امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی موخر کرنے کاصائب فیصلہ
شیئر کریں
وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا نے اسرائیل میں اپنے سفارتخانے کی منتقلی سے متعلق فیصلہ موخر کر دیاہے۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حوالے سے بالکل کلیئر ہیں اور اس معاملے پر فیصلہ وقت آنے پر کریں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا فیصلہ اس فیصلے کے سامنے آنے کے بعد سعودی عرب ،اردن، اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی اور فلسطین کے علاوہ فرانس اوردیگر مغربی ممالک کی جانب سے اس فیصلے پر کی گئی تنقید اور فیصلے پر نظر ثانی پر دئے گئے زور کے بعد کیا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی سعودی عرب نے کہا تھاکہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کے حتمی تصفیے سے قبل ایسا کوئی قدم ‘امن مذاکرات پر مضر اثرات مرتب کرے گا۔’فلسطین کے صدر محمود عباس نے اس اعلان کے بعد اس پر عملدرآمد رکوانے کے لیے عالمی رہنماؤں سے مداخلت کی اپیل کی تھی اور کہاتھا کہ اس قسم کا امریکی فیصلہ ‘امن کے عمل کو تباہ کر دے گا۔اردن نے اس کے ‘سنگین نتائج’ پر متنبہ کیاتھا جبکہ عرب لیگ کے سربراہ ابوالغیث نے کہا کہ اس قسم کے اقدام سے تشدد اور مذہبی جنون کو تقویت ملے گی۔ترکی کے نائب وزیر اعظم بکیر بوزداغ نے کہا ہے کہ اس سے بڑی تباہی آئے گی۔ اسلامی تعاون تنظیم نے خبر دار کیا تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا امریکی اقدام عرب اور مسلم ممالک کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا۔فرانس کے صدر امانوئل میکخواں نے صدر ٹرمپ سے کہا تھا کہ انھیںبیت المقدس کو یکطرفہ طور پر اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے منصوبے پر ‘تشویش’ ہے۔میکخواں نے کہا تھاکہ شہر کی متنازع حیثیت پر کوئی بھی فیصلہ ‘اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بات چیت کے دائرہ کار’ کے اندر ہونا چاہیے۔اس سے قبل کئی عرب اور مسلم ممالک نے اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
اسرائیلی اور فلسطینی دونوں اس شہر کو اپنا دارالحکومت قرار دیتے رہے ہیںاور یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی رہنمائوں کی پیہم کوششوں کے باوجوداب تک دنیا کاکوئی ملک اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے پر تیار نہیں ہوا اورامریکا وہ پہلا ملک ہے جس کے صدر نے یہ فیصلہ کیاتھالیکن زبردست عالمی دبائو نے انھیں اپنا یہ فیصلہ موخر کرنے پرمجبور ہوگئے۔فرانس کے صدارتی محل سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ صدر امینیول میکخواں نے صدر ٹرمپ کو فون کرکے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
1995 میں امریکی کانگریس نے امریکی سفارتخانے کی منتقلی کی منظوری دی تھی جس کے بعد صدر ٹرمپ سمیت تمام امریکی صدور ہر6 ماہ بعد اس دستاویز پر دستخطکرتے ہیں جس میں منتقلی میں تاخیر کی بات کہی گئی ہے۔بنیادی طورپر بیت المقدس کو پوری دنیامیں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے تنازعے کی بنیاد تصور کیاجاتا ہے اور عالم اسلام اور عرب دنیا فلسطین کے دعوے کی حمایت کرتی ہے۔یہ شہر اور بطور خاص مشرقی بیت المقدس یہودی، مسلمان اور مسیحی برادری کے مقدس مقامات کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اس حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور وہ پورے شہر کو بلا شرکت غیر اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو اپنے مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت کہتے ہیں اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان سنہ 1993 کے معاہدے میں اس کی حیثیت بعد میں ہونے والے امن مذاکرات میں طے کیے جانے کی بات کہی گئی ہے۔بی بی سی کے امریکی وزارتِ خارجہ کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان اصل میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اپنے ایک انتخابی وعدے کو پورا کرنے کے لیے کیاگیاتھا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہبین الاقوامی سطح پربیت المقدس پر اسرائیل کے اختیار کو کبھی قبول نہیں کیا گیا ہے اور اسرائیل کے قریب ترین حلیف امریکا سمیت تمام ممالک کے سفارت خانے ابھی تک تل ابیب میں ہی ہیں۔
1967 میں اس مقدس شہر پر قبضے کے بعد سے اسرائیل نے مشرقیبیت المقدس میں کئی بستیاں آباد کی ہیں جن میں دو لاکھ یہودیوں کے لیے مکان تعمیر کیے گئے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت یہ تعمیرات غیر قانونی ہیں۔اگر امریکا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے تو یہ بین الاقوامی برادری سے علیحدہ اسرائیل کے دعوے کی تائید کرے گا کہ مشرق میں تعمیر ہونے والی اسرائیلی آبادیاں جائز ہیں۔
او آئی سی نے اس فیصلے پر شدید ردعمل کااظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکی صدرٹرمپ کے مقبوضہ بیت المقدس کو ممکنہ طور پر اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کی صورت میں اسلامی تعاون تنظیم مسلم ممالک کا اجلاس طلب کرے گی۔بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ایسے کسی بھی فیصلے کوعرب اور مسلم اقوام کے خلاف کھلا حملہ تصور کیا جائیگا۔واضح رہے کہ اس سے قبل وائٹ ہائوس نے کہا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ رواں ہفتے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کر سکتے ہیں۔اردن کے وزیر خارجہ نے امریکی حکام کو خبردار کیا تھا کہ اگربیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسیلم کیا گیا تو اس کے 146خطرناک نتائج145 ہوں گے۔اردن کے وزیر خارجہ ایمن سفادی نے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کو بتادیاتھا کہ اس قسم کا اعلامیہ عرب اور اسلامی دنیا میں ناراضی ابھار سکتا ہے۔اقوام متحدہ بیت المقدس پر اسرائیل کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کے مطابق یہ متنازع علاقوں میں شامل ہے جس پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے۔فلسطینی بھی کسی طور بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کی طرف سے اس بارے میں شدید رد عمل سامنے آ سکتا ہے۔ جبکہ ڈونلڈر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدسمنتقل کر دیں گے۔ بیت المقدس سمیت اسرائیل میں20 فیصد آبادی اسرائیلی عربوں کی ہے اور امریکا کی طرف سے یہ اقدام اْن لوگوں کو بھی اشتعال دلا کر انھیں شدت پسندی پر مائل کر سکتا ہے۔
اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سفارت خانے کو منتقل کرنے کافیصلہ موخر کرنے پر رضامندی کا اظہار ایک دانشمندانہ قدم ہے کیونکہ خود امریکا کے خفیہ اداروں اور انٹیلی جنس اور فوجی حکام کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے خطے میں تشدد کی نئی لہر آ سکتی ہے۔امریکا کے خفیہ اداروں اور انٹیلی جنس اور فوجی حکام کے اندازوں کے مطابق اس اعلان کا شدید رد عمل سامنے آئے گا اور اس کے نتیجے میں بہت زیادہ جانی نقصان ہو سکتا ہے۔امریکا کے خفیہ اداروں اور انٹیلی جنس اور فوجی حکام کی رپورٹوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اطلاعات کے مطابق یہ بھی متنبہ کیاگیاتھا کہ ان کی جانب سے سفارتخانے کی منتقلی کے اس اعلان کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں موجود امریکی فوجی اڈوں اور دیگر تنصیبات کو بھی نشانہ بنائے جانے کے خدشات کئی گنا بڑھ جائیں گے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور کرکے بیت المقدس میں کسی بھی کارروائی یا طاقت کے استعمال کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ قرارداد کے حق میں 151 ممالک نے ووٹ دیا جب کہ 6 نے مخالفت کی اور 9 نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ علاقہ متنازع ہے اس لیے اقوام متحدہ اس کی اجازت نہیں دے گی۔لیکن یہاں سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف تو قرارداد منظور ہوگئی جس کے نتیجے میں وہ بیت المقدس میں کوئی بھی کارروائی کرے تو وہ غیر قانونی قرار پائے گی۔ لیکن اقوام متحدہ خود اسرائیل کے وجود کو غیر قانونی کیوں قرار نہیں دیتی؟
ویسے اسرائیل نے اقوام متحدہ یا کسی بین الاقوامی ضابطے کی کب پابندی کی ہے جو اس مرتبہ کرے گا۔ اسرائیل سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے سبب کسی اقدام سے رک جائے گا145 محض خام خیالی ہے۔ یہ ایک واضح امر ہے کہ جس روز امریکا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرے گا اسی روز حماس اور دنیا بھر میں فلسطینی احتجاج شروع کر دیں گے۔ حماس نے اس فیصلے پر پوری قوت سے جواب دینے کا اعلان کیا ہے اور عرب لیگ نے متنبہ کیا ہے کہ اس فیصلے کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ فی الحال ایسا نظر تو نہیں آرہا کہ امریکی صدر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیں گے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے اب تک کے احکامات اور فیصلوں سے یہ ظاہرہوتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے ساتھ محبت کے اظہار کے لیے جلد یابدیر ایسا کریں گے ضرور اور پھر کچھ احتجاج اور کچھ سازشی قسم کے حملے اور اعترافی پیغامات کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف نئی کارروائیوں کا جوازبنالیاجائے گا۔ اس صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جن ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے وہ اقوام متحدہ پر فلسطین کے حوالے سے منظور کردہ سابقہ قراردادوں پر عمل درآمد کرائیں جن میں اسرائیل سے یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے145 غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور فلسطینیوں پر مظالم روکنے کے مطالبات کیے گئے تھے۔ وقت ثابت کرچکاہے کہ اسرائیل قراردادوں سے باز آنے والا ملک نہیں اس کے خلاف اسلامی ممالک اور اگر یورپ کے کچھ ممالک میں انسانیت اور بین الاقوامی قوانین کا احترام ہے تو ان کو ملا کر مشترکہ کارروائی کرنا ہوگی۔ اسرائیل کے خلاف بھی جنگی کارروائی کے بجائے اس کا معاشی مقاطعہ اس کی سفارتی ناکہ بندی اور عالمی اداروں میں اس کے بائیکاٹ سے بھی معاملات بہتری کی طرف آسکتے ہیں اور اگر اسرائیل طاقت کا استعمال کرے گا تو اس کے جواب کے لیے 42 ملکی اسلامی اتحادی افواج کو استعمال کیا جاسکتاہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امتِ مسلمہ نیجب بھی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اسرائیل گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا اور جب بھی اس میں انتشار ہوا اسرائیل شیر ہوگیا۔ یہ معاملات صرف اسرائیل کے ساتھ نہیں ہیں پاکستان کے ساتھ بھارت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس سے جنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن اگر امتِ مسلمہ کے دباؤ کو استعمال کیا جائے تو صرف سعودی عرب145 امارات145 قطر145 کویت145 بحرین وغیرہ میں بھارتی باشندوں کی بڑی تعداد موجود ہے ان ممالک پر دباؤ ڈال کر یا ان کی جانب سے بھارت پر کشمیر میں مظالم روکنے اور پھر اس کا تصفیہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ تمام اسلامی ممالک اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں گے اوراپنے اتحاد کے ذریعے اسرائیل اورامریکا دونوں کو راہ راست اختیار کرنے پر مجبور کردیں گے۔