اسلام آباد: پاناما لیکس اور ڈان لیکس ....محفل محفل موضوع بحث
شیئر کریں
انوار حسین حقی
ملک کے دیگر حصوں کی طرح وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بھی روز مرہ کی گفتگو پاناما لیکس کیس اور ڈان لیکس کے گرد گھومنے لگی ہے ۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ میں پاناما لیکس پر عمران خان ، سراج الحق اور شیخ رشید احمد کی درخواستوں پر سماعت کے دوران وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بچوں کی جانب سے جواب داخل کیے جانے کے بعد سماعت 15 نومبر تک ملتوی کر دی گئی ہے ۔ لیکن اسلام آباد کے سرکاری، سیاسی اور بیوروکریسی کے حلقوں میں نہ صرف سنسنی بر قرار ہے بلکہ سیاسی تناو¿ میں بھی اضافے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی رہائش گاہ ” بنی گالہ “ پاناما لیکس کے حوالے سے وزیر اعظم مخالف سرگرمیوں کا مرکز بنی ہوئی ہے جبکہ وزیر اعظم ہاوس میں میاں نواز شریف اور ان کے معاونین کی ٹیم معاملے سے نمٹنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے ۔ دونوں جانب سے معاملے کو بہتر انداز میں نمٹنے کی خواہش اور کوششوں کا اظہار سامنے آ رہا ہے ۔ مبصرین اور تجزیہ نگار پاناما لیک پر قانونی جنگ کو فریقین کے مابین ایک اعصاب شکن معرکہ قرار دے رہے ہیں ۔ اس معاملے کے انجام کے پاکستان کی قومی سیاست پرمختلف نوعیت کے اثرات مرتب ہوں گے ۔
سیاسی، قانونی حلقوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور عام آدمی بھی اس معاملے میں بہت زیادہ دلچسپی لیتا نظر آتا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں کے درمیان جگہ جگہ بحث مباحثوں کا سلسلہ زور پکڑتا نظر آرہا ہے ۔ وفاقی دارالحکومت کے خنک ہوتے موسم میں سیکورٹی لیکس کے معاملے کی گرمی بھی صاف دکھائی دیتی ہے ۔ ڈان لیکس کے معاملے پر سابق وزیر اطلاعات کی قربانی کے بعد معاملے سے ان کی بریت کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں ، حکومت نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن کے قیام کا جو اعلان کیا ہے سیاسی جماعتوں کی جانب سے اُس پر شدید قسم کے تحفظات سامنے آئے ہیں ۔
قومی سیاست اور روز مرہ کے معاملات میں کلیدی موضوع کی حیثیت اختیار کرنے والے دونوں لیکس موضوعات میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اس حوالے سے ہر کسی کی اپنی اپنی اطلاعات اور نقطہ نظر کے حوالے سے تبصرے جاری ہیں ۔ ان دونوں معاملات نے قومی زندگی کے معمولات کو بری طرح الجھایا ہوا ہے ۔ عمران خان کی جانب سے احتجاج موخر کرنے کے اعلان کے بعد قومی زندگی میں ٹہراو¿ پیدا ہونے کی جو اُمید کی جارہی تھی۔ عملاً اُسکے اثرات نظر نہیں آر ہے ہیں ۔
خیبر پختونخواحکومت کی جانب سے سی پیک پر اپنے تحفظات کے ہمراہ عدالت کا دروزاہ کھٹکٹانے کے اعلان نے وفاقی حکومت کو نئی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے ۔ خیبر پختونخوااسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے پشاور ہائی کورٹ میں سی پیک کے مغربی روٹ کے حوالے سے رٹ دائر کر دی ہے ۔ اسد قیصر نے پشاور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ” سی پیک پورے پاکستان کا منصوبہ ہے تحفظات دور کرنے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ۔خیبر پختونخوا کی حکمران جماعت پی ٹی آئی اور اے این پی سمیت تمام جماعتوں کو سی پیک کے مغربی روٹ کے حوالے سے اعتراضات ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اعتراضات وفاقی حکومت سمیت تمام متعلقہ فورم پر متعدد بار اُٹھائے گئے لیکن حکومت نے اس طرف کو ئی توجہ نہیں دی ۔
جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں اس منصوبے کا آغاز ہوا تھا ، آصف علی زرداری کے دورِ صدارت میں اس کے خدوخال واضح ہوئے اور اسے ” کاشغر گوادر اکنامک اینڈ پاور کوریڈور“ کا نام دیا گیا اُس وقت اس کے مغربی روٹ میں خنجراب، گلگت ، بلتستان ، شاہراہِ قراقرم، تھا کوٹ، بٹگرام، مانسہرہ ، ایبٹ آباد ، حویلیاں ، ہری پور، صوابی ، اور ایم ون سے پشاور کے علاقے شامل تھے ۔ ۔ لیکن موجودہ حکومت بر سرِ اقتدار آنے کے بعد اس روٹ میں کیپٹن صفدر اور مولانا فضل الرحمن کی منشاءکے مطابق تبدیلی کر دی گئی ۔
صوبہ سرحد کے وزیر مال علی امین گنڈاپور نے ”جرات “ کو بتایا ہے کہ پاک چائنہ کوریڈور کے تبدیل شدہ روٹ کی حتمی منظوری سے پہلے وفاقی حکومت نے کیپٹن صفدر کے ہمراہ مولانا فضل الرحمن کو اس منصوبے کا فضائی جائزہ لینے کے لیے ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیا تھا ۔ سی پیک پر وفاقی حکومت نے جس طرح مولانا فضل الرحمن کی خواہشات کا خیال رکھا ہے اور صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور دوسری مو¿ثر قوت اے این پی کو جیسے نظر انداز کیا وہ کسی بھی وفاقی حکومت کو زیب نہیں دیتا ۔ اس منصوبے کے مغربی روٹ پر صوبہ کے پی کے میں بہت زیادہ تحفظات پائے جاتے ہیں ۔
کے پی کے کی حکومت کی جانب سے سی پیک کے منصوبے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے معاملے پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی جانب سے یہ کہنا کہ اس سے خود کے پی کے کی حکومت کے مشکلات پیدا ہوں گی خاصا معنی خیز ہے ۔
اسلام آباد کے سیاسی اور سفارتی منظرنامے پر لیکس کے معاملات اور سیاسی سرگرمیاں چھائی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے ہونے والی شر پسندی اور کشمیر میں بھارتی مظالم کا معاملہ پس منظر میں جاتا نظر آ رہا ہے گذشتہ دنوں حریت لیڈر یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کی جانب سے کیا جانے والا مظاہرہ بھی پاکستا نی حکومت اور قوم کی جانب سے بھر پور توجہ حاصل کرنے میںناکام رہا ۔
ملک کی سیاسی صورتحال میں موجود کشیدگی اور تناو¿ قومی معاملات کو بُری طرح متاثر کر رہا ہے ۔ ملک کے تمام اداروں اور طبقات کو صورتحال کو مثبت رنگ دینے کے لیے اتحاد و اتفاق کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا ۔