میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کشمیر کہانی ۔۔۔خون کہانی

کشمیر کہانی ۔۔۔خون کہانی

منتظم
پیر, ۷ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shaikh-amin

شیخ امین
27 اکتوبر 1947ءکو بھارتی سامراج نے سرزمین جموں و کشمیر پر فوجیں اُتار کر جابرانہ قبضہ جمایا اور ایک امن پسند قوم کو بنیادی حق سے محروم کرکے جبری غلامی میں مبتلا کرکے رکھ دیا۔ جابرانہ فوجی قبضے کے بعد ڈوگرہ فورسز اور آر ایس ایس سے وابستہ غنڈوں اوردہشت گردوں نے نہرو اور پٹیل کی براہ راست آشیرباد سے نہتے مسلمانوں کا بے دریغ قتل ِعام کیا اور اُن کی جائیدادوں کو قبضے میں لے لیا گیا۔ 6 نومبر 1947ءکو جموں کے مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کے بہانے پولیس لائنز میں جمع کیا گیا اور شہر کے مضافات میں لے جاکر بے دردی سے شہید کیا گیا۔ جوان عورتوں کو برہنہ کرکے اُن کو جلوس کی شکل میں پورے شہر میں گھمایا گیا۔لندن ٹائمز کی 10اگست 1948کی رپورٹ کے مطابق 2,37,000 مسلمانوں کو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت صفحہ ہستی سے مٹایا گیا۔اور اس کام میں ہندو ،سکھ انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ مہاراجہ کے سپاہیوں نے بھی کردار ادا کیا۔رپورٹ کے مطابق یہ واقعات قبائلی حملے سے پہلے 5دن پہلے شروع ہوئے تھے۔جموںصوبے میں مسلمانوںکی آبادی کا تناسب 1941ءمیں 61%تھا جو 1961میںصرف 38%رہ گیا۔ السٹر لیمب نے ان واقعات کے بارے میں جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق جموں میں 350 مساجد کو جلا کر شہید کیا گیا۔ جموں ضلع میں مسلمان 1941ءمیں کل آبادی کا 37 فیصد تھے، جبکہ 1961ءمیں وہ صرف 10 فیصد رہ گئے۔ اس طرح مسلمانوں کا مکمل صفایا کر دیا گیا۔ مسلمانوں کی جائیدادیں کسٹوڈین کو دی گئیں، لیکن ان پر بھی ہندو دہشت گردوں نے قبضہ کرلیا۔
Statesman اخبار کے ایڈیٹر آئن ا سٹیفنز کی کتاب "Horned Moon” میں تمام واقعات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے قتل عام میں پنجاب کے راجواڑوں، پٹیالہ، کپور تھلہ، فرید کوٹ اور نواحی علاقوں کے مہاراجوں کے علاوہ نہرو اور پٹیل کی ہندو دہشت گردوں کو مکمل حمایت حاصل تھی۔ جس طرح ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کے موقع پر حیوانیت کا نشانہ بنایا گیا، اسی طرح جموں کے مسلمانوں پر بھی قیامتیں ٹوٹ پڑیں۔تقریباً 20 لاکھ سے زائد لوگ پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
ریاست کے حریت پسند عوام بھارتی جابرانہ قبضے اور فوجی مظالم کے سامنے سرنگوں ہوئے نہ اُس کے خاتمے کےلیے جاری جدوجہد میں ذرا بھی حوصلہ ہار ے۔ آج تک کی اڑسٹھ (68) سالہ جدوجہد میں فقید المثال قربانیاں پیش کی گئی ہیں۔ زائد از پانچ لاکھ فرزندانِ وطن جام ِشہادت نوش کرچکے ہیں۔ہزاروں عفت مآب ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں کی آبرو لٹ چکی ہے۔ سینکڑوں بستیاں اور بازار تاخت و تاراج ہوچکے ہیں۔ تادمِ ایں 6 ہزار گمنام قبریں دریافت ہوچکی ہیں اور زائد از دس (10) ہزار معززین ِ وطن مفقود الخبر ہیں۔ قربانیوں کا یہ سلسلہ ہنوز رواں تحریکِ آزادی کی آبیاری کر رہا ہے۔ بھارت مقبوضہ ریاست میں اپنی فوجی گرفت مضبوط اور مستحکم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہا۔ اس وقت کم و بیش 28 لاکھ کنال زرعی، باغاتی، جنگلاتی زمین اور صحت افزاءمقامات فوج کے قبضے میں ہیں۔ خالصتاً فوجی اورجنگی مقاصد کی خاطر ریلوے لائنیں بچھائی جا رہی ہےں اور ٹنلیں نکالی جا رہی ہیں اور فوجی مقبوضات اور تنصیبات کو وسیع سے وسیع تر کیا جا رہا ہے۔مقبوضہ ریاست کے مسلم اکثریتی تشخص کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بند کوششیں کی جا رہی ہیں۔ 1947ءمیں تقسیم ہند کے وقت مغربی پاکستان سے بھاگے ہوئے لاکھوں ہندو شرنارتھیوںاور دیگر غیر ریاستی باشندوں کو مستقل شہریوں کی حیثیت سے بسانے کے مذموم اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جموں کے دور دراز دیہاتی و سرحدی علاقوں میں سکونت پذیر مسلمانوں کو "Forest Land Evacuation” پروگرام کے نام پر بالجبراپنی رہائشگاہوں اور جائیدادوں سے محروم کرکے کھُلے آسمانوں تلے مہاجرانہ زندگی بسر کرنے پر مجور کیا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس (RSS) اور دیگر انتہا پسند ہندو دہشت گرد سرکاری پشت پناہی میں مسلح پریڈ اور مارچ کرکے جموں کے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کی مذموم حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ ریاستی انتظامیہ بالخصوص جموں کی صوبائی انتظامیہ میں کلیدی عہدوں پر مسلم آفسرز کو ہٹانے کے بعد ہندوتوا کے حامی افسران کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ ”بھارت میں رہنا ہے تو وندے ماترم کہنا ہے“ کا روح فرسا پیغام اعلانیہ سنایا جا رہا ہے۔ ریاست کے مسلم اکثریتی علاقوں باالخصوص وادی¿ کشمیر کو معاشی بدحالی سے دوچار کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہو رہی ہیں۔ سیاحت، گھریلو دستکاری، فروٹ انڈسٹری، قیمتی تعمیراتی لکڑی، گھنے جنگلات اور قیمتی معدنیات کے ذخائر کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ لوٹ بھی لیا جاتا ہے۔ ریاست کے آبی ذخائر سے محتاط اندازے کے مطابق 24000 کروڑ مالیت کی بجلی سالانہ بیرونِ ریاست پنجاب، ہریانہ، راجستھان اور دہلی وغیرہ کو ٹرانسفر کی جا رہی ہے جبکہ خود مقبوضہ ریاست کے بیشتر علاقہ جات اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ حریت پسند عوام کے جذبہ¿ حریت اور عزمِ صمیم کو کمزور کرنے کےلئے کشمیریوں کا معاشی مقاطعہ Economic Blockade کرنے کا نسخہ آزمایا جارہا ہے۔
اپنا جابرانہ قبضہ جاری رکھنے کے لیے،یہ تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں ،لیکن عالمی برادری خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی ہے۔ 1930 سے 1940 کے اختتام تک لاکھوں یہودیوں کے قتل کا ہٹلر پرالزام ہے، دنیا اسے ہولوکاسٹ کے نام سے یاد کرتی ہے اور حد یہ ہے کہ اس مبینہ قتل عام کی نہ تحقیق کرنے کی اجازت ہے اور نہ اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جموں میں لاکھوں لوگوں کے قتل عام جسے عالمی شہرت یافتہ محققین و مصنفین نے ثا بت کیا ہے،کے ذمہ داروں کو کبھی بے نقاب کرنے کی ٹھوس کو شش نہیں کی گئی۔ حد تو یہ ہے کہ اس قتل عام کے ذمہ دار اب نریندر مودی کی شکل میں پورے بھارت پر حکمران ہیں اور آج یہ وہی نسخے پھر آزما رہے ہیں ،لیکن عالمی امن کے ٹھیکیدار خا موش ہیں ۔اور خاموشی سے خون مسلم بہتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔اللہ رحم فرمائے


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں