فرانس میں توہین رسالتﷺ کا گھنائوناکاروبار
شیئر کریں
اظہاررائے کی آزادی کے نام پرآج دنیا میں جو ظلم اور ناانصافی ہورہی ہے ، اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔المیہ یہ ہے کہ اس کا سب سے بڑا نشانہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے وہ مسلمان ہیں جو اپنے مذہب اور عقیدے کے پابند ہیں اور شعائر اسلام سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے پیارے نبیﷺسے جو والہانہ محبت اور عقیدت ہے‘ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا اس حقیقت کو جانتی اور سمجھتی بھی ہے، لیکن اس کے باوجود آئے دن ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں حضرت محمدﷺ کی شان میں جان بوجھ کر گستاخی کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے صبر وضبط کا امتحان لیا جاتاہے۔ عام طور پر مسلمان اپنے نبیﷺ کی پیروی کرتے ہوئے ایسے واقعات پر صبر وضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن کہیں کہیں ان کے صبر کا پیمانہ اس وقت چھلک بھی جاتا ہے جب کوئی جان بوجھ کر ان کے جذبات کو چھلنی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا ہی واقعہ گزشتہ دنوں فرانس میں پیش آیا، جہاں ایک اسکول ٹیچر نے اظہار رائے کی مثال کے طور پر طلباء کو توہین رسالتﷺ پر مبنی وہ کارٹون دکھائے جن پر ماضی میں پوری دنیا کے اندر ایک طوفان برپا ہوچکا ہے اور خودفرانس میں اس معاملے پر خونریزی بھی ہوچکی ہے۔
اسکول ٹیچر کی دریدہ دہنی سے مشتعل ایک مسلم نوجوان نے اس کا سر قلم کردیا۔ جوابی کارروائی میں پولیس نے اس نوجوان کو بھی گولی مارکر ہلاک کردیا۔ لیکن اس واقعہ پر فرانس کے صدر میکرون نے اشتعال انگیز رویہّ اختیار کیا۔انھوں نے نہ صرف اس واقعہ کو اسلامی دہشت گردی قرار دیا بلکہ مقتول ٹیچر کے جنازے میں شرکت کرکے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کچھ ایسی باتیں کہیں جوان کی مسلم دشمن ذہنیت کی ترجمان تھیں۔ اس کے بعد پوری مسلم دنیا میںفرانس اور صدر میکرون کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا اور مسلمان ناموس رسالتﷺکی خاطر بے تحاشا سڑکوں پر نکل آئے۔ سب سے بڑا احتجاجی جلوس بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہ میںبرآمد ہوا اور مسلم ملکوں میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہوگیا۔ سعودی عرب ، ترکی اور پاکستان جیسے ملکوں نے فرانس کے رویے کی شدید مذمت کی اور میکرون کے خیالات کو مسترد کردیا۔اس کے بعد دنیا دوحصوں میں بٹ گئی۔ ایک وہ یوروپی ممالک ہیں جو اس معاملے میں فرانس کی پشت پر ہیں اور دوسرے وہ مسلم ممالک ہیں جو فرانس کے رویے سے نالاں ہیں۔
ہندوستان میں بھی فرانس کے واقعہ کا شدید رد عمل ہوا اور عید میلادالنبیﷺ کے موقع پر نماز جمعہ کے بعد تمام شہروںمیں مسلمانوں نے احتجاجی جلوس نکالے۔ لیکن سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے ہندوستان نے اس معاملے کو دہشت گردی سے جوڑکر فرانس کی اندھی حمایت کا اعلان کردیاہے۔پہلے وزارت خارجہ نے میکرون کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور اس کے اگلے روزخود وزیراعظم نریندر مودی میدان میں آئے۔المیہ یہ ہے کہ حکومت ہند نے اس معاملے میں فرانس کے موقف کی تو تائید کی لیکن خود اپنے ملک میں آبادکروڑوں مسلمانوں کے جذبات کا کوئی خیال نہیں رکھا۔یہ پہلا موقع ہے کہ مودی حکومت مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے اس حد تک بے پروا نظر آرہی ہے‘ ورنہ ماضی کی حکومتوں نے ہمیشہ مسلم جذبات کو پیش نظر رکھ کر ہی اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ90 کی دہائی میں جب سلمان رشدی کا شرانگیز ناول ’ شیطانی آیات‘ منظر عام پرآیاتھا تو ہندوستان پہلا ملک تھا جس نے مسلمانو ںکے زخمی جذبات کا خیال کرتے ہوئے سب سے پہلے اس پر پابندی لگائی تھی۔ مگر آج جس پارٹی کے ہاتھوں میں ملک کا اقتدار ہے ، اس کے بارے میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچ رکھتی ہے اور مسلم مخالف طاقتوں سے اس کی قربتوں کا راز کیا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ان لوگوں کی طرف سے اظہاررائے کی آزادی کے نام پر فرانس کی حمایت کی جارہی ہے جنھوں نے ایم ایف حسین جیسے مایہ نازپینٹر کا جینا حرام کردیا تھا۔ ہندو دیوی دیوتائوں کی عریاں پینٹنگ بنانے کے ’ جرم‘ میں ایم ایف حسین کے خلاف ایسی گھنائونی مہم چلائی گئی کہ انھیں جلا وطنی اختیار کرکے قطر میں پناہ لینی پڑی اور دیارغیر میں ہی ان کی موت واقع ہوئی۔ ایم ایف حسین کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ عالمی شہرت یافتہ پینٹر تھے اور انھوں نے پوری دنیا میں ہندستان کا سربلند کیا تھا۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ فرانس میں توہین رسالت ﷺکے جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے بلکہ وہاں مسلسل اس قسم کے تکلیف دہ واقعات رونما ہورہے ہیں اور وہاں اس کو باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دے دی گئی۔فرانس یوروپ کا اکلوتا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ فرانس میںان کی آبادی پچاس لاکھ ہے جو کسی بھی یوروپی ملک سے زیادہ ہے۔ یہ تعداد فرانس کی آبادی کا دس فیصد ہے اور یہ لوگ کہیں باہر سے آکر فرانس میں آباد نہیں ہوئے ہیں بلکہ یہاں کے اصل باشندے ہیں۔ فرانس میں اسلاموفوبیا کا رواج نیا نہیں ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ2005میں پیرس میں عوامی مقامات پرمسلم خواتین کے حجاب پہننے پر اعتراض کیا گیااور اس معاملہ پر تصادم کی نوبت آئی۔یہ معاملہ اتنا آگے بڑھا کہ2010 میں فرانس میں حجاب پر پابندی عائد کردی گئی۔اس کے بعد2011 میں فرانسیسی میگزین ’ چارلی ہبدو‘ نے رسول اللہﷺ کے کارٹون بنانے کی جرات کی، جس سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی اور اس گھنائونی حرکت کے خلاف مسلمانوں نے عالمگیر سطح پر احتجاج درج کرایا۔ 2015 میں ’ چارلی ہبدو‘ کے دفتر میں داخل ہوکر حملہ آوروں نے توہین آمیز کارٹونس بنانے والے12 لوگوں کا کام تمام کردیا۔اس کے بعد پیرس اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوئی دہشت گردانہ کارروائیوں سے پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ ظاہر ہے یہ واقعات اس بات کے متقاضی تھے کہ فرانس ان سے سبق حاصل کرتا اور اہانت رسولﷺ کے خلاف کوئی موثر قانون وضع کرکے ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتا جو جان بوجھ کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کررہے تھے۔لیکن فرانس نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا اور اب تو حد یہ ہوئی کہ موجودہ صدر میکرون نے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی اور اس واقعہ کا الزام اسلام اور مسلمانوں کے سرمنڈھ دیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فرانس میں ایک اسکول ٹیچر کا قتل اور اس کے بعد چرچ میںتین بے گناہوںکی ہلاکت دراصل فرانسیسی حکومت اور صدر میکرون کی اشتعال انگیزی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے جان بوجھ کر حالات کو خراب کیا ہے۔ اگر ان میں ذرا بھی سوجھ بوجھ ہوتی تو وہ ان لوگوں کی مذمت کرتے جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے مسلسل کھلواڑ کررہے ہیں، لیکن انھوں نے اس انتہائی سنگین معاملے کو اظہاررائے کی آزادی سے جوڑ کر اپنی بندوق کا رخ الٹا ان مسلمانوں کی طرف موڑ دیاجن کے جذبات کو چھلنی کیا گیا تھا۔ یوروپ نے بھی ان کے اس اقدام کی تائید کرکے آگ میں تیل ڈالنے کاکام کیا۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے اس معاملہ میں میانہ روی اختیار کی اور انصاف پر مبنی موقف اختیار کیا۔اقوام متحدہ کے ’ تہذیبوں کے اتحاد‘ سے متعلق یونٹ کے سربراہ میگول نے کہا کہ ’’ ایک مذہب کے عقائد پر حملہ کیا گیاجس نے بے گناہ شہریوں کو تشدد کی کارروائیوں پر اکسایا۔‘‘ انھوں نے خبردار کیا کہ’’ مذاہب اور مقدس شخصیات کو نشانہ بنانے جیسے اقدامات سے نفرتیں جنم لیتی ہیں‘جو معاشرے کی تقسیم اور شدت پسندی کو ہوا دیتی ہیں۔‘‘انھوں نے یہ بھی کہا کہ’’ دنیا میں امن اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کے لئے مذاہب کاباہمی احترام بہت ضروری ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ’’ آزادی اظہار کا استعمال اس انداز میں ہونا چاہئے جس میں مذاہب ، ان کی تعلیمات اور اصولوں کا احترام بھی ملحوظ رکھا گیا ہو۔
آج پوری دنیا کے اندر اسلاموفوبیا تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ فرانس کا تازہ واقعہ اس کی مثال ہے۔صدر میکرون جان بوجھ کر اشتعال پھیلانے کے مجرم ہیں، لیکن اس مرحلہ میںمسلمانوں کو صبر وضبط سے کام لینا چاہئے اور مشکل دور میں اسلامی تعلیمات اور قرآن سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔کیونکہ فرانسیسی حکومت اور صدر میکرون کا طرزعمل واضح طور پر فرانسیسی باشندوں میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کوروکنے کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔اسلام اس وقت پورے یوروپ میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلا موفو بیا کا شکار طاقتیں مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کررہی ہیںاور یہ واضح طورپر اسلام کی توسیع واشاعت میں رکاوٹ کھڑی کرنے کا حربہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔