میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
صدر ٹرمپ اور امریکی معاشرے میں سیاسی دوری

صدر ٹرمپ اور امریکی معاشرے میں سیاسی دوری

ویب ڈیسک
هفته, ۷ نومبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

لین ویورک
۔۔۔۔۔۔

مہمان کالم

اب تک امریکا میں بسنے والے سب لوگ یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو خواتین کے ساتھ کوئی مسئلہ ضرور ہے۔ نہ صرف مضافاتی خواتین کے ساتھ بلکہ ہر عمر، نسل اور ہر تعلیمی معیار کی خواتین کے ساتھ انہیں کوئی نہ کوئی مسئلہ رہتا ہے۔ اور ہر پول میں یہی انداز دیکھنے میں آیا ہے مگر عام لوگوں کی سوچ کے برعکس شاید اس صنفی دوری کا تعلق صدر ٹرمپ سے نہ ہو۔ اس الیکشن میں تو اس دوری کی اہمیت پر مزید کھل کر بات کی جا سکتی ہے۔ سب سے معنی خیز ا سٹوری ہمیں 2016 سے 2020ء کی درمیانی مدت میں ملتی ہے۔ پولز سے پتا چلتا ہے کہ خواتین کے تمام گروپس اب ٹرمپ کے اتنے حامی نہیں رہے جتنے وہ 2016ء کے الیکشن میں تھے۔ اس وقت جب پوری قوم الیکشن رزلٹس کا انتظار کر رہی ہے‘ آئیے دیکھتے ہیں کہ خواتین کے ان گروپس کا رجحان کس طرف رہا ہو گا؟
تحریک نسواں: خواتین کئی دہائیاں پہلے یعنی 1980ء کے عشرے سے ہی ریپبلکن صدارتی امیدواروں سے ایک فاصلہ رکھ رہی ہیں۔ اس لیے اس وقت صنفی طور پر ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘ 2020ء کے الیکشن بھی اسی دیرینہ تحریک کا تسلسل ہے۔ مردوں اور خواتین کا عدم توازن تمام سیاسی جماعتوں میں نظر آتا ہے۔ سیاسی پہچان میں پائی جانے والی صنفی خلیج اس صدارتی الیکشن میں بھی صدر ٹرمپ پر اثر انداز ہوتی محسوس ہو رہی ہے مگر یہ رجحان ان کے صدر بننے سے پہلے بھی موجود تھا۔ 2008ء کے الیکشن میں 56فیصد خواتین اور 49فیصد مردوں نے براک اوباما کو ووٹ دیا تھا مگر 2012ء کے الیکشن میں براک اوباما کے حق میں یہ صنفی خلیج 10فیصد بڑھ گئی تھی یعنی 55فیصد خواتین کے مقابلے میں 45فیصد مردوں نے انہیں ووٹ دیا تھا۔
2016ء کے الیکشن میں پولز کے مطابق ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کے مابین یہ صنفی فرق 13 پوائنٹس تھا۔ ڈیمو کریسی فنڈ اور UCLAنیشن سپیس پروجیکٹ نے جون 2020ء سے 22 اکتوبر کے درمیان ایک لاکھ سے زائد امریکی لوگوں کے انٹرویوز کیے تھے۔ اوسطاً رجسٹرڈ ووٹوں کے تناظر میں دونوں سیاسی جماعتوں میں یہ صنفی خلا 13 پوائنٹس رہا۔ حالیہ پولز میں بھی یہی انداز نظر آیا جو کم سے کم 8 پوائنٹس اور زیادہ سے زیادہ 16 پوائنٹس رہا۔ اس فرق کی سادہ سی وجہ یہی بیان کی جاتی ہے کہ زیادہ تر مرد ریپبلکنز ہیں اور زیادہ تر خواتین ڈیمو کریٹس ہیں۔ اسی طرح کا فرق ان لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے جو اپنے آپ کو کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ منسوب نہیں کرتے۔ پولز کرانے والی تنظیمیں ان غیر جماعتی لوگوں کا فالو اَپ جاری رکھتی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں اور ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کہ کیا وہ کسی ایک جماعت کی طرف جھکائو رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں‘ ان میں سے دو تہائی افراد بعد میں کسی جماعت سے وابستگی کا اظہار کر دیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جماعتی وابستگی رکھنے والے 90فیصد لوگ عام طور پر اپنی پسندیدہ جماعت کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔ یہی آزاد ووٹ ہر مرتبہ دستیاب ہوتے ہیں۔ یہی آزاد ووٹ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ 2020ء کی انتخابی مہم کیسی رہی؟
ان آزاد ووٹوں کا جھکائو جوبائیڈن کی طرف تھا۔ یہ آزاد ووٹ تما م رجسٹرڈ ووٹوں کا دس فیصد ہوتے ہیں۔ نیشن سپیس والوں نے جون تک دس ہزار لوگوں کا انٹرویو کیا تھا۔ یہ آزاد ووٹرز 2016ء کے مقابلے میں ٹرمپ میں کم دلچسپی رکھتے ہیں جو دس پوائنٹس ہے، ان میں ایسے بھی تھے جو ابھی تک فیصلہ نہ کر پائے تھے۔ انہیں امریکا کے ڈانواں ڈول ووٹرز کہا جاتا ہے اور اب ان کاجھکائو جو بائیڈن کی طر ف تھا۔ یہ غیر سیاسی ووٹرز زیادہ تر مضافاتی علاقوں میں رہتے ہیں اور اس کی سادہ سی وجہ ہے کہ آج کل زیادہ تر امریکی یہیں رہتے ہیں۔ ہماری نصف سے زیادہ آبادی مضافاتی علاقوں میں ہی رہائش پذیر ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ 2020ء کی انتخابی مہم کیسی رہی‘ آپ کو آزاد یا مضافاتی خواتین کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا۔ آپ کسی بھی الیکٹورل گروپ کو دیکھ سکتے ہیں۔ مرد اور خو اتین، آزاد، مضافاتی مرد و خواتین، 65سال سے زائد عمر کے لوگ‘ 2016ء کے مقابلے میں آج ٹرمپ کے کم حامی نظر آتے ہیں۔ امریکا کے دیہات میں بسنے والے ووٹرز میں بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے۔
نیشن سپیس ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ دیہات میں بسنے والے امریکی چھ پوائنٹس کے فرق سے ٹرمپ سے دور ہو گئے ہیں جو 2016ء میں 66فیصد تھے اب 60فیصد رہ گئے ہیں، خواتین میں یہ حمایت 54فیصد سے کم ہو کر 50فیصد رہ گئی ہے۔ یہ ڈیٹا ریپبلکنز میں بھی انتخابی فرق دکھاتا ہے۔ ٹرمپ کو صدارتی ووٹ دینے کے معاملے میں تو ان کی شرح بہت بلند ہے (ڈیموکریٹس کی جو بائیڈن کی شرح کے مقابلے میں) ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی جماعت کے اندر بھی وہ حمایت نہیں رہی جو 2016ء کے الیکشن کے موقع پر تھی۔ نیشن سپیس کے ساتھ انٹرویو میں 94فیصد ریپبلکنز کہتے ہیں کہ انہوں نے 2016ء کے الیکشن میں ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا۔ 2020ء میں یہ شرح کم ہو کر 91فیصد رہ گئی ہے۔ ریپبلکنز خواتین میں یہ شرح92فیصد سے کم ہو کر 90فیصد رہ گئی ہے۔
نیویارک ٹائمز، سینا کالج پولنگ اور دیگر سرویز سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہسپانوی نڑاد اور سیاہ فام ووٹرز میں سیاسی حمایت بڑھی ہے جبکہ سفید فام ووٹرز میں ان کی حمایت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جن ریاستوں میں 2016ء میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں کانٹے دار مقابلہ ہوا تھا‘ یہی ڈانواں ڈول ووٹ اس الیکشن میں صدر ٹرمپ کے خلاف جا سکتا ہے۔ آپ صنفی امتیاز یا خلیج کے بارے میں بہت کچھ سن چکے ہیں اور اگر صدر ٹرمپ اس الیکشن میں شکست کھا جاتے ہیں تو اس کے بارے میں آپ مزید بہت کچھ سنیں گے کہ کس طرح خواتین‘ مردوں کے مقابلے میں ریکارڈ تعداد میں جو بائیڈن کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکلی ہیں حالانکہ صدر ٹرمپ بار بار مضافاتی خواتین سے ووٹ کے لیے درخواستیں کرتے رہے ہیں مگر 2020ء کے الیکشن میں ووٹرز کے جذبات سے متعلق زیادہ دلخراش کہانی یہ ہے کہ صرف خواتین یا صرف مضافاتی خواتین ہی نہیں بلکہ تمام گروپس صدر ٹرمپ سے سیاسی طور پر 2016کے صدارتی الیکشن کے مقابلے میں زیادہ دور چلے گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں