میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیپا نے سابق سیکریٹری آبپاشی کی اہم رپورٹ سرد خانے کے نذر کردی

سیپا نے سابق سیکریٹری آبپاشی کی اہم رپورٹ سرد خانے کے نذر کردی

ویب ڈیسک
منگل, ۷ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سیپا نے سابق سیکریٹری آبپاشی کی اہم رپورٹ سرد خانے کے نذر کردی، سابق سیکریٹری نے صنعتوں پر جرمانے کی وصولی ڈی جی سیپا سے واپس لے کر اضلاع کے انچارجز کے حوالے کرنے کی سفارش،ڈی جی سیپا نعیم مغل اپنے فرنٹ مین اور چہیتے افسران کے ذریعے کروڑوں روپے وصولی کرنے لگے۔ جراٗت کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر قائم کی گئی جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی واٹر کمیشن کی سفارش حکومت سندھ کے اہم اور قابل افسر سابق سیکریٹری جمال مصطفی سید کی سربراہی میں کمیشن قائم کی گئی، سابق سیکریٹری آبپاشی جمال مصطفی سید کو سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کی کارکردگی اور قوائد کا مکمل جائزہ لے کر سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی ۔سابق سیکریٹری آبپاشی جمال مصطفی سید نے سفارشات مرتب کرتے ہوئے تحریر کیا کہ سیپا سب سے پہلے ایکٹ کے تحت قوانین اور اختیارات کا مکمل جائزہ لے، ابتدائی ٹاسک ایکٹ کے تحت ہی مکمل کئے جائیں، سیپا کے پاس کراچی سمیت سندھ بھر کی صنعتوں کے تمام تفصیلات ہونے چاہئیں ، مکمل ڈیٹا اکٹھی کی جائے کہ کون سے صنعتوں نے سیپا کے احکامات پر عملدرآمد کیا ہے اور کون سی صنعتوں نے سیپا کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے، سیپا ایکٹ کے سیکشن 34 کے تحت صنعتوں پر جرمانے کی وصولی ڈائریکٹر جنرل (سیپا) کراچی سمیت سندھ بھر کے اضلاع کے انچارجز کے حوالے کریں، جوڈیشل میجسٹریٹ کی تعیناتی کے علاوہ سیپا ایکٹ کے اہم حصہ پر عملدرآمد ممکن نہیں، ڈائریکٹر جنرل (سیپا ) ماحولیاتی جائزے (ای آئی اے، آئی ڈبل ای) کے تمام کیسز کی صرف نگرانی کریں ، ای آئی اے اور آئی ڈبل ای کے کیسز کے لئے ماہرین اور فرمز منتخب کرنے کے موجود ہ طریقہ کار کوتبدیل کیا جائے۔ سیپا کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت سندھ کے کیڈر افسر اور سابق سیکریٹری جمال مصطفی سید کی اہم رپورٹ پر ڈائریکٹر جنرل سیپا نعیم احمد مغل نے عملدرآمد نہیں کیا اور رپورٹ ڈسٹ بن کے حوالے کردی ہے، ڈی جی سیپا نعیم مغل صنعتوں پر جرمانے کی کروڑوں وصولی اپنے چہیتوں ڈپٹی ڈائریکٹر کامران کیمسٹ، ڈپٹی ڈائریکٹر منیر عباسی اور سابق فرنٹ مین محمد حبیب اللہ کے ذریعے کرتے رہے ہیں، کراچی سمیت سندھ بھر کی صنعتوں کے صحیح اعداد وشمار اکھٹے نہیں کئے گئے اور سیپا کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے والی صنعتوں کی بھی کوئی ڈیٹا موجود نہیں جس کے باعث سیپا ایکٹ 2014 عملی طور پر صرف کرپشن سسٹم کی وصولی کے لئے نافذ ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں