7ستمبر … یوم دفاعِ ختم نبوت
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
عقیدۂ ختم نبوت مسلمانوں کے ایمان کا ایک ایسا جزوِ لاینفک ہے کہ جس پر ایمان کی عمارت قائم ہے۔ اگر اس کی کسی اینٹ کو بھی درمیان سے نکال دیا جائے تو ایمان کی تمام عمارت دھڑام سے نیچے آکر گرجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد رسول اللہۖ کو اپنا آخری نبی بناکر اس دُنیا میں بھیجا ہے اور آپ پر ختم نبوت کی مہر ثبت کردی ہے، اس لئے اب آپۖ کی ختم نبوت پر ایمان لانا اور اس کا تحفظ کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ ختم نبوت کا تحفظ بھی در حقیقت آنحضرتۖ کی ذات کا تحفظ ہے ۔
اسلام کی ساڑھے چودہ سو سالہ درخشاں تاریخ کے مختلف ادوار میں جھوٹے مدعیانِ نبوت جنم لیتے رہے اور سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کے ساتھ کھیلتے رہے، لیکن دوسری طرف ختم نبوت کے پروانوں نے بھی اپنا کام تیزی سے جاری رکھے رکھا اور ان جھوٹے اور کذاب مدعیانِ نبوت کو اپنے مکروہ عزام میں کام یاب نہ ہونے دیا، بلکہ ہر قیمت پر آنحضرتۖ کی ختم نبوت کا دفاع اور تحفظ کیااور اس پر کسی بھی قسم کی آنچ نہ آنے کو اپنی نجاتِ اخروی کا باعث خیال کیا۔
برصغیر (پاک و ہند) میں فرنگی اقتدار کے زمانہ میں مسلمانوں کے دل و دماغ سے اسی عقیدۂ ختم نبوت کی گراں قدر دولت کو نکالنے کی غرض سے انگریز نے ایک بدبخت شخص مرزا غلام احمد قادیانی کو اس بات پر اُکسایا کہ وہ مسلمانوں کے ختم نبوت کے عقیدہ پر ضرب لگائے اور اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرے، تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے ہمارے خلاف جہاد کی آگ کو کسی طرح بجھایا جاسکے۔یہ لمحہ مسلمانوں کے لئے بڑا کٹھن اور مشکل مرحلہ تھا، لیکن علمائے حق نے مسلمانوں کی ہمت اور حوصلہ بڑھایا اور انہیں اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے عملی طور پر میدان میں آنے کی دعوت دی۔
1929ء سے پہلے فتنہ قادیانیت کے خلاف جتنی بھی جد و جہد ہوئی وہ انفرادی نوعیت کی تھی، لیکن یہی انفرادی محنت بعد میں آگے چل کر اجتماعی جد و جہد میں تبدیل ہوگئی، چنانچہ 1929ء میں امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے مجلس احرارِ اسلام کی بنیاد رکھی، 1930ء میں قادیانیوں کی کمین گاہ ”کشمیر کمیٹی” کا بائیکاٹ کیا، 1934ء میں شعبۂ تبلیغ تحفظ ختم نبوت قائم کیا ، اور قادیان میں ”احرار تبلیغ کانفرنس” منعقد کرکے ہندوستان بھرکے مسلمانوں کو مرزائی و قادیانی ہونے کی صورت میں مرتد ہونے سے بچایا اور اُن کے ایمان کے ہر قیمت پر تحفظ اور دفاع کو یقینی بنایا۔
1974ء اسی دور میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر اعظم بنے تو اُس دور میں قادیانوں کو غیر مسلم قرار دینے کے مطالبہ نے بہت زور پکڑا ، دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث اور شیعہ چاروں مکاتب فکر کی مجلس عمل تشکیل دی گئی ۔ مجلس عمل کا صدر مولانا سید محمد یوسف بنوری کو اور جزل سیکریٹری علامہ خالد محمود احمد رضوی صاحب کو بنایا گیا ۔ حکومت وقت نے تحریک سے مجبور ہوکر علماء کی بات مان لی اور اس مسئلہ کو اسمبلی میں پیش کردیا۔در اصل اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دو باتوں کا مغالطہ لگ گیا تھا اور وہ اسی ادھیڑ بن میں رہے کہ ”قادیانی اچھے بھلے مسلمان ہیں،انہیں کافر کیوں قرار دیا جائے ؟نیز قادیانیوں کی اتنی بڑی اور منظم جماعت ہے، ان کے پاس اسمبلی میں اپنے دفاع کے لئے بہت مواد ہوگا ، وہ اپنا دفاع خوب کرلیں گے ”۔ انہوں نے اسی غلط فہمی کی وجہ سے ( آنجہانی) مرزا ناصر احمد کو اسمبلی میں مسلمانوں کے جوابات دینے کی دعوت دی اور کہا : آؤ! اور خوب تیاری کرکے مسلمانوں کے سوالوں کے جواب دو،تاکہ کسی کے دل میں حسرت باقی نہ رہے ” ۔یہ مسلمانوں کے لئے بہت ہی اچھا ہوا ۔ مجلس تحفظ ختم نبوت اسلام آباد کے دفتر میں مولانا محمد یوسف بنوری نے ڈیرہ لگالیا ۔ مولانا اللہ وسایا ، مولانا عبد الرحیم اشعر ، فاتح قادیانیت مولانا محمد حیات ، مولانا محمد شریف جالندھری اور قومی اسمبلی کے رکن اور جمعیت علمائے اسلام کے ناظم اعلیٰ مولانا مفتی محمود صاحب بھی دفتر سے وابستہ ہوگئے ۔ مولانا مفتی محمودصاحب کو جماعت کی طرف سے قومی اسمبلی میں نمائندہ مقرر کردیا گیا ۔ صبح سے شام تک آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابیں سامنے رکھ کر حوالہ جات پر نشان لگائے جاتے اور کیس تیار ہوتا رہتا اور اسے مفتی محمود صاحب کے حوالے کردیا جاتا ۔
ایک روز (آنجہانی ) مرزا ناصر جب قومی اسمبلی میں داخل ہوا تو بھٹو نے وزیر قانون عبد الحفیظ پیر زادہ کی طرف دیکھ کر کہا : دیکھو ! کیسا بزرگ آدمی ہے ۔ اس کی اتنی اچھی ڈاڑھی اور نورانی چہرہ ہے ،لوگ اس کو کافر کہتے ہیں”۔مولانا مفتی محمود نے قومی اسمبلی میں اپنا کیس پیش کیا ۔ جب سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو مفتی صاحب آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں کے حوالے پڑھتے گئے ، اس وقت قومی اسمبلی کے تمام ارکان مفتی صاحب کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے اور سبھی ہمہ تن گوش تھے ۔ مفتی محمود صاحب فرمانے لگے: بھائی! میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا ، یہ مرزا صاحب کی کتابیں پڑھی ہیں، جس کو شک ہے وہ آکر دیکھ لے اور مرزا ناصر اسمبلی میں موجود ہے ، اگر یہ میرے کسی حوالے کو جھٹلادے تو میں مان لوں گا ”۔
آنجہانی مرزا ناصر خاموش تھا اور پانی پیے جارہا تھا ، وہ پسینے میں شرابور ہوچکا تھا اور بار بار اپنا پسینہ صاف کر رہا تھا ، اس طرح کئی روز بحث چلتی رہی اور مفتی محمود صاحب مقدمہ لڑتے رہے ۔ مولانا محمد یوسف بنوری نے دفتر میں مصلّٰی بچھا رکھاتھا اور ہر وقت دعاؤں میں لگے رہتے کہ: اے اللہ پاک! اپنے محبوب اکے صدقے اپنے محبوب اکی عزت کی حفاظت فرما اور مسلمانوں کو اس فتنہ سے نجات عطا فرما”۔ اس اللہ کے بندے کی دعائیں لگا تار ”عرشِ عظیم” تک پہنچ رہی تھیں ۔
ایک روز مفتی محمود صاحب نے بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: یہ مرزا غلام احمد قادیانی کی کتاب ہے ، جس میں لکھا ہے کہ : مجھے نہ ماننے والے” کتیوں” اور” سورنیوں ”کی اولاد ہیں ، ان کی عورتیں ”جنگلوں کی سورنیاں” ہیں اور یہ خود ”ولد الحرام” ہیں ”۔ آپ مرزا ناصر سے پوچھیے کہ یہ عبارت غلط ہے؟بھٹوصاحب! مرزا غلام احمد قادیانی نے کسی کو معاف نہیں کیا ، اس میں تم بھی آگئے ہو اور ہم بھی”۔
چنانچہ بھٹو نے ( آنجہانی) مرزا ناصر سے پوچھا: کیا عبارت ٹھیک ہے؟” مرزا ناصر نے کہا : ” جی ہاں!”بھٹو نے پوچھا : تم بھی اسے مانتے ہو!” مرزا ناصر نے جواب دیا :”جی ہاں!” ۔
مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں کہ: اس وقت مرزا ناصر بار بار اپنا پسینہ صاف کر رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ پانی بھی پیے جارہا
تھا ۔ بھٹو نے حفیظ پیرزادہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا : یہ بہت بے ایمان ہے ، ہمیں صاف گالیاں دی جارہی ہیں ”۔ اب جب بحث شروع ہوئی تو مفتی محمودصاحب نے فرمایا: اب باقی کیا رہ گیا ہے؟ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا ہے ”۔ اس طرح مرزا ناصر کو شکست فاش ہوئی اور بھری اسمبلی میں وہ مفتی صاحب کے کسی ایک سوال کا بھی جواب نہ دے سکا ۔
اس کے بعد مفتی محمود صاحب بر سر مطلب آئے اور فرمایا : ” اب سب مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ یہ کافر ہیں اور دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔ اب تم بھی مان لو!”۔اس پر کافی لے دے ہوئی ۔ مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں : رات کا ایک بج گیاتھا ، اور بھٹو صاحب بضد رہے کہ” کافر تو لکھوالو مگر غیر مسلم نہ لکھواؤ ” ۔ہم رات ایک بجے غصہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ : اچھا اب صبح ہونے دو،دیکھو! پھر کیا ہوتا ہے؟”جب ہم دروازے میں آگئے تو بھٹو نے پیچھے سے بھاگ کر ہمیں پکڑ لیا اور کہنے لگا : مفتی صاحب! آؤ! جیسا آپ کہتے ہیں ویسا ہی لکھ دیتا ہوں”۔ بالآخر بھٹو نے ہمارا مطالبہ مان لیا اور قادیانیوں کو کافر اور غیر مسلم قرار دے دیا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرلیا گیا کہ قادیانی کلیدی آسامیوں پر فائز نہیں رہیں گے ، یہاں تک کہ قادیانیوں کو اسامیوں سے الگ کروانے کا کام شروع ہوگیا۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔ بھٹو نے دستخط کردیے ، پھر تمام ارکانِ اسمبلی نے باری باری اپنے اپنے دستخط کیے اوراس طرح متفقہ طور پر قادیانیوں
کے خلاف قومی اسمبلی میں قرار داد منظور ہوگئی، اور قادیانی کافر اور غیر مسلم قرار دے دیے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔