میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت کا مکروہ چہرہ اس کے کمیشن نے بے نقاب کردیا

بھارت کا مکروہ چہرہ اس کے کمیشن نے بے نقاب کردیا

ویب ڈیسک
منگل, ۷ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

بھارتی انسانی حقوق کمیشن نے اپنی حکومت سے مقبوضہ کشمیر میں 2080 اجتماعی گمنام قبروں کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔ ترجمان نے کہا نعشوں کا ڈی این اے کروا کے معلوم کیا جائے یہ افراد کون تھے؟ اجتماعی قبروں کی تحقیقات 6 ماہ میں مکمل کی جائے۔ اجتماعی قبروں میں باقیات کا ڈی این اے لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے میچ کرایا جائے۔ لاپتہ افراد کی تنظیم نے کمشن کو نشاندہی کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کنٹرول لائن کے قریب 3 ہزار 844 گمنام قبریں موجود ہیں۔ 2717 پونچھ، 127راجوڑی میں ہیں 8 ہزار سے زائد افراد لاپتہ، قابض فوج جعلی مقابلوں میں بے گناہوں کو شہید کر دیتی ہے۔دریں اثناء￿ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایک بار پھر اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مذاکرات کار دنیشور شرما کو مسئلہ کشمیر پر فریق منتخب کرنے کی آزادی ہے۔انہوں نے کہا مذاکرات کار کو بات چیت کا مینڈیٹ دیا گیا ہے ،انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے یہ دنیشور شرما ہی طے کریں گے، انہیں کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ایک انٹر ویو میں راج ناتھ سنگھ نے کہا د نیشور شرما کوپوری آزادی ہے کہ کس سے بات کریں اور کس سے نہیں۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا د نیشور شرما بھارتی سرکار کے نمائندے ہیں، انہیں وہاں بندھے ہاتھ نہیں بھیجا گیا،کسی بھی ممکنہ نتائج پر پہنچنے کے لیے انہیں مکمل آزادی فراہم کی گئی ہے۔وزیر داخلہ نے کہا میں جانتا ہوں کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جسے صرف طاقت، چاہے وہ پولیس ہو یا فوج کے ذریعے حل کیا جا سکے۔ لوگوں کی شکایتوں کو بھی سننا چاہئے تب ہی انہیں دور کیا جا سکتا ہے،ہم انہیں سلجھانے کی کوشش کریں گے۔راج ناتھ سنگھ نے حریت رہنمائوں کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ شرما صرف آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے نامزدنہیں ہوئے ہیں۔پاکستان کے بارے میں انہوں نے کہا ہم پاکستان پر امن قائم کرنے کا دارومدار نہیں رکھتے۔پاکستان ہمارا ہمسایہ ہے،اسے بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور رہے گا۔
مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے متنازعہ ماناتبھی اس پر اقوام متحدہ میں منظور ہونیوالی استصواب کی قراردادوں کو تسلیم کیا مگر ان پر عمل کرنے کے حوالے سے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہ کرنا دنیا کے سب سے بڑے ادارے کی توہین ہے۔ بھارت نے متنازعہ علاقے کو آئین میں ترمیم کرکے صوبے کا درجہ دیدیا جو اقوام متحدہ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے کہ جو کرنا ہے کر لو! مگر اقوام متحدہ مصلحتوں سے کام لیتے ہوئے اپنی توہین تضحیک اور تحقیر برداشت کیے جا رہی ہے۔ اٹوٹ انگ کا راگ بھارتی حکمرانوں کے پکے راگ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اب تو آزاد کشمیر اور گلگت، بلتستان پر بھی بھارت اپناحق جتلانے لگا۔ اگر بھارت متنازعہ علاقوں کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے تو اب تک جامع مذاکرات کے کئی ادوار کا خود اہتمام اور انعقاد کر چکا ہے۔اگرچہ ایسے مذاکرات کا اہتمام کرکے خود ہی مذاکرات کی ٹیبل الٹتا رہا ہے۔ بنیئے کے دماغ میں عیاری، مکاری اور فریب کاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ منافقت اس کا ٹریڈ مارک اور بے رحمی اس کی سرشت میں شامل ہے۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم اور بربریت اس کی انسانیت کے خلاف جرائم اور بے رحمی کی بھیانک مثالیں ہیں۔
مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے حوالے وہ اور گوئبل سے بڑھ کر جھوٹااور بے بنیاد پراپیگنڈہ کر کے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کئی ممالک بھارت کی شاطرانہ سفارتکاری اور لغو پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کہہ رہے ہیں حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کشمیریوں کو اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کا حق حاصل ہے۔ بھارت کشمیریوں کو آزادی کے لیے جانوں کے نذرانے دینے پر دہشت گرد قرار دیتا ہے اور اسی حوالے سے پاکستان کو دہشتگردوں کا پشت پناہ قرار دے کر دنیا بھر میں بدنام کرنے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی جدوجہد کی اخلاقی و سفارتی حمایت کی ہے۔ بھارت اس پر انگاروں پر لوٹتا نظر آتا ہے۔کشمیریوں کے ساتھ اس کا ’’حسن سلوک‘‘ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، سات لاکھ مسلح فوج کشمیریوں کی آزادی کی آواز دبانے کے لیے ظلم کا ہر حربہ اختیار کر رہی ہے۔ مقبوضہ وادی میں چادر اور چار دیواری کا تحفظ عنقا ہے۔ آزادی کے لیے سرگرم نوجوانوں کو اغوا کے بعد بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر زندگی بھر کے لیے معذور کردیا جاتا ہے جو تشدد کے دوران شہید ہو جائیں ان کو اجتماعی قبروں میں دفن کردیا جاتا ہے اب تک 2100اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں جن کی تحقیقات کے لیے بھارت کے انسانی حقوق کے سرکاری کمیشن نے6ماہ میں تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ بعید نہیں کہ مزید کتنے موت کے ایسے کنویں موجود ہوں جن میں بھارتی سفاک سپاہ کے ہولناک تشدد کا نشانہ بننے والے کشمیری مائوں کے سپوت ابدی نیند سلا دیئے گئے ہیں۔آٹھ ہزار لاپتہ ہونیوالوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کہاں ہیں؟
دنیشور کو بھارت نے مقبوضہ وادی میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ان کی طرف سے دنیشور کی تعیناتی کو دنیا کی آنکھوں میں دھو ل جھونکنے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔ راج ناتھ باور کرا رہے ہیں کہ دنیشور کو پورے اختیارات تفویض کرکے مقبوضہ کشمیر بھیجا گیا۔ وہ مذاکرات کے خود فریقین کا تعین کر سکیں گے۔ حریت قیادت دنیشورکی حیثیت کو مانتی ہے اور نہ اس کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ یوں دنیشور پہلے روز سے متنازعہ حیثیت اختیار کر گئے۔ کشمیریوں کو دامِ الفت میں لانے کے لیے بھارت کا یہ ’’پھوکا‘‘ فائر ثابت ہوا ہے۔متنازعہ علاقہ ہے جس کے پاکستان، بھارت اور کشمیری تین فریق ہیں۔مسئلہ کے حل میں کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
راج ناتھ دنیشور کے اختیارات کی بات کرتے ہیں کیا دنیشور کو کشمیریوں کے بنیادی مطالبے آزاد ی پر بات چیت کرنے کا اختیار دیا گیا ہے؟ ایسا اختیار تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمنٹ اپنے وزیراعظم کو دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ منموہن سنگھ نے اپنے پاکستانی ہم منصب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو شرم الشیخ میں مذاکرات کے دوران کچھ یقین دہانیاں کرائی تھیں، وعدہ کیا تھا کہ بھارت جا کر وہ یوسف رضا گیلانی کے تحفظات پر بات کریں گے وہ بھارت واپس پہنچے تو پارلیمان میں ان کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ دنیشور کی وزیراعظم کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے؟ وہ بھارت نواز کشمیریوں کی شکایات ضرور دور کر سکتے ہیں۔ آزادی پسندوں کے مطالبات پر وہ گنگ ہی رہیں گے۔بھارتی انسانی حقوق کمیشن کا 2080اجتماعی قبروں کی موجودگی کا اعتراف عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے اور یہ بھارت کے انسانیت کے حوالے سے مکروہ اور سیاہ چہرے کی رونمائی بھی ہے۔ اس کے بعد بھی عالمی برادری کو کیا بھارتی بربریت کے مزید ثبوتوں کی ضرورت ہے؟ بھارتی انسانی حقوق کمیشن نے اپنی حکومت سے چھ ماہ میں تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ چھ ماہ میں تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں مگر بھارتی حکومت اور اس کی تحقیقات پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تحقیقات اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے تحت ہونی چاہئیں۔ جس میں انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم عالمی تنظیموں کو شامل کیا جائے۔بھارت نے اپنے مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مقبوضہ کشمیر میں داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس پابندی کے خاتمے کے لیے ایک سفارتی مہم کی ضرورت ہے۔ یہ تنظیمیں مقبوضہ وادی میں صورتحال کا جائزہ لے کر مجوزہ عالمی کمیشن کی معاونت کریں تو قابل اعتبار رپورٹ سامنے آ سکتی ہے۔بھارتی انسانی حقوق کمیشن کا 2080اجتماعی قبروں کا اعتراف کشمیر کاز کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ذریعے بھارت کا مکروہ چہرہ عالمی برادری کے سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ راج ناتھ نے درست کہا کہ کوئی بھی مسئلہ پولیس اور فوجی طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اسے ان کی سادہ لوحی کہیں یا عیاری کہ مقبوضہ وادی میں طاقت کا انسانیت کو شرما دینے والا استعمال کیا جا رہا ہے۔
(تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں