میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نیشنل ایکشن پلان کا نیا مرحلہ

نیشنل ایکشن پلان کا نیا مرحلہ

منتظم
پیر, ۷ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

syed-amir-najeeb

سید عامر نجیب
پاکستان میں جاری دہشت گردی جو کبھی فرقہ واریت کے روپ میں سامنے آتی ہے ،کبھی مافیاز طرز کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے آپس کے ٹکراﺅں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ، کبھی اس کا اظہار لسانی بنیادوں پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ سے ہوتا ہے ۔ کبھی ملک سے بغاوت اور ریاست کو ٹارگٹ کرنے کے لیے دہشت گردی، بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے کی جاتی ہے ۔ دہشت گردوں کی جملہ اقسام جن کا مذہب کوئی بھی ہو اور جن کا فرقہ کوئی بھی ہو وہ اُن قوتوں کے لیے اثاثہ بن جاتے ہیں جو وطن عزیز کو ایک ناکام ریاست بنا کر اسکے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں ۔ دہشت گردی کا یہ وسیع نیٹ ورک ، سہولت کاروں کے وسیع نیٹ ورک کا بھی اظہار ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا ۔ مرحلہ وار عملدرآمد جاری ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیںکہ دہشت گردی کے واقعات کا تناسب الحمد للہ بہت کم ہوگیا ہے ۔
دوستوں کے روپ میں دشمنی بد ترین دشمنی قرار پاتی ہے، عجیب معاملہ ہے کہ بلوچستان میں بغاوت اور دہشت گردی ہو یا کراچی میں سفاکیت اور بربریت کی ہولناک تاریخ رقم کرنے والی گینگ وار کی لڑائی ہو جس میں انسانوں کو پنجروں میں بند رکھا گیا ، بیدردی سے قتل کیا گیا ، لاشوں کے سر کاٹ کر اس سے فٹ بال کھیلا گیا ، فرقہ وارانہ دہشت گردی ہو یا خودکش بم دھماکے ۔سہولت کاروں میں پڑوس کے دو ممالک کا نام آتا ہے ایک اعلانیہ دشمن اور دوسرا بظاہر دوست ہے ۔ ان دو ممالک کا باہمی گٹھ جوڑ بھی کسی سے مخفی نہیں انڈین ” را “ کا جاسوسی نیٹ ورک ہمارے برادر ملک سے آپریٹ ہوتا ہے ۔ طالبان ترجمان کے بقول اس ملک سے ان کے اچھے مراسم ہیں۔ القاعدہ رہنماﺅں کو پناہ دینے کے سلسلے میں بھی اس ملک کا نام آچکا ہے ۔ زائرین کے روپ میں جا کر وہاں عسکری ٹریننگ لینے والے اور فرقہ وارانہ ، لسانی اور سیاسی جماعتوں کے لیے ٹارگٹ کلنگ کی خدمات انجام دینے والے بھی کئی لوگ اعتراف جرم کر چکے ہیں ۔ یہ باتیں بھی ہم کئی سالوں سے سنتے آرہے ہیں کہ فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں دونوں فرقوں کے مقتولین کے قتل میں ایک ہی اسلحہ استعمال ہوا ۔
مسئلہ حقائق سے نظریں چرانے کا ہے حالانکہ نظریں چرانے سے حقائق تبدیل نہیں اور سنگین ہوجاتے ہیں ۔ کیا سیکورٹی اداروں سے بڑھ کر بھی کوئی با خبر ہوگا ؟ پھر آخر کئی عشروں سے کسی ملک کو وطن عزیز میں اتنی آزادی کے ساتھ کام کرنے کے مواقع کیسے مل گئے کہ اس نے پاکستانیوں کا ایسا گروہ تشکیل دے دیا کہ جنھیں پاکستان کے مفادات سے زیادہ عزیز اس ملک کے مفادات تھے ؟ نیشنل ایکشن پلان جو وطن عزیز کے دفاع اور سالمیت کے تحفظ کا پروگرام ہے، یقیناً دہشت گردی کے مسئلے کی یہ نوعیت بھی پالیسی سازوں کے سامنے ہوگی ۔ گزشتہ روز کراچی میں فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف جو کریک ڈاﺅن ہوا ہے وہ خوش آئند ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے بیرونی دشمنوں کا خاص ہدف بھی شہر کراچی رہا ہے ، فرقہ پرست خواہ کسی بھی فرقے سے ہوں وہ بھی کراچی ہی کو خاص ٹارگٹ کرتے آئے ہیں ۔ کراچی کو ڈسٹرب رکھنا ، ادھر غیر یقینی صورتحال پیدا کرنا ، یہاں کا امن تباہ کرنا یہ مشترکہ ایجنڈا ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت کو کمزور کیے بغیر یہاں کی ریاست اور ریاستی اداروں کو غیر موثر نہیں کیا جا سکتا اور جب ریاستی ادارے غیر موثر ہو جائیں تو ملک دشمن سرگرمیاں آسانی سے جاری رکھی جاسکتی ہیں ۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ کراچی پاکستان کی معاشی شہہ رگ ہے ۔
کراچی میں فرقہ پرستوں کے خلاف بلا امتیاز آپریشن کا آغاز ہوتے ہی ایک گروہ کی طرف سے حکومت اور اداروں کو دباﺅ میں لینے کے لیے عورتوں اور بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی مثالیں بھی سامنے آرہی ہیں ۔ کراچی کے عوام جو گزشتہ کئی ماہ سے نسبتاً سکون میں تھے ایک مرتبہ پھر دھرنوں کی بدمعاشی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ اگرایک فرقے کی مسجدوں اور اداروں کی تلاشی اور ان کے رہنماﺅں و کارکنان کی گرفتاری ہو تو اداروں کی تحسین کی جائے اور اگر اداروں کا رخ اپنی طرف ہو تو ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ واریت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیے گئے لوگوں کی رہائی کے لیے دھرنے دیے جائیں ۔ نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کا انحصار اسی میں پوشیدہ ہے کہ ایکشن شفاف ، بلا امتیاز اور سیاسی ومذہبی دباﺅ سے بالا تر رہ کر کیا جائے ۔ جس طرح جرم ریاست کے لیے ناقابل قبول ہو، اسی طرح جرم کے الزام میں پکڑے جانیوالوں کو چھڑانے کے لیے غیر عدالتی اور غیر قانونی ذرائع اختیار کرنے والوں کو بھی مجرم کے سہولت کار کا درجہ دے دیا جائے ۔ شہر کو یرغمال بنانا شہریوں کو تکلیف پہنچانا ویسے بھی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ۔
جرائم اور دہشت گردی کی سہولت کاری کا جال بھی بڑا وسیع ہے یہ سہولت کار بعض دفعہ مذہب اور تقدس کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں ، بعض نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی آڑ لی ہوتی ہے ، بعض نے سماجی خدمات اور شرافت کا ڈھکوسلا کیا ہوتا ہے، بعض سرکاری محکموں اور ملکی اداروں میں رہ کر دہشت گردوں کے لیے اپنی خدمات جاری رکھتے ہیں اور بعض سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم کو اپنے فرقہ وارانہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اصل میں یہی سہولت کار دہشت گردی کے خاتمے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ،یہ ان اداروں کو درست سمت کاروائیاں کرنے نہیں دیتے ، سیاسی اور عوامی دباﺅ کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف بنیادی اور اہم اقدامات سے باز رہنے کا سبب بنتے ہیں ۔ یہ سہولت کار ہی ہیں جو عوام کو دہشت گردوں کے خلاف یکسو نہیں ہونے دیتے ، یہ لوگ میڈیا میں بیٹھ کر عوام کی رائے کو تقسیم کرتے ہیں اور انھیں کنفیوژ کر کے چھوڑتے ہیں ۔ اسی طرح دہشت گردی ہویا دہشت گردوں کو بچانے کے لیے سہولت کاروں کی مہم اس سب کے لیے پیسہ چاہےے اور اس مقصد کے لیے فنڈز فراہم کرنے والے دہشت گردوں کے اصل سہولت کار قرار پاتے ہیں ۔ اس لیے نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے کہ دہشت گردوں کی اخلاقی ، مالی ، فکری اورسیاسی پشت پناہی کرنے والے سہولت کاروں کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جائے ،یہ بزدل لوگ ہیں، انھیں بھی سزائیں دے کر نشان عبرت بنایا جائے ۔
قومی سلامتی کا ایجنڈا پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کراچی کی رو نقیں مکمل طور پر بحال نہ ہو جائیں ، کراچی کے شہریوں کو جبر ، تشدد ، تعصب اور نفرت کو ہتھیار بنا کر یرغمال بنانے والے مذہبی و سیاسی مافیاز سے مکمل آزادی حاصل نہ ہوجائے ، کراچی کا کاروبار اور کراچی کی صنعتیں خوف سے نجات نہ پاجائیں ۔ اورکراچی کے شہریوں کے حقوق پامال کرنے والوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچا دیا جائے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں