نواز شریف کادوبارہ انتخاب‘عدلیہ کو نیچا دکھانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں
شیئر کریں
حکمرانوں نے اصلاحات بل منظورکراکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کو پیروں تلے کچلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
مہذب دنیا میں کہیں یہ نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ میں اکثریت ہونے کی بنیاد پر آپ روایات اور تمام تر اخلاقیات کو ہی روند ڈالیں
پاکستان کی پارلیمنٹ سپریم ہے ‘لیکن کیا وہ امریکی کی کانگریس اور برطانیا کی پارلیمنٹ سے زیادہ سپریم ہونے کا دعویٰ کرسکتی ہے
دنیاکے جن ممالک میں وفاقی نظام حکومت نہیں‘ وہاں بھی پارلیمنٹ حدود قیود سے ماورا ہوکر کوئی بھی قانون سازی نہیں کرسکتی
مناسب عمل یہ تھا کہ صدا رتی ر یفرنس بھیج کر عدالت سے استفسار کیا جاتا کہ آئین کے آرٹیکل62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کیا ہے
شہلا حیات نقوی
پاکستان مسلم لیگ نواز کے کارکنان سے کھچا کھچ بھرے ہوئے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے پارٹی الیکشن میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کو ایک بار پھر بلا مقابلہ پارٹی کا صدر منتخب کرلیاگیاہے،نواز شریف کو یہ عہدہ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل کیے جانے کے بعد چھوڑناپڑا تھا۔ تاہم گذشتہ روز پارلیمنٹ میں اکثریت کے بل پر منظور کیے جانے والے انتخابی اصلاحات کے بل کے ذریعے ان کے پارٹی صدر بننے کی راہ میں حائل رکاوٹ دورکردی گئی تھی۔ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر انتخابات کااصلاحاتی بل منظور کراکے دراصل اپنی اکثریت کے بل پر عدلیہ کونیچا دکھانے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے نزدیک عدالتی فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیںہے،اوروہ عدالتی فیصلوںکو اس طرح اپنے پیروںتلے کچلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
دوبارہ پارٹی کاصدر منتخب کئے جانے کے بعد نواز شریف نے اپنی جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’آج کے دن ہم وہ قانون آمر مشرف کو لوٹا رہے ہیں جس نے نواز شریف کا راستہ بند کیا۔‘انھوں نے شاعری کا سہارا لیتے ہوئے سیاسی مخالفین کو کہا کہ ’دل کو بغض اور حسد سے رنجور نہ کریں‘۔انھوں نے اپنی جماعت کے کارکنوں اور رہنماؤں کو بھی اس اصول پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔ انھوں نے کارکنوں کو بھر قوت کے ساتھ انہیں واپس لانے پر خراج تحسین پیش کیا۔انھوں نے دعویٰ کیاکہ مسلم لیگ نون آج بھی پاکستان کی سب سے بڑی اور سب سے مقبول جماعت ہے۔انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’ہم نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ مجھے نااہل کرنے کی کیا وجہ ہے۔‘’آپ نے دیکھا کہ جو ملک کو ایٹمی قوت بناتے ہیں ان کا کیا حال کیا جاتا ہے۔ اور پاناما پہ نہیں بلکہ اقامہ پہ وزیرِ اعظم کو نکال دیا جاتا ہے۔`
سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں خبردار کررہا ہوں کہ حالات کو بدلنے کی کوشش نہ کی تو پاکستان ہمیں معاف نہیں کرے گا، پاکستان کا حق حکمرانی عوام کا حق ہے جس میں خیانت کا سلسلہ بند کیا جائے، تمیز الدین سے پاناما اور بے نظیر بھٹو قتل کیس کے فیصلے تک مقبول وزرائے اعظم کو پھانسی چڑھایا گیا اور اقتدار سے بے دخل کیا گیا، لیکن چاروں آمروں کی آئین شکنی کو ناجائز قرار نہیں دیا گیا بلکہ آمروں کی غیر مشروط وفاداری کے حلف اٹھائے گئے، آئین کی خلاف ورزی کرنے والے صادق بھی رہے امین بھی، آمروں کے 33 سالہ اقتدار میں آرٹیکل (3)184 کے تحت کوئی نوٹس نہیں لیا گیا، ان کے غیرآئینی کاموں کا کوئی جواز نہ ملا تو نظریہ ضرورت کو ایجاد کیا گیا، کاش کوئی نظریہ ضروریات عوام کے حق حکمرانی کے لیے بھی ایجاد کرلیا جاتا۔
نواز شریف نے کہا کہ وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا اور بحرانوں کا شکار ہوتا رہا، ہم اپنے ساتھ آزاد ہونے والے ممالک سے پیچھے رہ گئے، سقوط ڈھاکہ جیسے سانحے قوموں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں، زندگی میں انقلابی تبدیلی آجاتی ہے، لیکن اتنے دکھ کی بات ہے کہ ہم سقوط ڈھاکا کے بعد بھی وہی کچھ کرتے رہے جو پہلے کررہے تھے، اتنے بڑے سانحے سے بھی ہم نے کچھ سبق نہیں سیکھا، اپنا جائزہ لے کر اپنی اصلاح کرنے کو اپنا گھر ٹھیک کرنا کہتے ہیں، ہماری قومی زندگی میں ایسے بہت سے موقع آئے کہ اپنا جائزہ لیتے لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔
نواز شریف نے اپنی تقریر میں خود کو بالکل صاف شفاف اور دیانتدار ثابت کرنے کی کوشش تو کی اور بار بار بھٹو کوپھانسی دئے جانے اور آمروں کے دیگر فیصلوں کے حوالے دیتے رہے لیکن انھوں نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ وہ خود کم وبیش30سال تک اس ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بنے رہے اپنے اس دور حکومت میں انھوں نے ملک کے غریب عوام کی غربت میں کمی کرنے کے لیے کیا اقدامات کئے،انھوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ان کے بیٹوں نے اتنے کم عرصے میں برطانیا میں اتنی بڑی ایمپائرز کیسے کھڑی کرلیں، انھوں نے اپنی تقریر میں اس بات کابھی کوئی ذکر نہیں کیا کہ آخر کیاوجہ ہے کہ جب وہ پاکستان میں اقتدار میں ہوتے ہیں تب ہی برطانیا میں قائم ان کے بیٹوں کی کمپنیاں منافع میں جاتی ہیں اور بے مثال منافع کماتی ہیں لیکن ان کے اقتدار سے ہٹائے جاتے ہی ان کے بیٹوں کی کمپنیاں مسلسل خسارے کا شکار کیوں ہونے لگتی ہیں۔ یہ ایسے سوال ہیں جو اس ملک کے وہ غریب اور مفلوک الحال عوام جاننا چاہتے ہیں جن کی خدمت کے نام پر وہ بلا تنخواہ کام کرنے کو تیار رہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے وہ سیکڑوں پولیس اہلکاروں اور افسران کو جاتی امرا میں اپنی نجی املاک کی حفاظت پر لگادیتے ہیں اور ان پولیس والوںکوتنخواہیں اوورٹائم اور دیگر مراعات سرکاری خزانے سے ادا کی جاتی ہیں جس کی مجموعی رقم وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کوملنے والی تنخواہ سے کئی سو گنا زیادہ ہوتی ہے۔نواز شریف نے اپنی تقریر میں یہ بھی نہیں بتایا کہ دنیا کہ کس مہذب ملک میں اس طرح اپوزیشن کوروند کر ذاتی مفادات کی خاطر بل پاس کرایاجاتاہے۔
مہذب دنیا میں کہیں یہ نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ میں اکثریت ہونے کی بنیاد پر آپ روایات اور اخلاقیات کو ہی روند ڈالیں۔ پارلیمنٹ میں عوام کے نمائندے بیٹھتے ہیں اور وہ قانون بنانے کی طاقت رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود مہذب دنیا کا دستور ہے کہ قانون سازی کا اختیار حدودقیود سے محاورانہیں ہوتا۔ وفاق کے تحت جن ملکوں میں نظام حکومت چلتا ہے وہاں سپریم کورٹ کو جیوڈیشل ریویو یعنی عدالتی نظرثاتی کا اختیار دیا جاتا ہے۔ یہ اختیار دینے کی وجہ بڑی واضح ہے۔ پارلیمنٹ کے اختیارات اپنی جگہ لیکن وہ وفاق کی اکائیوں اورعوام کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کرے گی تو عدالت حرکت میں آئے گی۔ عدالتی نظرثانی کے تحت عدالت عظمیٰ مجلس قانون ساز کے منظور کردہ کسی بھی قانون جو بنیادی انسانی حقوق یا آئین کی روح کے منافی ہو کو کالعدم قرار دینے کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ اختیار پاکستان کی عدالت عظمیٰ کو بھی ہے ۔بعینہ جیسا کہ امریکی سپریم کورٹ جیوڈیشل ریویو کا اپنا حق استعمال کرتی ہے۔ آئین پاکستان عدالت عظمیٰ کو یہ اختیار دیتا ہے’ اٹھارویں آئینی ترمیم میں آئین کی اوورہالنگ کرتے وقت بھی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ جن ممالک میں وفاقی نظام حکومت نہیں ہے جیسا کہ برطانیا ہے جسے ایک اکائی سمجھا جاتا ہے وہاں بھی پارلیمنٹ حدود قیود سے ماورا ہوکر قاون سازی نہیں کرسکتی۔ برطانیا کی پارلیمنٹ جسے مدر آف آل پارلیمنٹس کہا جاتا ہے اختیارات کے لحاظ سے دنیا کی طاقتور ترین پارلیمنٹ سمجھی جاتی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ اگر ایک عورت کو مرد اور ایک مرد کو عورت قرار دے ڈالے تو اس کے راستے میں ایسا کرنے کی کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے مگر وہ ایسا نہیں کرسکتی کیونکہ ایسا کرنے سے پہلے اراکین پارلیمنٹ کو پاگل قرار دے دینا چاہیے۔ اختیارات کے اوپر روایات اور اخلاقیات کی قدغن نہ ہو تو طاقت جنون اور پاگل پن کا روپ کبھی بھی دھار سکتی ہے۔ وہ جنون اور پاگل پن جو آج کل ہمیں پاکستان کی پارلیمانی کارروائی میں کار فرما دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ سپریم ہے مگر کیا وہ امریکی کی کانگریس اور برطانیا کی پارلیمنٹ سے زیادہ سپریم ہونے کا دعویٰ کرسکتی ہے۔
عدالت عظمیٰ ایک شخص کی کرپشن کے الزامات اور اثاثے چھپانے کے الزام میں نااہل کرنے کا حکم صادر کرتی ہے اور آپ اس کو ایک سیاسی جماعت کا دوبارہ صدر بنانے کے لیے قانون سازی کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت ہے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر آپ عدالت عظمیٰ کا احکامات اور اس ساری کارروائی کو بلڈوز کرنا چاہتے ہیں جو عدالتی فیصلے کے تحت نواز شریف اوران کی فیملی کے خلاف ہو رہی ہے۔ ایک نااہل شخص جو پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا اہل نہیں رہا اس کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا سربراہ بننے کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟؟ یہ طرز عمل سراسر عدالت عظمیٰ کا مذاق اڑانے اور اس سے ٹکرانے کے مترادف ہے۔ اس سے زیادہ بہتر اور مناسب عمل یہ تھا کہ صدر پاکستان کی جانب سے ایک ریفرنس بھیج کر عدالت سے استفسار کیا جاتا کہ آئین کے آرٹیکل62 ون ایف کے تحت ہونے والی نااہلی کی مدت کیا ہے؟ جبکہ عدالت نظرثانی پٹیشن کے دوران خود یہ ریمارکس دے چکی ہے کہ ”کہاں لکھا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی تاحیات ہے” تو عدالتی تشریح یقینی طور پر ایسی ہوگی کہ معاملات سلجھ جائے۔ نواز شریف قبل ازیں دس سال مسلم لیگ ن کے صدر نہیں رہے تو کیا کوئی قیامت آگئی تھی؟ معاملات ان کی جلاوطنی کے باوجود احسن طریقے سے چلتے رہے اور وہ صدر نہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن کے امور پر حاوی رہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کیا انہوںنے مسلم لیگ ن کے صدر رہنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ دنیا میں ان سے کہیں زیادہ پاپولر رہنما آئے اور ایک وقت گزارنے کے بعد وہ کسی اور کے لیے جگہ چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔ تاحیات صدارت اور چیئرمین شپ کی موذی بلا نے پاکستانی سیاست کو گندے جوہڑ میں تبدیل کر دیا ہے۔ مائوزے تنگ جیسے عظیم رہنمائوں نے ایک وقت میں عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی مگر یہاں قرار دیا جاتاہے کہ نواز شریف کے بغیر کام نہیں چل سکتا ہے۔ نیلسن منڈیلا نے 29 برس جیل کاٹی ‘ وہ چاہتے تو ساری عمر جنوبی افریقہ کے صدر رہ سکتے تھے مگر انہوں نے ایک صدارتی مدت پوری کرنے کے بعد منصب دوسروں کے لیے چھوڑ دیا۔ کیا نواز شریف کو نیلسن منڈیلا سے زیادہ مقبولیت کا دعویٰ ہے؟ وہ پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں ‘ پنجاب جیسے بڑے صوبے پر گزشتہ دس سال سے ان کی جماعت حکمران ہے اور انہیں اب کیا چاہیے؟ شیر شاہ سوری کے تجربے نے ہمیں بتایا ہے کہ پانچ سال کا اقتدار بھی بہت ہوتا ہے’ شرط مگر یہ ہے کہ کام کی رفتار اور عزم شیر شاہ سوری والا ہونا چاہییےانتخابی اصلاحات کا بل ایک ایسا متنازعہ قانون ہے جسے ہر صورت عدالت میں چیلنج ہونا چاہیے چونکہ اس قانون میں ایسی دفعات موجود ہیں جنہوں نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ نواز شریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر بنانے کے لیے منظور کرائے جانے انتخابی اصلاحات کے اس بل کی شق نمبر203 جرائم پیشہ افراد کے لیے پارٹی صدارت کا راستہ کھول رہی ہے۔ کیا عدالت عظمیٰ آئین پاکستان کی محافظ ہونے کے ناطے اس قانونی فراڈ کا نوٹس نہیں لے گی؟ عدلیہ کی جانب سے اس کانوٹس لیے جانے کا یہی وہ خوف ہے جس کی وجہ سے نواز شریف اور ان کے قریبی سازندے کمال ہوشیاری سے عدلیہ کو دبائو میں لانے کی کوششکررہے ہیں اور عدالت کو بدنام کرنے اور اس کے فیصلوں کوجانبدارانہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں عدالت عظمیٰ کو اس کا بھی نوٹس لیتے ہوئے ایسی کوششیں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے عدلیہ کی آزادی برقرار رکھے گی۔امید کی جاتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے رہنما اپنے اعلانات کے مطابق اس بل کو فوری طورپر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کریں گے تاکہ اکثریت کے بل پر عوامی خواہشات کو کچلنے کا یہ طریقہ کار ختم ہوسکے۔