وفاق نے سندھ ، بلوچستان کے حقوق پر شب خون مارا، ترجمان سندھ حکومت
شیئر کریں
سندھ حکومت نے وفاق سے کوئی بات نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے، ترجمان سندھ حکومت نے کہا کہ وفاق نے سندھ اور بلوچستان کے حقوق پر شپ خون مارا، آئی لینڈز سے متعلق صدارتی آرڈیننس مستردکرتے ہیں، آئی لینڈز کی زمین سندھ کی ملکیت ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وفاق نے سندھ اور بلوچستان کے حقوق پر شپ خون مارا۔سندھ حکومت نے آئی لینڈز سے متعلق صدارتی آرڈیننس مسترد کردیا ہے۔ سندھ نے وفاق کو لکھا خط بھی واپس لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ آئی لینڈز کی زمین سندھ کی ملکیت ہے۔وفاق نے آرڈیننس جاری کرنے کے اختیارات سے تجاوز کیا۔ وفاقی حکومت کا یہ اقدام غیرآئینی اور غیرقانونی ہے۔ آرٹیکل 72 میں واضح ہے کہ سمندر میں واقع زمین صوبائی حکومت کی ملکیت ہے۔سندھ کے حقوق اور قبضے کی بات جہاں ہوگی قبول نہیں کریں گے۔ یہ سلیکٹڈ تھے اورسلیکٹڈ رہیں گے۔ صدر مملکت نے جزائر سے متعلق آرڈیننس 2 ستمبر 2020کوجاری کیا ہے۔ جس کے تحت سندھ اور بلوچستان کے جزائرکی مالک وفاقی حکومت ہوگی۔ بنڈال اور بڈو سمیت تمام جزائر کی مالک وفاقی حکومت ہوگی۔ ٹیریٹوریل واٹرز اینڈ میری ٹائم زونز ایکٹ 1976 کے زیرانتظام ساحلی علاقے بھی وفاق کی ملکیت ہونگے۔حکومت نوٹیفکیشن کے ذریعے پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کرے گی۔ اتھارٹی منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد کا قبضہ حاصل کرنے کی مجاز ہوگی۔ اتھارٹی کا ہیڈکوارٹرز کراچی میں ہوگا،علاقائی دفاتر دیگر مقامات پر قائم ہوسکیں گے۔ اتھارٹی غیرمنقولہ جائیداد پرتمام لیویز، ٹیکس، ڈیوٹیاں، فیس اور ٹرانسفرچارجز لینے کی مجاز ہوگی۔ وزیراعظم اتھارٹی کا پیٹرن ہوگا جو کارکردگی کے جائزے سمیت پالیسی ہدایات جاری کرے گا۔حکومت چیئرمین سمیت 5 سے 11 ارکان پر مشتمل 5 سال کیلئے پالیسی بورڈ تشکیل دے گی۔ آرڈیننس میں مزید کہا گیا کہ حکومت گریڈ 22 یا مساوی حاضر یا ریٹائرڈ افسر کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کرے گی۔ آرمی کے لیفٹیننٹ جنرل کیعہدے کے مساوی حاضر یا ریٹائرڈ افسر بھی چیئرمین تعینات ہوسکیں گے۔ چیئرمین کیعہدے کی مدت چارسال ہوگی جس میں ایک بار توسیع ہوسکے گی۔پیٹرن، اتھارٹی، چیئرمین، ممبر یا کسی بھی عہدیدار یا ملازم کیخلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوسکیگی۔ اسی طرح آرڈیننس کے متن میں کہا گیا کہ اتھارٹی ایک یا زیادہ رجسٹرار مقرر کر سکے گی۔ رجسٹرار کو سول کورٹ کا اختیارہوگا جوکسی فرد یا دستاویزات کی طلبی کا مجاز ہوگا۔ اتھارٹی کے زیر انتظام ایک فنڈ بھی قائم کیا جاسکے گا۔ اتھارٹی کو دس سال کیلئے آمدنی، منافع اور وصولیوں پر ٹیکسوں کی چھوٹ ہوگی۔ آرڈیننس کی خلاف ورزی پر6 ماہ سے 7 سال تک قید اور جرمانہ کی سزائیں بھی دی جاسکیں گی۔