میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت : مسلم نوجوان ایک بار پھر نشانہ پر ؟

بھارت : مسلم نوجوان ایک بار پھر نشانہ پر ؟

ویب ڈیسک
جمعه, ۷ اکتوبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

 

ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربرا ہ موہن بھاگوت کی چند مسلم دانشوروں کے ساتھ میٹنگ اور اس کے بعد ان کا ایک مسجد ور مدرسہ کے دورے سے لگ رہا تھا کہ شاید اس آئوٹ ریچ کے بعد مسلمانوں کو سانس لینے کا موقع فراہم گا۔مگر اس کے چند ہی دنوں کے بعد پورے ملک میں مسلم نوجوانوں کی ایک تنظیم پیلز فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) پر شکنجہ کس دیا گیا۔ نہ صرف الزامات کی بوچھاڑ کرکے اس پر پابندی لگائی گئی، بلکہ پورے ملک میں ابھی تک چھاپوں کے ایک لامتناہی سلسلہ میں 250کے قریب اس کے اراکین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اگر واقعی اس تنظیم کے ممبران غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، تو ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے، مگر یہ یاد رہے کہ اسی طرح کی کاروائی 2001میں اس وقت کی مسلم نوجوانوں کی تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک مومنٹ آف انڈیا (سیمی) کے خلاف بھی کئی گئی تھی۔ بہت سے الزامات جو آج پی ایف آئی پر لگائے جا رہے ہیں، کم و بیش ان ہی الزامات کا پٹارہ سیمی کے خلاف بھی کھولا گیا تھا۔ جن افراد نے بعد میں سیمی کے کارکنان کے مقدمات کی پیروی کی ہو یا جن صحافیوں نے عدالتی ٹریبونل، جو پابندی کی ایپل کی شنوائی کر رہا تھا، کی کارروائی کور کی ہے، انکو معلوم ہوگا کہ کیسے بودے الزامات لگائے گئے تھے۔ مگر ان کے نتیجے میںکتنی زندگیاں تباہ و برباد ہوگئیں، اور سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو جو معاشرہ میں مثبت کام کرسکتے تھے ، برسوں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے گذارنے پڑے۔ آج ہی کی طرح اسوقت بھی ملی تنظیموں کو سانپ سونگھ گیا تھا اور وہ سیمی کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتی تھیں۔
امریکامیں ٹریڈ ٹاور کی تباہی اور القاعدہ کی کارروائی کے دو ہفتہ بعد یعنی 29ستمبر 2001کو سیمی پر جب پابندی لگائی گئی تھی، تو بتایا گیا کہ وہ بھارت میں خلافت کا نظام قائم کرنا چاہتی تھی۔ پی ایف آئی پر بھی الزا م ہے کہ 2040تک وہ ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے کے درپے تھی۔ یہ نظام تو مسلم اکثریتی والے ممالک لاگو نہیں کرپائے تو جس ملک کی 80فیصد آبادی غیر مسلم ہو، تو وہاں یہ نظام کیسے لاگو کیا جاسکتا ہے؟ بقول جید اسکالر ڈاکٹرظفرالاسلام خان، خواب دیکھنے پر کیسے پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ ایک جمہوری ملک میں جہاں حکومتوں یا نظام کو تبدیل کرنے کا پر امن متبادل موجود ہے، بزور طاقت کسی نظریہ کو مسلط کرنے کا کوئی جوا ز ہی پیدا نہیںہوتا ہے۔ حکومتوں کے لیے بھی لازم ہے کہ ہر نظریہ کے حامل افراد کو جو امن ، سلامتی، ا ستحکام ، رواداری اور بھائی چارہ میں یقین رکھتے ہوں، اور پر امن طور پر اپنے نظریات کی تبلیغ کا م کرتے ہوں، کو یکساں مواقع اور حقوق فراہم کرے ، تاکہ معاشرہ سے تشدد کا جواز ہی ختم ہو جائے۔ سیمی پر غداری، بغاوت، ملک دشمنی، پاکستان اور بنگلہ دیش کے دہشت گردوں سے روابط ، اسامہ بن لادن اور القاعدہ سے قریبی تعلق رکھنے،فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اور فسادات برپا کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے، جو کئی برسوں کی عدالتی کارروائی کے بعد اکثرججوںنے مسترد کر دیے۔دستاویزات کے مطابق ایک الزا م یہ بھی تھا کہ سیمی اپنے کارکنوں کو تیرنے اورگھوڑسواری کی تربیت دیتی تھی۔ ستمبر 2001کو جب سیمی کے صدر شاہد بدر فلاحی کو گرفتار کیا گیا، تو پولیس نے ایف آئی آر میں الزام لگایا کہ دس دن قبل دہلی سے 500کلومیٹر دور بہرائچ میں انہوں نے ایک گرلز کالج میں خطاب میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کاکام کیا تھا۔ مگر جب تقریر کی ریکارڈنگ چلائی گئی، تو وہ جلسے میں موجود شرکاء سے تلقین کر رہے تھے۔ ’’اچھے شہری بن کر اپنے والدین کو اپنے اوپر فخر کرنے کا موقع فراہم کردو۔‘‘ اس کے علاوہ انہوں نے اس تقریر میں امریکی پالیسی کو نشانہ بنایا تھا۔ جج نے پولیس کے گواہوں سے پوچھا کہ کیا اس تقریر کے بعد اس شہر میں کوئی فرقہ وارانہ واردات رونما ہوئی ، تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ یہ فاسٹ ٹریک کورٹ تھی۔ مگر اس قضیہ کو سلجھانے، اس تقریر کی ریکارڈنگ سننے اور گواہوں کی جرح کرنے میں اسکو پانچ سال کا وقفہ لگا۔ اس کیس کو بگڑتے دیکھ کر اور جج کی طرف سے پھٹکار کے بعد حکومت نے اس کیس کو خود ہی واپس لینے کا فیصلہ کردیا۔
ایک اور کیس میں فلاحی پر الزام تھا کہ جب انکو دہلی کے جامعہ نگر علاقہ سے گرفتار کیا گیاتو انکے دائیں ہاتھ میں ایک کلینڈر تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ کشمیر میں ہندو حکمرانوں نے ماضی میں مسلم رعایا پر ظلم کئے ہیں۔ پولیس نے اس کلینڈ ر کو لیکر ان پر ملک دشمنی ، اور غداری کی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے تھے۔ عدالتی کارروائی کے دوران جج نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کیا اس نے کبھی کشمیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے؟ وکیل نے نفی میں جواب دیا۔ تو جج نے اسکو ایک ہفتے کا وقت دیکر کشمیر کی تاریخ پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اسی دوران گواہوں نے عدالت کو بتایا کہ کلینڈر کے کیس پر پولیس نے ان سے زبردستی دستخط لئے تھے اور وہ فلاحی کی گرفتاری کے وقت موجود بھی نہیں تھے۔ اسی طرح ایک اور کیس میں پولیس نے بتایا کہ سیمی کے صدر کی گرفتاری کے ایک ہفتے بعد ان کے دفتر سے کچھ آڈیو کیسٹ اور ایک بندوق کی تصویر ملی ہے۔ایک اور کیس میں پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ان کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دیواروں پر پوسٹر چپکاتے ہوئے پکڑا گیا، جس میں لکھا تھا کہ ’’انشا ء اللہ ایک بار پھر بابری مسجد میں نماز ادا کی جائیگی۔‘‘ جج نے خود ہی جرح کرکے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ’’ کیا یہ بیان یقین کرنے کے لائق ہے کہ ایک آل انڈیا تنظیم کا صدر ، خود ہی گلی کوچوں میں پوسٹر چپکاتے ہوئے دکھائی دے؟‘‘ایک اور کیس میں ان پر الزام تھا کہ 2000میں انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر کلراج مشرا کی نکتہ چینی کی، جس نے سیمی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی طرح سیمی کے جرنل میں انگریزی اخبار دی ایشین ایج میں شائع شدہ ایک مضمون کا ترجمہ شائع کرنے پر ان کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ دی ایشین ایج پر بھی مقدمہ درج کیاجانا چاہئے تھا، کیونکہ اصل مضمون تو اسی اخبار میں چھپا تھا۔ مگر ترجمہ پر کارروائی کی گئی۔ عدالت نے یہ سب الزامات خارج کرکے استغاثہ کو ہدایت کی کہ کیس صرف ان کے ممنوعہ تنظیم کے ساتھ وابستگی کا ہی چلایا جائے۔ مگر عدالت کے اس فیصلہ کو آنے میں برسوں لگ گئے۔ سیمی پر کارروائی کے دوران متعدد نوجوانوں کے کیرئیر تباہ ہوگئے۔راجستھان کے پالی کے ایک اسپتال میں کام کرنے والے نوجوان مسلم ڈاکٹر کو پولیس نے گرفتار کرکے عدالت کو بتا یا کہ 29 ستمبر2001 کو جب سیمی پر پابندی عائد کی گئی، تو انہوں نے پالی میں لٹریچر اور پمفلٹ تقسیم کیے۔ مگر پولیس کو معلوم نہیں تھا کہ اس دن وہ 400کلومیٹر دور جسلمیر میں ملیریا کے مریضوں کے لیے منعقد کیمپ میں موجود تھے۔ ملیریا کیمپ کی رجسٹر نے پولیس کیس کی پول کھول کر رکھ دی۔ معلوم ہو اکہ پولیس نے پہلے ہی سے کیس تیار کرکے رکھا ہوا تھاکہ وہ رہا ہوگئے، مگر حکومت نے ان کو نوکری سے بے دخل کردیا۔ان کو کرایہ کیلئے مکان ملنا مشکل ہوگیا۔
حیدر آباد کے 22سالہ محتشم باللہ دکن کالج میں انجینرنگ کے تیسرے سال کا طالب علم تھا کہ بار بار گرفتاری اور ٹارچر کی وجہ سے اسکو تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔اسکو سب سے پہلے 2001 میں 15سال کی عمر میں گرفتار کیا گیاتھا، جب اس نے حیدر آباد میں امریکا کے خلاف مظاہرہ میں شرکت کی تھی۔ یہ کیس سات سال تک عدالتی غلام گردشوں میں گھومتا رہا۔ 2004میں گجرات پولیس نے حیدر آبا د آکر محتشم کیپڑوسی مولانا نصیرالدین کو ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈے کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا۔ اس پر کئی افراد نے پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج کیا۔ گجرات پولیس افسر نے فائرنگ کرکے موقع پر محتشم کے بڑے بھائی کو ہلاک کردیا۔ جبکہ اس بھیڑ کو ڈانٹ پھٹکار سے یا حیدر آباد پولیس کے ذریعے معمولی لاٹھی چارج سے بھگایا جا سکتا تھا۔ بجائے ہمدردی دکھانے کے محتشم پر کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ جب اس کیس سے فراغت ملی تو 2008میں انکو شہر میں ایک سال قبل ہوئے بم دھماکوں میں ملزم بنا کر گرفتار کیا گیا۔ تشدد اور الیکٹرک شاک دیکر بھی جب یہ کیس ٹک نہیں پایا، تو بتایا گیا کہ محتشم نے قبرستان میں ایک خفیہ میٹنگ میں شرکت کی تھی، جس میں فرقہ وارانہ فساد کرنے کی سازش رچی گئی تھی۔ رہائی کے بعد جون 2008میں محتشم نے ہفتہ روزہ تہلکہ میگزین کو بتایا کہ پولیس بس مسلم نوجوانوں کو جیلوں کے اندر رکھنا چاہتی ہے۔ 2008میں بھوپال سے 150کلومیٹر دور نرسنگھ گڈھ میں ایک فوٹو اسٹوڈیو کے مالک تبریز حسین ، اسکے دو بھائیوں آفتاب اور انتخاب اور شاکر علی اور اسکے بھائی عرفان علی کو گرفتار کرکے بتایا گیا کہ ان کے پاس پوسٹر اور پمفلٹ برآمد ہوئے ، جن میںبابری مسجد کو دوبارہ بنانے کا ذکر تھا۔ عرفان علی، ماجد علی کو بھی بعد میں اسی کیس میں گرفتار کیا گیا اور ان سبھی کے خلاف بغاوت کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
سیمی کے خلاف درج کیسز میں پولیس شاید اکیلے یسین پٹیل کو ہی انسدار دہشت گردی کے قانون POTAمیں سیشن عدالت کے ذریعے پانچ سال تک سزا دلوا سکی۔ ان کے خلاف دائر فرد جرم میں بتایا گیا کہ وہ دن کے ڈیڑھ بجے پوسٹر چپکا رہے تھے۔ جس میں ایک بند مٹھی کے ساتھ امریکا، روس، برطانیا اور فرانس کے جھنڈے بنائے گئے تھے۔ اس میں اقوام متحدہ کو ان ممالک کی لونڈی سے تشبیہ دی گئی تھی۔یہ کیس دہلی میں شیو نارائین ڈھنگرہ کی عدالت میں چل رہا تھا اور کارروائی کے دوران جج صاحب خود ہی وکیل استغاثہ کا رول ادا کر رہے تھے۔ وکیل دفاع نے جب پولیس سے پوچھا کہ بھری دوپہر کو اگر ا?پ نے انکو پوسٹر چپکاتے ہوئے پکڑا ، وکیل دفاع نے پوچھا کہ اس پوسٹر میں ایسی کیا بات ہے کہ یسین پٹیل کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے؟ جج صاحب نے کہا کہ یہ پوسٹر تو AK-47سے بھی زیادہ خطر ناک ہے۔ جب اسٹینو کو آرڈر لکھاتے ہوئے، جج صاحب نے ایک جملہ غلط لکھوایا اور اسکی تصحیح کرنے کی پٹیل نے کوشش کی، تو جج نے وکیل دفاع کی طرف رخ کرکے کہا کہ ’’اپنے موکل سے کہو، کہ اپنی زبان پر قابو رکھے ورنہ اسکو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘‘ تامل ناڈو کے جواہرا للہ کی تنظیم تامل ناڈو منترا کھاز گم ، جو صوبہ کی ایک اہم سماجی تنظیم ہے،کے متعلق بتایا گیا کہ یہ سیمی کا ایک فرنٹ ہے۔ ٹریبونل میں جواہر اللہ نے بتایا کہ وہ 1989 تک سیمی سے وابستہ تھے اور اسکے بعد ان کا اسکے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ ان کے دور تک تو یہ ایک قانونی تنظیم تھی۔ سرکاری وکیل نے ٹریبونل میں ایک کاغذ پیش کرکے کہا کہ جواہراللہ نے ایک مسجد کی انتظامیہ کمیٹی سے ایک کمرہ کرایہ پر لیا تھا، جو سیمی کا دفتر ہے اور ابھی تک اس کا کرایہ وہی ادا کرتے ہیں۔ جب جج نے اس کاغذ کو دیکھنے کے لیے کہا تو معلوم ہوا کہ اس پر جواہر اللہ کے دستخط ہی نہیں تھے۔ جج نے تنبیہ نے ساتھ اس کاغذ کو پھینک دیا۔
2006میں کیرالا کے کوٹایم شہر کے نواح میں یوم آزادی کی تقریب میں عبدالرزاق مدعو تھے۔ ان کی تقریر کا موضوع ’’جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار‘‘ تھا۔ مگر تقریر کے بعد ان کو گرفتار کیا گیا، کیونکہ پولیس نے بتایا کہ وہ سیمی کے رکن ہیں اور تقریر میں انہوں نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا کام کیا ہے۔ 2012میں جب دہلی میں عدالتی ٹریبونل میں سیمی پر پابندی سے متعلق سماعت شروع ہوئی، تو ایڈوکیٹ اشوک اگروال اور مرحوم ایڈوکیٹ سالار محمد خان کے اصرار پر میں نے بطور صحافی کئی ماہ تک چلنے والی اس کارروائی کو کور کیا۔ ویسے تب تک میرا بھی یہی خیال تھا سیمی کے خلاف کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ حکومت توبالکل یونہی جھوٹ تو نہیں بول رہی ہوگی۔ مگر اس سماعت کے دوران تو کئی ہوشربا انکشافات سامنے آئے۔دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس وی کے شالی کی صدارت والا یہ ٹریبونل سیمی پر عائد پابندی کو برقرار رکھنے کے جواز پر ساتویں مرتبہ سماعت کررہا تھا۔ کارروائی کے دوران مہاراشٹر کے شولا پور میں وجے پور ناکہ کے انسپکٹر شیواجی تامبرے نے ایک حلف نامہ دائر کیا تھا،جس میں بتایا گیا کہ سیمی کے کچھ مبینہ کارکنوں کے گھروں پر جب انہوں نے چھاپے مارے تو وہاں سے آردو میں لال روشنائی سے تحریر کردہ ایک ڈاکیومنٹ ملا جس پرایک شعر درج تھا؛ موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے آستان یار سے اٹھ جائیں کیا غالب کے اس شعر کا انسپکٹر تامبرے نے مراٹھی ترجمہ کچھ یو ں کیا تھا’’رکتچی لات دوکیا پسن کا جینا‘ متراچیہ امبراتھیاپسون اتھن کا جینا‘۔ انسپکٹر تامبرے نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ یہ شعر ہندوو?ں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کردیتا ہے۔ ایک اور حلف نامہ میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سیمی مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے کی سازش کررہی ہے۔
(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں