میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹرمپ کا پہلا دورۂ ایشیا ، مقاصد کیا ہیں؟

ٹرمپ کا پہلا دورۂ ایشیا ، مقاصد کیا ہیں؟

ویب ڈیسک
منگل, ۷ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

گزشتہ ایک صدی کے دوران دنیا جس تیزی اور جس قسم کی تبدیلیوں کی زد میں آئی ہے عالم انسانیت نے اپنی گذشتہ تاریخ میں اس کا مشاہدہ نہیں کیا ہے۔ انسان کے وجود کے بعد ہزاروں برسوں سے قائم اس دنیا میں یہ سو برس اس انداز سے گذرے ہیں کہ ہر گذرتی دہائی عجائبات کا نیا پنڈورا کھول دیتی تھی اور تاحال یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے ۔ کیا یہ سب کچھـ’’ حادثاتی‘‘ طور پر ہوا؟
صلیبی جنگیں جو کئی سو سال جاری رہیں ان کا ابتدائی اعلان کرنے والا ایک رومن کیتھولک پوپ اربن ثانی تھا لیکن پہلی جنگی عظیم کے بعد جو 1918ء میں اختتام پذیر ہوئی اور سیکولر برطانیا کا جنرل ایلن بی بیت المقدس میں داخل ہوا اور اعلان کیا کہ آج صلیبی جنگوں کا اختتام ہوگیا، مذہب کے نام پر شروع ہونے والا صلیبی جہاد ایک سیکولر مغربی طاقت برطانیا کے مکمل غلبے سے اختتام پذیر ہوتا ہے !! کیا یہ سب کچھ ’’حادثاتی‘‘ تھا؟نیویارک میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور کو بلا کر 1917ء میںاسرائیلی صہیونی ریاست کے قیام کا اعلان کرایا جاتا ہے ، اسے بالفور ڈیکلریشن بھی کہتے ہیں اور اس کے بعد 1948ء تک یورپین یہودیوں کو اسرائیل ہجرت کرنے کی اجازت ملتی ہے ، ایک بات ذہن میں رہے یہ یورپین یہودی ہیں بنی اسرائیل نہیں، یورپین یہودی انہیں کہتے ہیں جن کا بنی اسرائیل سے کوئی نسلی یا جنیاتی تعلق نہیں بلکہ ساتویں صدی عیسوی میں انہوں نے پراسرار انداز میںیہودی مذہب قبول کرلیا تھا آج یہی یورپین گورے یہودی اسرائیل کی صہیونی ریاست کے اصل حکمران ہیں ، اس ریاست کے قیام کے فورا بعد ہی برطانیا کی جگہ امریکا نے دوسری عالمی حکمران ریاست کے طور پر اپنا منصب سنبھالا!! کیا یہ بھی ’’حادثاتی‘‘ طور پر تھا؟
اس کے بعد اسرائیل روز بروز امریکا اور یورپ کی مدد سے طاقت پکڑتا جاتا ہے اور آج وہ امریکا سے بھی بڑی سپر طاقت بن چکا ہے ، اس ماہ یعنی26اکتوبر کو برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’برطانیا کو اس بات پر فخر ہے کہ اس نے اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے کردار ادا کیا‘‘“We are proud of the role that we played in the creation of the State of Israel, and we will certainly mark the centenary with pride,” کیا برطانوی وزیر اعظم کا یہ قول بھی ’’حادثاتی‘‘ طور پر ہے؟
اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ یہ تمام معاملات جو ارض مقدس فلسطین میں ظاہر ہورہے تھے وجود میں نہ آتے اگر اس سے پہلے یورپ میں پراسرارطور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا نہ ہوتاکیونکہ انسانی تاریخ میں یہ انوکھا حیران کن انقلاب تھا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔کتنی عجیب بات ہے کہ کرہ ارض پربہت سی اقوام موجود ہیں لیکن یہ صنعتی اور سائنسی انقلاب صرف ایک قوم ہی سے صادر ہورتارہا۔۔۔۔اس سائنسی انقلاب کو مغرب نے عسکری ٹیکنالوجی میں تبدیل کیااور مغرب سے نکل کر باقی تمام دنیا پر قبضہ جماکر نوآبادیاتی نظام مسلط کردیا۔خلافت جو دین اسلام کا حصہ ہے اسے 1924ء میں مکمل طور پرختم کردیا گیا۔کیا یہ سب کچھ ’’حادثاتی‘‘ طور ہوا؟
ان مغربی طاقتوں نے نوآبادیاتی نظام اس وقت تک ختم نہیں کیا جب تک کچھ ’’اہم ‘‘کام نہیں کرلیے۔انہوں نے سب سے پہلے سونے اور چاندی کے سکے یعنی دینار اور درھم کو مارکیٹ سے ختم کیا اور اس کی جگہ اپنی کاغذ کی بوگس اور حرام کرنسی رائج کردی جس کا دین اسلام میں بھی تصور نہیں ہے۔ انہوں نے بین الالقوامی مانٹری فنڈ قائم کرکے باقی تمام دنیا پر پابندی عائد کردی کہ کوئی ملک سونے اور چاندی کو کرنسی کے طور پر استعمال نہیں کرسکے گا۔ اس طرح اس کاغذی کرنسی کی مدد سے دنیا کی دیگر اقوام کی معیشت اور قدرتی وسائل کو نشانے پر لے لیا۔اس طرح دنیا کا وہ حصہ جسے مغرب کہتے ہیںحیرت انگیز طور پر امیر در امیر ہوتا چلا گیااور باقی دنیا سب کچھ ہونے کے باوجود غربت کی لپیٹ میں آگئی ۔ مغربی دنیا جو دولت مند ہورہی تھی وہی اسرائیل کے وجود کی حمایت بھی کرتی تھی بلکہ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی لے لیا۔کیا یہ سب کچھ بھی ’’حادثاتی‘‘ طور پر تھا۔
یہی سب کچھ ستر کی دہائی کے بعد ہوا یعنی جنوب مشرقی ایشیا اور خلیجی عرب ممالک جو خاموشی سے اسرائیل کے وجود کی حمایت کررہے تھے یکایک دولت مند ہونا شروع ہوگئے۔لیکن جو ممالک اور جن کے عوام دین اسلام کی اقدار سے جڑے ہوئے تھے جیسے انڈونیشیا، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان وغیرہ غربت کی چکی میں پسنے لگے۔ کرنسی میں انقلاب کے علاوہ عالمی مارکیٹ میں بھی انقلاب لایا گیا اور تمام عالمی مارکیٹ کو سود سے نتھی کردیا گیا۔ یاد رہے سو سال پہلے تک عالمی تجارت میںسود رائج نہیں تھا بلکہ کئی صدیوں پہلے تک یورپ میں بھی سود میںلین دین جرم سمجھا جاتا تھاکیونکہ یہودی ساہو کار قرضوں کی بنیاد پر یورپین حکومتوں کو بھی غلام بناکر اپنی مرضی کے قوانین نافذ کروا لیا کرتے تھے جس کی بنا پر برطانیا، فرانس، سپین، اٹلی، جرمنی اور دیگر ممالک نے یہودیوں کو مختلف ادوار میں یورپ سے نکال دیا تھا لیکن بعد کی صدیوں میں یہ یورپین نام اختیار کرکے پھر سے یورپ میں آگئے اوریہی دھندہ انہوں نے بینک قائم کرکے پھر سے شروع کردیا جس کی وجہ سے پہلے یورپ اور آج باقی دنیا ’’غلامی‘‘ کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی شرائط وہی مانے گا جو غلام بن چکا ہو۔۔۔ کیا یہ سب کچھ بھی ’’حادثاتی‘‘ طور پر ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں معاشرتی انقلاب بھی لانا ضروری تھا صدیوں سے قائم ثقافتیں جڑ سے اکھڑ گئیں اب مشرق سے مغرب تک ایک ہی لباس نظر آتا ہے، ایک ہی جیسے نظام تعلیم مسلط کیے جارہے ہیں، ایک ہی جیسے شوق اور تفریحات ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ قرب قیامت عورت ایسا لباس پہنے گی مگر وہ برہنہ ہوگی۔۔۔ کیا آج ایسا ہونہیں رہا؟ کیا یہ بھی ’’حادثاتی‘‘ طور پر ہے؟
(جاری ہے )


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں