج اس واقعہ کو پورے پچیس برس ہونے کو ہیں، مگر دنیا کی سب بڑی جمہوریت اور بزعم خود سیکولر ریاست میں مسلمانوں کو انصاف نہ مل سکا۔ ابھی بھارت کی سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ زیر التوا ہے، کل سے اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت بھی شروع ہوچکی ہے، مگر مسلمان بے چارے اب بھی ڈرے سہمے سے ہیں کہ ان کو انصاف ملے گا کہ نہیں۔ جب کہ دوسری جانب انتہا پسنداس بات پر بضد ہیں کہ اس جگہ رام مندر تعمیر کیا جائے اور یہ لوگ عدالتوں پر اثر انداز بھی ہو رہے ہیں۔ حالاں کہ اس سے قبل بھی الہ آباد ہائی کورٹ میں اس جگہ کی کھدائی سے رام مندر کی واضح موجودگی کے کوئی آثار نہیں ملے، مگر جنونی ہندوؤں کو مسجد کسی صورت بھی قبول نہیں ہے۔ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہونے کی وجہ سے جنونی ہندوئوں کو مزید تقویت مل رہی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر سبرامنیم سوامی نے عدالت عظمیٰ میں ایودھیا معاملے کی فوری طور پر سماعت کے لیے درخواست داخل کر رکھی ہے۔ سبرامنیم سوامی نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ایودھیا میں دو سال کے اندر اندر وہ رام مندر بنوائیں گے اور وہیں بنوائیں گے جہاں وہ پہلے سے موجود ہے۔ اسی طرح بی جے پی، آر ایس ایس اور اس سے وابستہ ہندو تنظمیں یہ امید کر رہی ہیں کہ سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو جائے گا۔ اتر پردیش اور مرکز دونوں جگہ بی جے پی اپنی اکثریت سے اقتدار میں ہے۔ بی جے پی کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے۔ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ ناموافق یا ہائی کورٹ جیسا رہا تو پارلیمنٹ میں ایک قانون بنا کر مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔آر ایس ایس کا بھی کہنا ہے کہ مندر وہیں بنے گا اور جلد بنے گا۔ یہ مسجد مسلمانوں کی عظمت کا نشان اور شعار تھی جس کو گرا کر ہندوؤں نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ ہندو توا کے بھارت میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور اس کا ثبوت وقتاً فوقتاً مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے ملتا رہتا ہے۔ کبھی مظفر نگر میں تو کبھی گجرات میں خونِ مسلم کی ہولی کھیل کر، کبھی گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو خون میں نہلا کر بھارت کے ہندو جنونی اپنی دہشت گردی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ انہی مظالم سے ڈرے سہمے بھارتی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ہم بابری مسجد کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کریں گے۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ اس معاملے میں غیر جانبدار ججز شامل کیے جائیں، کیونکہ یہ کوئی انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ مذہبی مسئلہ ہے ۔ اسی لیے اقوام متحدہ جو مذہب کے نام پر مسلمان ملکوں میں تو مداخلت کرکے غیر مسلموں کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے نئے ملک بنوا سکتی ہے، بابری مسجد کے مقدمے میں کیوں مداخلت نہیں کرسکتی بابری مسجد کے معاملے پر غیر جاندارانہ طور پر تحقیق کی ضرورت ہے، نیز اس کی آڑ میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینا ہی انصاف کی فتح ہوگی۔