میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انقلاب براستہ میڈیا؟؟؟

انقلاب براستہ میڈیا؟؟؟

منتظم
پیر, ۷ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

احمد اعوان
جناب ایف ای چوہدری صاحب پاکستان کے مشہورفوٹوگرافرتھے۔ چوہدری صاحب ایک عظیم باپ بھی تھے ،ان کے بیٹے گروپ کیپٹن سیسل چوہدری کو 1965 اور 1971کی جنگوںمیں بہادری کے جوہردکھانے کے صلے میںستارہ جرات سے نوازاگیا،ایف ای چوہدری صاحب نے 1930میں اپنے فوٹوگرافی کے فنی سفرکاآغازکیا، وہ ایک عرصہ پاکستان ٹائمزکے فوٹوگرافررہے ۔2009ءمیں جب ان کی عمرکی سوبہاریںمکمل ہوئیںتواس موقع پران کی یاداشتوںپرمبنی کتاب” اب وہ لاہورکہاں“جناب منیراحمدمنیرنے بطورتحفہ انہیںپیش کی، ایف ای چوہدری صاحب نے کتاب میں دوران صحافت پیش آنے والی دلچسپ یاداشتیںتحریر کی ہیں۔ایک موقع پرچوہدری صاحب لکھتے ہیںکہ 1950ءمیں جامعہ پنجاب میں پہلی بارخواتین کے کھیلوںکے مقابلوںکاباپردہ انعقادکیاگیا،باپردہ اس لیے تحریرکیا کیونکہ کھیل کے میدان میں قناتیںلگاکرمختلف کھیل منعقد کیے گئے تھے تاکہ کوئی لڑکا،جھانکی نہ مارسکے۔ جامعہ پنجاب کی خواتین کی اسپورٹس ٹیچرمسزبیگ نے چوہدری صاحب سے گزارش کی کہ وہ جامعہ تشریف لائیںاورلڑکیوںکی تصاویرلیں،چوہدری صاحب نے لکھاکہ میںنے مسزبیگ سے کہا کہ لڑکیاںراضی نہیںہونگی کیونکہ لڑکیاں پردہ کرتی ہیں؟ مسزبیگ نے کہا کہ آپ تشریف لائیں لڑکیوں کو میں (مسز بیگ) سمجھاﺅں گی۔ میں ڈرتے ڈرتے وہاںپہنچا، میراپسینہ چھوٹ رہا تھا۔ جیسے ہی لڑکیوںکی نظرمجھ پرپڑی ایک شورمچ گیا، ایک نے کہا”نی وج مرد پھرداای“میں نے کہا وہی ہوا جس کا ڈر تھا لیکن اسی لمحے مسزبیگ نے لڑکیوں کو واپس بلایاجوبھاگ کربرقعے پہن رہیںتھیںکہ ”واپس آﺅیہ مرد نہیں، فوٹو گرافر ہیں“ یہ آپ لڑکیوں کی تصویریںاتاریںگے،آہستہ آہستہ لڑکیاںواپس میدان میں آنے لگیں۔ مگر اس کے باوجودمیں نے لڑکیوںسے پوچھ لیاکہ کون تصویراترواناچاہتی ہے تاکہ بعدمیں ان کے گھروالوںکوکوئی اعتراض نہ ہو۔جن لڑکیوںنے منع کیاان کی تصاویرمیں نے نہیںاتاری۔ اسی طرح ایک لڑکی ہائی جمپ ، لانگ جمپ کے مقابلے میںفرسٹ آئی، میںنے اس کی تصویر کھینچی اوراس سے پوچھاتمہارے والدین کواس تصویر کے شائع ہونے پرکوئی اعتراض تو نہیں ہوگا؟ اس نے کہا کہ ہم توبڑاپردہ کرتے ہیں، آپ مت لگانامیری فوٹو۔میں نے وہ فوٹوکینسل کردی۔ ایک جگہ چوہدری صاحب لکھتے ہیںکہ ایک مرتبہ میں کنیئرڈکالج کی طرف سے گزررہا تھا کہ وہاںسڑک پربہت خوبصورت پھول کھلے تھے، بڑے اچھے لگ رہے تھے ۔اسی دوران وہاں ایک لڑکی آگئی اور کہنے لگی میری تصویر کھینچیں۔ میں نے کہاتمہارے والدین اعتراض تو نہیں کریں گے ؟اس نے کہا، بالکل نہیں۔میں نے کہا اچھا پھولوںکوہاتھ لگاﺅ، میں نے وہ تصویر اخبار کو دی توتصویراگلے روز اخبار کے فرنٹ پیچ پرلگ گئی۔ اگلے دن لڑکی کے والد کا دفترفون آیاکہ جناب یہ آپ نے کیا کیا؟ ہماری لڑکی کی منگنی ہوئی تھی کوئی مسئلہ نہ ہوجائے ، آپ کوہماری لڑکی کی تصویر نہیں چھاپنی چاہیے تھی۔ چوہدری صاحب نے یہ واقعات 1950ءکے لکھے ہیں۔میںسوچتاہوںکہ آج 2016ءمیں فحاشی، عریانی،بے حیائی ، بے شرمی اوربے غیرتی کے جس دلدل میں ہم ڈوبتے جارہے ہیںکیا1950ءاس کانقطہ آغازتھا؟سوچنے کی بات یہ ہے کہ 1950ءمیں جولڑکیاںجامعہ پنجاب میں تعلیم حاصل کررہی تھیں، وہ کتنی ماڈرن لڑکیاںہونگی کیونکہ اس زمانے میں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا، اور گھر سے 8 گھنٹوں کے لیے باہر رہنا آج کی طرح معمول کی بات نہ تھی ۔ محلہ میںکوئی کوئی گھرہوتاتھاجہاںکی لڑکی یونیورسٹی تعلیم کے لیے جاتی تھی،مگر1950ءکی ماڈرن لڑکیاںبھی تصویربنوانے کوبری بات اورگناہ سمجھتی تھیں اور اگر کوئی گناہ نہیںبھی سمجھتی تھیں ، توان کویہ احساس ضرور تھاکہ مذہبی لوگ تصویربنوانے کے عمل کواچھانہیںسمجھتے ، لہٰذااس سے بچناچاہےے ۔ لیکن 1950ءسے 2016ءتک سوچ اورفکرنے کتنے مراحل طے کیے ؟کتنے زاویے بدلے؟ خیر اور شکر کے کتنے پیمانے تبدیل ہوئے ؟یہ سوچنے کی بات ہے یانہیں؟1950ءمیں لڑکیاں تصویر بنوانے کومعیوب عمل سمجھتی تھیںاورآج فیشن اور پردے کے معاملے میںلڑکیاںK-2کی چوٹی پر چڑھی دھمال ڈال رہی ہیں۔لڑکیوںنے یہ سفرطے کرنے میں65سال لگائے اورجامعات ، کالجوںاوراسکولوںنے ان کی ہرموڑپرمددکی، جن لوگوںکاخیال ہے کہ آج کی نسل ماضی کے مقابلے میں زیادہ مذہبی ہے وہ ایف ای چوہدری صاحب کی گواہی سے کچھ سبق حاصل کریں۔جناب چوہدری صاحب کی کتاب ایک خطرے کی گھنٹی ہے معاشرے میں۔ بچوںنے 65 سالوںمیں ترقی اورآزادی کاجوسفرطے کرلیاہے کیاآپ کوسوچ اورفکرہے کہ اگلے 65سالوںبعدمعاملہ کہاں ہوگا؟؟؟
1950ءمیںموضوع بحث تھاکہ T.V پر آنا جائز ہے یاناجائز مگرآج موضوع بحث ہے کہ T.V پر کس طریقے سے آناجائز اورکس طرح آناناجائز ہے؟T.Vوالوںنے گزشتہ 65سالوںمیں اپنا کام مسلسل تحمل، صبر، برداشت اورلگن سے جاری رکھا۔ وہ پریشان نہیںہوئے کہ اس پاکستان کے مذہبی معاشرے میں T.Vکوقبولیت کیسے ملے گی؟ وہ بس اپناکام کرتے رہے اورآج نتائج ہمارے سامنے ہیں۔مغرب کے مشہورفلسفی کارل مارکس اوراس کے پیروکاروںنے میڈیاپرکیاخوب زبردست تنقید کی ہے ، یقین کریںکارل مارکس کی تنقید پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ یہ گھرکی گواہی ہے ۔
ہمارے مذہبی لوگوںکوکسی روزاس بات پرضرورفکرکرنی چاہیے کہ انہوںنے اسلام کے فروغ کے لیے مکمل خلوص، ایمان اورنیت کی پاکیزگی کے ساتھ T.Vپرآناشروع کیاتھالیکن ان کے اس عمل سے اسلام اوراس کی اساس کوفائدہ پہنچاہے یا نقصان؟ کسی روزمذہبی بزرگوںکواس عمل پر ضرور سوچنے اورفکرکرنے کی ضرورت ہے۔ لوگ علماءسے متاثرہوتے ہیں،لہٰذاعلماءپربھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس عمل کاناقدانہ جائزہ ضرور لیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں