کراچی” ٹارگٹ کلر“ کے نشانے پر
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
کراچی جو کبھی امن و امان کا گہوارہ کہلاتا تھا اب تقریباً کم و بیش 35 برسوں سے بد ترین خون ریزی ،دہشت گردی ،لوٹ مار ، بھتا خوری ، چوری چکاری ، ڈاکا زنی اور مختلف قسم کی سماج دشمن سرگرمیوں اور جرائم کی لپیٹ میںہے اور ہمہ وقت ” ٹارگٹ کلر“ کے نشانے پر رہتا ہے ۔
گزشتہ سے جمعے کے روز محض ایک گھنٹے کے دورانیے میں 6 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ،سب سے پہلے تو اہل سنت والجماعت کے 3 کارکن شاہد ، یعقوب اور عثمان حیدری جو تحفظ حرمین ریلی سے واپس آرہے تھے شفیق موڑ پر ان پر فائرنگ کی گئی جس سے وہ شدید زخمی ہوئے اور ابھی انہیں ہسپتال پہنچایا ہی جا رہا تھا کہ وہ راستے میں ہی اپنا دم توڑ گئے ،اسی طرح پٹیل پاڑہ کے علاقے میں بلوچستان کے رہائشی عبد الباقی اور محمد امین موٹر سائیکل سوار محو سفرتھے کہ فائرنگ کرکے ان کی زندگی کا چراغ گل بھی کردیا گیا ۔تیسرا واقعہ ناظم آباد میں حیدری مارکیٹ کے قریب پیش آیا جہاں نامعلوم ا فراد کی فائرنگ سے ایک شخص کو قتل کردیاگیا ۔
تحقیقاتی حکام کے انکشاف کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کے ان تینوں واقعات میں ایک ہی گروپ کے افراد ملوث ہیں اور تینوں مقامات پر ایک ہی طرزکاپستول استعمال کیا گیاہے ، نیزقاتلوں کی واردات کا انداز وہی نائن ایم ایم پسٹل سے راہ چلتے عام شہریوں کے سروں ، چہروں اور سینوں پر گولیاں مارکر راہِ فرار اختیار کرنا تھا۔
کراچی اس وقت دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک بڑا شہرہے ، اس لیے اسے بڑھتی ہوئی آبادی ، آلودگی ، غربت ، دہشت گردی اور جرائم جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے ، چنانچہ کراچی جو گزشتہ کئی برسوں سے اپنے گوناگوں بد سے بدتر حالات سے نکل کر خوش گوار اور پر امن حالات کی طرف سفر کر رہا تھا ،4دن پہلے کے قتل و غارت کے ان شرم ناک واقعات سے بری طرح چِلا اٹھا ہے۔
2013 ءمیں جب پولیس کراچی میں امن و امان قائم کرنے میں ناکام ، مافیاز پر قابو پانے میں بے بس اور جتھوں کو کنٹرول کرنے میں مغلوب ہوگئی تھی، تو اس وقت تمام سیاسی جماعتوں( بشمول ایم کیو ایم )کی طرف سے رینجرز آپریشن کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تھا، چنانچہ جب رینجرز کا بلا امتیاز و بلا تفریق آپریشن شروع ہوا اور مختلف قسم کے جرائم پیشہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عمل وجود میں آیا تو کراچی کا لُوٹا ہوا امن و امان دوبارہ اس کی طرف لوٹ کر آنے لگا ، مافیاز اپنا دم توڑنے لگیں ، بھتا خوروں کا شیرازہ بکھرنے لگا اور یوں کراچی شہر ایک بار پھر امن و امان کا گہوارہ بن گیا تھا۔
اس میں شک نہیں کہ کراچی میں قیام امن کے لیے رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنا مو¿ثر کردار ادا کیا ، اَن تھک کوششیں کیں اور بے پناہ قربانیاں دیں ، جس کی وجہ سے گزشتہ دو سال کے دوران عوام کے اندر جان و مال کے تحفظ اور سفاک قاتلوں اور درندہ صفت دہشت گردوں سے نجات کا احساس بڑی حد تک پختہ ہوگیا تھا ، لیکن اسے شومی¿ قسمت ہی کہیے کہ دشمن نے کراچی کے امن و امان کو سپوتاژ کرنے کے لیے دوبارہ جو گھناو¿نا کھیل شروع کردیا ہے اس کے پیچھے دشمن کے مذموم عزائم و مقاصد کا ایک وسیع ترین اور مضبوط ترین نیٹ ورک دکھائی دیتا ہے۔
آج کل کے اس جدید ترین دور میں کسی بھی تخریب کاری میں ملوث افراد کا تعاقب کرنا اور ان تک رسائی حاصل کرنا سراغ رساں اداروں کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ،لہٰذا تحقیقاتی اداروں کا جہاں یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مقامی سطح پر تفتیش کرکے مشتبہ افراد کو زیرتفتیش لائیں اور انہیںگرفتار کریں تو وہیں ان کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس بات کا بھی سراغ لگانے کی سرتوڑ کوششیں کریں کہ کراچی شہر کے امن و امان کی گزشتہ خوش گوار صورت حال میں بد امنی اور دہشت گردی کو فروغ دینے والے کن کن عناصر کی کار فرمائی شامل ہے؟ تاکہ ملوث افراد کو زیر حراست لے کر انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے اور شہر کا امن و اما ن بحال کرکے اس کی رونقیں اسے دوبارہ لوٹا ئی جاسکیں ۔
کراچی پاکستان کا دل اور ملکی معیشت کا مرکز اور اس کی شہ رگ کہلاتا ہے ، اگر اس کا امن و امان داو¿ پر لگ گیا اور اس کی کسی حد تک پرامن صورت حال کا لحاظ خاطر میں نہ لایا گیا تو یقین جانیے ملکی معیشت پر اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ملکی معیشت کا ستیا ناس ہوجائے گا ۔
الغرض کراچی کے موجودہ اندوہ ناک اور گوناگوں حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بار پھر قانون ساز اداروں ، رینجرز ، پولیس اور تحقیقاتی اداروں پر یہ بڑی اور اہم ترین ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان جرائم پیشہ افراد ، دہشت گردوں ، بھتا خوروں اور سفاک قسم کے ظالم اور خون خوار انسان نما درندوں کی بلا امتیاز اور بلا تفریق تفتیش کریں ، ان کا سراغ لگائیں اور ان کو ہر حال میںکیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کریں، تاکہ شہر قائد کراچی” خس کم جہان پاک “ کا عملی نمونہ صحیح معنوں میں اس کا مصداق بن کر سامنے آسکے اور اس کا چھینا ہوا حسن و جمال اور اس کی لٹی پٹی رونقیں دوبارہ اسے نصیب ہوسکیں۔